(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا شريك، عن ابي اليقظان، عن عدي بن ثابت، عن ابيه، عن جده، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال في المستحاضة: " تدع الصلاة ايام اقرائها التي كانت تحيض فيها ثم تغتسل، وتتوضا عند كل صلاة وتصوم وتصلي ".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ فِي الْمُسْتَحَاضَةِ: " تَدَعُ الصَّلَاةَ أَيَّامَ أَقْرَائِهَا الَّتِي كَانَتْ تَحِيضُ فِيهَا ثُمَّ تَغْتَسِلُ، وَتَتَوَضَّأُ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ وَتَصُومُ وَتُصَلِّي ".
عدی کے دادا عبید بن عازب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے مستحاضہ کے سلسلہ میں فرمایا: ”وہ ان دنوں میں جن میں اسے حیض آتا ہو نماز چھوڑے رہے، پھر وہ غسل کرے، اور (استحاضہ کا خون آنے پر) ہر نماز کے لیے وضو کرے، روزہ رکھے اور نماز پڑھے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطہارة 113 (397)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 115 (625)، (تحفة الأشراف: 3542)، سنن الدارمی/الطہارة 83 (820) (صحیح) (اس کی سند میں ابو الیقظان ضعیف، اور شریک حافظہ کے کمزور ہیں، مگر دوسری سندوں اور حدیثوں سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)۔»
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا شريك نحوه بمعناه. قال ابو عيسى: هذا حديث قد تفرد به شريك، عن ابي اليقظان، قال: وسالت محمدا عن هذا الحديث، فقلت: عدي بن ثابت، عن ابيه، عن جده جد عدي ما اسمه؟ فلم يعرف محمد اسمه، وذكرت لمحمد قول يحيى بن معين ان اسمه: دينار، فلم يعبا به، وقال احمد , وإسحاق في المستحاضة: إن اغتسلت لكل صلاة هو احوط لها، وإن توضات لكل صلاة اجزاها، وإن جمعت بين الصلاتين بغسل واحد اجزاها.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شُرَيْكٌ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ قَدْ تَفَرَّدَ بِهِ شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ، قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقُلْتُ: عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ جَدُّ عَدِيٍّ مَا اسْمُهُ؟ فَلَمْ يَعْرِفْ مُحَمَّدٌ اسْمَهُ، وَذَكَرْتُ لِمُحَمَّدٍ قَوْلَ يَحْيَى بْنِ مَعِينٍ أَنَّ اسْمَهُ: دِينَارٌ، فَلَمْ يَعْبَأْ بِهِ، وقَالَ أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق في المستحاضة: إِنِ اغْتَسَلَتْ لِكُلِّ صَلَاةٍ هُوَ أَحْوَطُ لَهَا، وَإِنْ تَوَضَّأَتْ لِكُلِّ صَلَاةٍ أَجْزَأَهَا، وَإِنْ جَمَعَتْ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ بِغُسْلٍ وَاحِدٍ أَجْزَأَهَا.
اس سند سے بھی شریک نے اسی مفہوم کے ساتھ اسی طرح کی حدیث بیان کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث میں شریک ابوالیقظان سے روایت کرنے میں منفرد ہیں، ۲- احمد اور اسحاق بن راہویہ مستحاضہ عورت کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر وہ ہر نماز کے وقت غسل کرے تو یہ اس کے لیے زیادہ احتیاط کی بات ہے اور اگر وہ ہر نماز کے لیے وضو کرے تو یہ اس کے لیے کافی ہے اور اگر وہ ایک غسل سے دو نمازیں جمع کرے تو بھی کافی ہے۔