(مرفوع) حدثنا قتيبة، عن مالك. ح وحدثنا الانصاري إسحاق بن موسى، حدثنا معن، حدثنا مالك، عن صفوان بن سليم، عن سعيد بن سلمة من آل ابن الازرق، ان المغيرة بن ابي بردة وهو من بني عبد الدار اخبره، انه سمع ابا هريرة، يقول: سال رجل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله إنا نركب البحر ونحمل معنا القليل من الماء، فإن توضانا به عطشنا، افنتوضا من ماء البحر؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " هو الطهور ماؤه الحل ميتته ". قال: وفي الباب عن جابر , والفراسي. قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وهو قول اكثر الفقهاء من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، منهم ابو بكر , وعمر , وابن عباس لم يروا باسا بماء البحر، وقد كره بعض اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم الوضوء بماء البحر، منهم ابن عمر , وعبد الله بن عمرو، وقال عبد الله بن عمرو: هو نار.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ. ح وحَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ إِسْحَاق بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَلَمَةَ مِنْ آلِ ابْنِ الْأَزْرَقِ، أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ أَبِي بُرْدَةَ وَهُوَ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: سَأَلَ رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَرْكَبُ الْبَحْرَ وَنَحْمِلُ مَعَنَا الْقَلِيلَ مِنَ الْمَاءِ، فَإِنْ تَوَضَّأْنَا بِهِ عَطِشْنَا، أَفَنَتَوَضَّأُ مِنْ مَاءِ الْبَحْرِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ الْحِلُّ مَيْتَتُهُ ". قال: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ , وَالْفِرَاسِيِّ. قال أبو عيسى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ الْفُقَهَاءِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْهُمْ أَبُو بَكْرٍ , وَعُمَرُ , وَابْنُ عَبَّاسٍ لَمْ يَرَوْا بَأْسًا بِمَاءِ الْبَحْرِ، وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوُضُوءَ بِمَاءِ الْبَحْرِ، مِنْهُمْ ابْنُ عُمَرَ , وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو: هُوَ نَارٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم سمندر کا سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا پانی لے جاتے ہیں، اگر ہم اس سے وضو کر لیں تو پیاسے رہ جائیں گے، تو کیا ایسی صورت میں ہم سمندر کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں؟ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”سمندر کا پانی پاک ۱؎ ہے، اور اس کا مردار حلال ہے“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں جابر بن عبداللہ اور فراسی رضی الله عنہم سے بھی روایت ہے، ۳- اور یہی صحابہ کرام رضی الله عنہم میں سے اکثر فقہاء کا قول ہے جن میں ابوبکر، عمر اور ابن عباس بھی ہیں کہ سمندر کے پانی سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں، بعض صحابہ کرام نے سمندر کے پانی سے وضو کو مکروہ جانا ہے، انہیں میں ابن عمر اور عبداللہ بن عمرو ہیں عبداللہ بن عمرو کا کہنا ہے کہ سمندر کا پانی آگ ہے۔
وضاحت: ۱؎: یعنی «طاہر»(پاک) اور «مطہر»(پاک کرنے والا) دونوں ہے۔
۲؎: سمندر کے مردار سے مراد وہ سمندری اور دریائی جانور ہے جو صرف پانی ہی میں زندہ رہتا ہو، نیز مردار کا لفظ عام ہے ہر طرح کے جانور جو پانی میں رہتے ہوں خواہ وہ کتے اور خنزیر کے شکل کے ہی کے کیوں نہ ہوں، بعض علماء نے کہا ہے کہ اس سے مراد صرف مچھلی ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”دو مردے حلال ہیں: مچھلی اور ٹڈی، اور بعض علماء کہتے ہیں کہ خشکی میں جس حیوان کے نظیر و مثال جانور کھائے جاتے وہی سمندری مردار حلال ہے، لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ سمندر کا ہر وہ جانور (زندہ یا مردہ) حلال ہے جو انسانی صحت کے لیے عمومی طور پر نقصان دہ نہ ہو، اور نہ ہی خبیث قسم کا ہو جیسے کچھوا، اور کیکڑا وغیرہ، یہ دونوں اصول ضابطہٰ سمندری غیر سمندری ہر طرح کے جانور کے لیے ہیں۔