(مرفوع) حدثنا إسحاق بن موسى الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك بن انس، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، عن حميدة بنت عبيد بن رفاعة، عن كبشة بنت كعب بن مالك، وكانت عند ابن ابي قتادة، ان ابا قتادة دخل عليها، قالت: فسكبت له وضوءا , قالت: فجاءت هرة تشرب فاصغى لها الإناء حتى شربت , قالت كبشة: فرآني انظر إليه , فقال: اتعجبين يا بنت اخي؟ فقلت: نعم , قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إنها ليست بنجس إنما هي من الطوافين عليكم او الطوافات " , وقد روى بعضهم، عن مالك، وكانت عند ابي قتادة، والصحيح ابن ابي قتادة، قال: وفي الباب عن عائشة , وابي هريرة. قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وهو قول اكثر العلماء من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن بعدهم، مثل الشافعي، واحمد، وإسحاق لم يروا بسؤر الهرة باسا، وهذا احسن شيء روي في هذا الباب، وقد جود مالك هذا الحديث، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، ولم يات به احد اتم من مالك.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ حُمَيْدَةَ بِنْتِ عُبَيْدِ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ كَبْشَةَ بِنْتِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، وَكَانَتْ عِنْدَ ابْنِ أَبِي قَتَادَةَ، أَنَّ أَبَا قَتَادَةَ دَخَلَ عَلَيْهَا، قَالَتْ: فَسَكَبْتُ لَهُ وَضُوءًا , قَالَتْ: فَجَاءَتْ هِرَّةٌ تَشْرَبُ فَأَصْغَى لَهَا الْإِنَاءَ حَتَّى شَرِبَتْ , قَالَتْ كَبْشَةُ: فَرَآنِي أَنْظُرُ إِلَيْهِ , فَقَالَ: أَتَعْجَبِينَ يَا بِنْتَ أَخِي؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ , قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّهَا لَيْسَتْ بِنَجَسٍ إِنَّمَا هِيَ مِنَ الطَّوَّافِينَ عَلَيْكُمْ أَوِ الطَّوَّافَاتِ " , وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ، عَنْ مَالِكٍ، وَكَانَتْ عِنْدَ أَبِي قَتَادَةَ، وَالصَّحِيحُ ابْنُ أَبِي قَتَادَةَ، قال: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ الْعُلَمَاءِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، مِثْلِ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق لَمْ يَرَوْا بِسُؤْرِ الْهِرَّةِ بَأْسًا، وَهَذَا أَحَسَنُ شَيْءٍ رُوِيَ فِي هَذَا الْبَابِ، وَقَدْ جَوَّدَ مَالِكٌ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، وَلَمْ يَأْتِ بِهِ أَحَدٌ أَتَمَّ مِنْ مَالِكٍ.
کبشہ بنت کعب (جو ابن ابوقتادہ کے نکاح میں تھیں) کہتی ہیں کہ ابوقتادہ میرے پاس آئے تو میں نے ان کے لیے (ایک برتن) وضو کا پانی میں ڈالا، اتنے میں ایک بلی آ کر پینے لگی تو انہوں نے برتن کو اس کے لیے جھکا دیا تاکہ وہ (آسانی سے) پی لے، کبشہ کہتی ہیں: ابوقتادہ نے مجھے دیکھا کہ میں ان کی طرف تعجب سے دیکھ رہی ہوں تو انہوں نے کہا: بھتیجی! کیا تم کو تعجب ہو رہا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”یہ (بلی) نجس نہیں، یہ تو تمہارے پاس برابر آنے جانے والوں یا آنے جانے والیوں میں سے ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عائشہ اور ابوہریرہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث مروی ہیں، ۲- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۳- صحابہ کرام اور تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم مثلاً شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے کہ بلی کے جھوٹے میں کوئی حرج نہیں، اور یہ سب سے اچھی حدیث ہے جو اس باب میں روایت کی گئی ہے۔
وضاحت: ۱؎: اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ بلی کا جھوٹا ناپاک نہیں ہے، بشرطیکہ اس کے منہ پر نجاست نہ لگی ہو، اس حدیث میں بلی کو گھر کے خادم سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ خادموں کی طرح اس کا بھی گھروں میں آنا جانا بہت رہتا ہے، اگر اسے نجس و ناپاک قرار دے دیا جاتا تو گھر والوں کو بڑی دشواری پیش آتی۔