حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی رعایا کا نگہبان بنے پھر اسے دھوکہ دے وہ جہنم میں جائے گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 7150، م: 142، وهذا إسناد قوي
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کسی بھی قوم کا حکمران خواہ اس کی رعایا تھوڑی ہو یا زیادہ اگر اس کے ساتھ انصاف سے کام نہیں لیتا اللہ اسے جہنم میں اوندھے منہ پھینک دے گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، ابنة معقل بن يسار لا تعرف
حدثنا إسماعيل ، عن يونس ، عن الحسن , ان معقل بن يسار اشتكى، فدخل عليه عبد الله بن زياد يعني يعوده، فقال: اما إني ساحدثك حديثا لم اكن حدثتك به، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم او إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا يسترعي الله تبارك وتعالى عبدا رعية، فيموت يوم يموت وهو لها غاش، إلا حرم الله عليه الجنة" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ , أَنَّ مَعْقِلَ بْنَ يَسَارٍ اشْتَكَى، فَدَخَلَ عَلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ يَعْنِي يَعُودُهُ، فَقَالَ: أَمَا إِنِّي سَأُحَدِّثُكَ حَدِيثًا لَمْ أَكُنْ حَدَّثْتُكَ بِهِ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يَسْتَرْعِي اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى عَبْدًا رَعِيَّةً، فَيَمُوتُ يَوْمَ يَمُوتُ وَهُوَ لَهَا غَاشٌّ، إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ" .
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی رعایا کا نگہبان بنے پھر اسے دھوکہ دے اور اسی حال میں مرجائے تو اللہ اس پر جنت کو حرام قرار دے دیتا ہے۔
عیاض کہتے ہیں کہ میں نے دو آدمیوں کو حضرت معقل کی موجودگی میں جھگڑا کرتے ہوئے دیکھا حضرت معقل نے فرمایا کہ رسول اللہ کا یہ ارشاد ہے کہ جو شخص کسی بات پر جھوٹی قسم کھاتا ہے کہ کسی کا مال ناحق لے لے وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ کا اس پر غضب ہوگا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عياض ابي خالد
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ غزوہ حدیبیہ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک سے درخت کی ایک ٹہنی کو بلند کر رکھا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے بیعت لے رہے تھے اس دن لوگوں نے اس شرط پر بیعت کی تھی کہ راہ فرار اختیار نہیں کریں گے اور اس موقع پر ان کی تعداد چودہ سو پر مشتمل تھی۔ حکیم بن اعرج کہتے ہیں ید اللہ فوق ایدیھم کا بھی یہی مقصد تھا کہ وہ راہ فرار اختیار نہیں کریں گے۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن شعبة ، حدثني عياض ابو خالد ، قال: كان بين جارين لمعقل بن يسار كلام، فصارت اليمين على احدهما، فسمعت معقل بن يسار يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من حلف على يمين يقتطع بها مال اخيه، لقي الله وهو عليه غضبان" ..حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، حَدَّثَنِي عِيَاضٌ أَبُو خَالِدٍ ، قَالَ: كَانَ بَيْنَ جَارَيْنِ لمَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ كَلَامٌ، فَصَارَتْ الْيَمِينُ عَلَى أَحَدِهِمَا، فَسَمِعْتُ مَعْقِلَ بْنَ يَسَارٍ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ يَقْتَطِعُ بِهَا مَالَ أَخِيهِ، لَقِيَ اللَّهَ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ" ..
عیاض کہتے ہیں کہ میں نے دو آدمیوں کو حضرت معقل کی موجودگی میں جھگڑا کرتے ہوئے دیکھا حضرت معقل نے فرمایا کہ رسول اللہ کا یہ ارشاد ہے کہ جو شخص کسی بات پر جھوٹی قسم کھاتا ہے کہ کسی کا مال ناحق لے لے وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ کا اس پر غضب ہوگا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عياض
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک انصاری آدمی نے ایک عورت سے شادی کی اس عورت کے بال گرنے لگے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا گیا کہ کیا وہ کسی دوسرے کے بال اپنے بالوں سے ملاسکتی ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بال ملانے والی اور ملوانے والی دونوں پر لعنت کی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد لأجل الفضل بن دلهم
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہرج (قتل) کے زمانے میں عبادت کرنا میری طرف ہجرت کرکے آنے کے برابر ہوگا۔
حدثنا عبد الصمد , وعفان , قالا: حدثنا المثنى بن عوف ، حدثنا ابو عبد الله الجسري ، قال: سالت معقل بن يسار عن الشراب، فقال: كنا بالمدينة، وكانت كثيرة التمر، " فحرم علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم الفضيخ" , واتاه رجل فساله عن ام له عجوز كبيرة: انسقيها النبيذ، فإنها لا تاكل الطعام؟ فنهاه معقل.حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ , وَعَفَّانُ , قَالَا: حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ عَوْفٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْجَسْرِيُّ ، قَالَ: سَأَلْتُ مَعْقِلَ بْنَ يَسَارٍ عَنِ الشَّرَابِ، فَقَالَ: كُنَّا بِالْمَدِينَةِ، وَكَانَتْ كَثِيرَةَ التَّمْرِ، " فَحَرَّمَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْفَضِيخَ" , وَأَتَاهُ رَجُلٌ فَسَأَلَهُ عَنْ أُمٍّ لَهُ عَجُوزٍ كَبِيرَةٍ: أَنَسْقِيهَا النَّبِيذَ، فَإِنَّهَا لَا تَأْكُلُ الطَّعَامَ؟ فَنَهَاهُ مَعْقِلٌ.
ابو عبداللہ جسری کہتے ہیں میں نے حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مشروبات کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم لوگ مدینہ منوہ میں رہتے تھے جہاں کھجوریں کثرت سے ہوتی تھیں وہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم پر فضیح نامی شراب کو حرام قرار دے دیا تھا پھر ایک آدمی نے آکر حضرت معقل بن سیار سے اپنی بوڑھی والدہ کے متعلق پوچھا کہ کیا انہیں نبیذ پلائی جاسکتی ہے کیونکہ وہ کھانے کی کوئی چیز نہیں کھاسکتی تو حضرت معقل نے اس سے منع فرمایا۔
حدثنا عارم ، حدثنا معتمر ، عن ابيه ، عن رجل ، عن ابيه ، عن معقل بن يسار , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " البقرة سنام القرآن وذروته، نزل مع كل آية منها ثمانون ملكا، واستخرجت الله لا إله إلا هو الحي القيوم سورة البقرة آية 255 من تحت العرش، فوصلت بها، او فوصلت بسورة البقرة، ويس قلب القرآن، لا يقرؤها رجل يريد الله تبارك وتعالى والدار الآخرة إلا غفر له، واقرءوها على موتاكم" .حَدَّثَنَا عَارِمٌ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الْبَقَرَةُ سَنَامُ الْقُرْآنِ وَذُرْوَتُهُ، نَزَلَ مَعَ كُلِّ آيَةٍ مِنْهَا ثَمَانُونَ مَلَكًا، وَاسْتُخْرِجَتْ اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ سورة البقرة آية 255 مِنْ تَحْتِ الْعَرْشِ، فَوُصِلَتْ بِهَا، أَوْ فَوُصِلَتْ بِسُورَةِ الْبَقَرَةِ، وَيس قَلْبُ الْقُرْآنِ، لَا يَقْرَؤُهَا رَجُلٌ يُرِيدُ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَالدَّارَ الْآخِرَةَ إِلَّا غُفِرَ لَهُ، وَاقْرَءُوهَا عَلَى مَوْتَاكُمْ" .
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورت بقرہ قرآن کریم کا کوہان اور اس کی بلندی ہے اس کی ہر آیت کے ساتھ اسی فرشتے نازل ہوئے اور آیت الکرسی عرش کے نیچے سے نکال کر لائی گئی جسے بعد میں سورت بقرہ سے ملا دیا گیا اور سورت یسین قرآن کریم کا دل ہے جو شخص بھی اسے اللہ کو اور راہ آخرت کو حاصل کرنے کے لئے بڑھتا ہے اس کی بخشش کردی جاتی ہے اور اسے اپنے مردوں پر پڑھا کرو۔
حدثنا محمد بن عبد الله بن الزبير ، حدثنا الحكم بن عطية ، عن ابي الرباب ، قال: سمعت معقل بن يسار , يقول: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في مسير له، فنزلنا في مكان كثير الثوم، وإن اناسا من المسلمين اصابوا منه، ثم جاءوا إلى المصلى يصلون مع النبي صلى الله عليه وسلم، فنهاهم عنها، ثم جاءوا بعد ذلك إلى المصلى، فنهاهم عنها، ثم جاءوا بعد ذلك إلى المصلى، فنهاهم عنها، ثم جاءوا بعد ذلك إلى المصلى فوجد ريحها منهم، فقال: " من اكل من هذه الشجرة، فلا يقربنا في مسجدنا" ..حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ عَطِيَّةَ ، عَنْ أَبِي الرَّبَابِ ، قَالَ: سَمِعْتُ مَعْقِلَ بْنَ يَسَارٍ , يَقُولُ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسِيرٍ لَهُ، فَنَزَلْنَا فِي مَكَانٍ كَثِيرِ الثُّومِ، وَإِنَّ أُنَاسًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ أَصَابُوا مِنْهُ، ثُمَّ جَاءُوا إِلَى الْمُصَلَّى يُصَلُّونَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَهَاهُمْ عَنْهَا، ثُمَّ جَاءُوا بَعْدَ ذَلِكَ إِلَى الْمُصَلَّى، فَنَهَاهُمْ عَنْهَا، ثُمَّ جَاءُوا بَعْدَ ذَلِكَ إِلَى الْمُصَلَّى، فَنَهَاهُمْ عَنْهَا، ثُمَّ جَاءُوا بَعْدَ ذَلِكَ إِلَى الْمُصَلَّى فَوَجَدَ رِيحَهَا مِنْهُمْ، فَقَالَ: " مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ، فَلَا يَقْرَبْنَا فِي مَسْجِدِنَا" ..
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے ہم نے ایک ایسی جگہ پڑاؤ کیا جہاں لہسن کی کثرت موجود تھی کچھ مسلمانوں نے اسے کھایا پھر مسجد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے لگے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لہسن کچا کھانے سے منع فرمایا دوبارہ ایسا ہوا تو دوبارہ منع کیا اور تیسری مرتبہ ایسا ہونے پر فرمایا جو شخص اس درخت سے کچھ کھائے وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف الجهالة ابي الرباب، وأخطأ محمد بن عبدالله فى تسمية الحكم بن عطية، وانما هو: الحكم بن طهمان
گزشتہ حدیث اس دوسری سند کے ہمراہ بھی منقول ہے۔ حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے اتنا عرصہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم نشینی کا شرف حاصل کیا ہے۔
حضرت معقل سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا میں اپنی قوم میں فیصلے کیا کروں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں اچھی طرح فیصلہ نہیں کرنا جانتا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قاضی کے ساتھ اللہ ہوتا ہے جب تک وہ جان بوجھ کر ظلم نہ کرے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، نفيع بن الحارث متروك متهم
حدثنا ابو احمد الزبيري ، حدثنا خالد يعني ابن طهمان ابو العلاء الخفاف ، حدثني نافع بن ابي نافع ، عن معقل بن يسار ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من قال حين يصبح ثلاث مرات: اعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم، وقرا الثلاث آيات من آخر سورة الحشر، وكل الله به سبعين الف ملك يصلون عليه حتى يمسي، إن مات في ذلك اليوم مات شهيدا، ومن قالها حين يمسي كان بتلك المنزلة" .حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ طَهْمَانَ أَبُو الْعَلَاءِ الْخَفَّافُ ، حَدَّثَنِي نَافِعُ بْنُ أَبِي نَافِعٍ ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ قَالَ حِينَ يُصْبِحُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ: أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ، وَقَرَأَ الثَّلَاثَ آيَاتٍ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْحَشْرِ، وَكَّلَ اللَّهُ بِهِ سَبْعِينَ أَلْفَ مَلَكٍ يُصَلُّونَ عَلَيْهِ حَتَّى يُمْسِيَ، إِنْ مَاتَ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ مَاتَ شَهِيدًا، وَمَنْ قَالَهَا حِينَ يُمْسِي كَانَ بِتِلْكَ الْمَنْزِلَةِ" .
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص صبح کے وقت تین مرتبہ اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم پڑھ کر سورت حشر کی آخری تین آیات پڑھ لے اللہ اس پر ستر ہزار فرشتے مقرر فرما دیتا ہے جو شام تک اس کے لئے دعائیں کرتے رہتے ہیں اور اگر وہ اسی دن فوت ہوجائے تو شہادت کی موت مرے گا اور جو شخص شام کو یہ کلمات کہے تو اس کا بھی یہی مرتبہ ہوگا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، خالد بن طهمان ضعيف مختلط، ونافع بن أبى نافع إن كان هو نفيع بن الحارث أبا داود فهو متروك ، وإن كان غيره فهو مجهول
حدثنا ابو احمد ، حدثنا خالد يعني ابن طهمان ، عن نافع بن ابي نافع ، عن معقل بن يسار ، قال: وضات النبي صلى الله عليه وسلم ذات يوم، فقال: " هل لك في فاطمة رضي الله عنها تعودها؟" فقلت: نعم , فقام متوكئا علي، فقال:" اما إنه سيحمل ثقلها غيرك، ويكون اجرها لك" قال: فكانه لم يكن علي شيء حتى دخلنا على فاطمة عليها السلام , فقال لها:" كيف تجدينك؟" قالت: والله، لقد اشتد حزني، واشتدت فاقتي، وطال سقمي ، قال ابو عبد الرحمن: وجدت في كتاب ابي بخط يده في هذا الحديث قال:" او ما ترضين اني زوجتك اقدم امتي سلما، واكثرهم علما، واعظمهم حلما".حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ طَهْمَانَ ، عَنْ نَافِعِ بْنِ أَبِي نَافِعٍ ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ ، قَالَ: وَضَّأْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، فَقَالَ: " هَلْ لَكَ فِي فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَعُودُهَا؟" فَقُلْتُ: نَعَمْ , فَقَامَ مُتَوَكِّئًا عَلَيَّ، فَقَالَ:" أَمَا إِنَّهُ سَيَحْمِلُ ثِقَلَهَا غَيْرُكَ، وَيَكُونُ أَجْرُهَا لَكَ" قَالَ: فَكَأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ عَلَيَّ شَيْءٌ حَتَّى دَخَلْنَا عَلَى فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام , فَقَالَ لَهَا:" كَيْفَ تَجِدِينَكِ؟" قَالَتْ: وَاللَّهِ، لَقَدْ اشْتَدَّ حُزْنِي، وَاشْتَدَّتْ فَاقَتِي، وَطَالَ سَقَمِي ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: وَجَدْتُ فِي كِتَابِ أَبِي بِخَطِّ يَدِهِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ قَالَ:" أَوَ مَا تَرْضَيْنَ أَنِّي زَوَّجْتُكِ أَقْدَمَ أُمَّتِي سِلْمَا، وَأَكْثَرَهُمْ عِلْمًا، وَأَعْظَمَهُمْ حِلْمًا".
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرایا وضو کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم فاطمہ کے یہاں چلو گے کہ ان کی عیادت کرلیں میں نے عرض کی جی بالکل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر سہارا لیا اور کھڑے ہوئے اور فرمایا عنقریب اس کا بوجھ تمہارے علاوہ کوئی اور اٹھائے گا اور تمہیں بھی اجر ملے گا راوی کہتے ہیں کہ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے مجھ پر کچھ بھی نہیں ہے یہاں تک کہ ہم لوگ حضرت فاطمہ کے گھر پہنچ گئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تمہارا کیا حال ہے انہوں نے کہا واللہ میرا غم بڑھ گیا ہے اور فاقہ شدید ہوگیا اور بیماری لمبی ہوگئی ہے۔ عبداللہ بن احمد کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کی کتاب میں ان کی لکھائی میں اس حدیث کے بعد یہ اضافہ بھی پایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ میں نے تمہارا نکاح اپنی امت میں سے اس شخص کے ساتھ کیا ہے جو اسلام لانے میں سب سے مقدم، علم میں سب سے زیادہ اور حلم میں سب سے عظیم ہے۔
حدثنا ابو احمد ، حدثنا خالد ، عن نافع ، عن معقل بن يسار ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يلبث الجور بعدي إلا قليلا حتى يطلع، فكلما طلع من الجور شيء ذهب من العدل مثله، حتى يولد في الجور من لا يعرف غيره، ثم ياتي الله تبارك وتعالى بالعدل، فكلما جاء من العدل شيء ذهب من الجور مثله، حتى يولد في العدل من لا يعرف غيره" .حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَلْبَثُ الْجَوْرُ بَعْدِي إِلَّا قَلِيلًا حَتَّى يَطْلُعَ، فَكُلَّمَا طَلَعَ مِنَ الْجَوْرِ شَيْءٌ ذَهَبَ مِنَ الْعَدْلِ مِثْلُهُ، حَتَّى يُولَدَ فِي الْجَوْرِ مَنْ لَا يَعْرِفُ غَيْرَهُ، ثُمَّ يَأْتِي اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى بِالْعَدْلِ، فَكُلَّمَا جَاءَ مِنَ الْعَدْلِ شَيْءٌ ذَهَبَ مِنَ الْجَوْرِ مِثْلُهُ، حَتَّى يُولَدَ فِي الْعَدْلِ مَنْ لَا يَعْرِفُ غَيْرَهُ" .
حضرت معقل سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پیچھے تھو ڑے ہی عرصہ کے بعد ظلم نمودار ہونا شروع ہوجائے جتنا ظلم نمودار ہوتا جائے گا اتنا ہی عدل جاتا رہے گا حتی کہ ظلم میں جو بچہ بھی پیدا ہوگا اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتا ہوگا پھر اللہ دوبارہ عدل کو لائے گا جتنا عدل آتاجائے گا اتنا ہی ظلم جاتا رہے گا حتی کہ عدل میں جو بچہ پیدا ہوگا وہ اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتا ہوگا۔
حدثنا عمرو بن الهيثم ابو قطن ، حدثنا يونس يعني ابن ابي إسحاق ، عن ابيه ، عن عمرو بن ميمون شهد عمر رضي الله عنه، قال: وقد كان جمع اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم في حياته وصحته فناشدهم الله:" من سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر في الجد شيئا؟ فقام معقل بن يسار رضي الله عنه , فقال: قد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم اتي بفريضة فيها جد، فاعطاه ثلثا او سدسا , قال: وما الفريضة؟ قال: لا ادري , قال: ما منعك ان تدري؟!" .حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ الْهَيْثَمِ أَبُو قَطَنٍ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ يَعْنِي ابْنَ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ شَهِدَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: وَقَدْ كَانَ جَمَعَ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَيَاتِهِ وَصِحَّتِهِ فَنَاشَدَهُمْ اللَّهَ:" مَنْ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ فِي الْجَدِّ شَيْئًا؟ فَقَامَ مَعْقِلُ بْنُ يَسَارٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , فَقَالَ: قَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِفَرِيضَةٍ فِيهَا جَدٌّ، فَأَعْطَاهُ ثُلُثًا أَوْ سُدُسًا , قَالَ: وَمَا الْفَرِيضَةُ؟ قَالَ: لَا أَدْرِي , قَالَ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تَدْرِيَ؟!" .
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ حضرت عمر کی خدمت میں حاضر تھے انہوں نے اپنی زندگی اور صحت میں صحابہ کو جمع کرلیا اور انہیں قسم دے کر پوچھا کہ دادا کی وراثت کے متعلق کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہو؟ اس پر حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وراثت کا ایک مسئلہ لایا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تہائی یا چھٹا حصہ دیا تھا حضرت عمر نے پوچھا کہ وہ مسئلہ کیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے یاد نہیں رہا انہوں نے فرمایا اسے یاد رکھنے سے تمہیں کس نے روکا تھا؟
حدثنا عبد الاعلى ، عن يونس ، عن الحسن ان عمر بن الخطاب , سال عن فريضة رسول الله صلى الله عليه وسلم في الجد، فقام معقل بن يسار المزني ، فقال: " قضى فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: ماذا؟ قال: السدس , قال: مع من؟ قال: لا ادري , قال: لا دريت، فما تغني إذا؟! .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، عَنْ يُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ , سَأَلَ عَنْ فَرِيضَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْجَدِّ، فَقَامَ مَعْقِلُ بْنُ يَسَارٍ الْمُزَنِيُّ ، فَقَالَ: " قَضَى فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: مَاذَا؟ قَالَ: السُّدُسَ , قَالَ: مَعَ مَنْ؟ قَالَ: لَا أَدْرِي , قَالَ: لَا دَرَيْتَ، فَمَا تُغْنِي إِذًا؟! .
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ حضرت عمر کی خدمت میں حاضر تھے انہوں نے اپنی زندگی اور صحت میں صحابہ کو جمع کرلیا اور انہیں قسم دے کر پوچھا کہ دادا کی وراثت کے متعلق کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہو؟ اس پر حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وراثت کا ایک مسئلہ لایا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تہائی یا چھٹاحصہ دیا تھا حضرت عمر نے پوچھا کہ وہ مسئلہ کیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے یاد نہیں رہا انہوں نے فرمایا اسے یاد رکھنے سے تمہیں کس نے روکا تھا؟
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف، الحسن لم يسمع من عمر
حدثنا عبد الصمد ، حدثنا زيد يعني ابن مرة ابو المعلى ، عن الحسن ، قال: ثقل معقل بن يسار ، فدخل إليه عبيد الله بن زياد يعوده، فقال: هل تعلم يا معقل اني سفكت دما؟ قال: ما علمت , قال: هل تعلم اني دخلت في شيء من اسعار المسلمين؟ قال: ما علمت , قال: اجلسوني , ثم قال: اسمع يا عبيد الله حتى احدثك شيئا لم اسمعه من رسول الله صلى الله عليه وسلم مرة ولا مرتين، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من دخل في شيء من اسعار المسلمين ليغليه عليهم، فإن حقا على الله تبارك وتعالى ان يقعده بعظم من النار يوم القيامة" , قال: انت سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم غير مرة ولا مرتين.حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا زَيْدُ يَعْنِي ابْنَ مُرَّةَ أَبُو الْمُعَلَّى ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ: ثَقُلَ مَعْقِلُ بْنُ يَسَارٍ ، فَدَخَلَ إِلَيْهِ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ يَعُودُهُ، فَقَالَ: هَلْ تَعْلَمُ يَا مَعْقِلُ أَنِّي سَفَكْتُ دَمًا؟ قَالَ: مَا عَلِمْتُ , قَالَ: هَلْ تَعْلَمُ أَنِّي دَخَلْتُ فِي شَيْءٍ مِنْ أَسْعَارِ الْمُسْلِمِينَ؟ قَالَ: مَا عَلِمْتُ , قَالَ: أَجْلِسُونِي , ثُمَّ قَالَ: اسْمَعْ يَا عُبَيْدَ اللَّهِ حَتَّى أُحَدِّثَكَ شَيْئًا لَمْ أَسْمَعْهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّةً وَلَا مَرَّتَيْنِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ دَخَلَ فِي شَيْءٍ مِنْ أَسْعَارِ الْمُسْلِمِينَ لِيُغْلِيَهُ عَلَيْهِمْ، فَإِنَّ حَقًّا عَلَى اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنْ يُقْعِدَهُ بِعُظْمٍ مِنَ النَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ" , قَالَ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ غَيْرَ مَرَّةٍ وَلَا مَرَّتَيْنِ.
حسن کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ معقل بن یسار رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے عبیداللہ بن زیاد ان کی بیمار پرسی کے لئے آیا اور کہنے لگا کہ اے معقل کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میں نے کسی کا خون بہایا ہے انہوں نے فرمایا مجھے معلوم نہیں ابن زیاد نے پوچھا کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میں نے مسلمانوں کے نرخ میں کچھ دخل اندازی کی ہے؟ انہوں نے فرمایا مجھے معلوم نہیں مجھے اٹھا کر بٹھاؤ اور پھر فرمایا اے عبیداللہ سن۔ میں تجھ سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں جو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دو مرتبہ نہیں سنی ہے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص مسلمانوں کے نرخ میں دخل اندازی کرتا ہے تو اللہ پر حق ہے کہ قیامت کے دن اسے جہنم کے بڑے حصے میں بٹھائے۔ ابن زیاد نے پوچھا کہ کیا یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے خود سنی ہے انہوں نے فرمایا ہاں ایک دو مرتبہ نہیں۔
حدثنا هوذة بن خليفة ، حدثنا عوف ، عن الحسن ، قال: مرض معقل بن يسار مرضا ثقل فيه، فاتاه ابن زياد يعوده، فقال: إني محدثك حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من استرعي رعية، فلم يحطهم بنصيحة، لم يجد ريح الجنة، وريحها يوجد من مسيرة مئة عام" , فقال ابن زياد: الا كنت حدثتني بهذا قبل الآن؟! قال: والآن لولا الذي انت عليه لم احدثك به.حَدَّثَنَا هَوْذَةُ بْنُ خَلِيفَةَ ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ: مَرِضَ مَعْقِلُ بْنُ يَسَارٍ مَرَضًا ثَقُلَ فِيهِ، فَأَتَاهُ ابْنُ زِيَادٍ يَعُودُهُ، فَقَالَ: إِنِّي مُحَدِّثُكَ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ اسْتُرْعِيَ رَعِيَّةً، فَلَمْ يُحِطْهُمْ بِنَصِيحَةٍ، لَمْ يَجِدْ رِيحَ الْجَنَّةِ، وَرِيحُهَا يُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ مِئَةِ عَامٍ" , فقَالَ ابْنُ زِيَادٍ: أَلَا كُنْتَ حَدَّثْتَنِي بِهَذَا قَبْلَ الْآنَ؟! قَالَ: وَالْآنَ لَوْلَا الَّذِي أَنْتَ عَلَيْهِ لَمْ أُحَدِّثْكَ بِهِ.
حسن کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت معقل بیمار ہوگئے اور بیماری نے انہیں نڈھال کردیا ابن زیاد ان کی عیادت کے لئے آیا انہوں نے فرمایا میں تم سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں جو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے جو شخص کسی رعایا کا ذمہ دار بنے اور خیرخواہی سے ان کا احاطہ نہ کرے وہ جنت کی مہک بھی نہ پاسکے گا۔ حالانکہ جنت کی مہک سو سال کے فاصلے سے بھی محسوس کی جاسکتی ہے تو ابن زیاد نے کہا آپ نے یہ حدیث اس سے پہلے کیوں نہ بیان کی انہوں نے فرمایا اگر میں تمہیں اس عہدے پر نہ دیکھتا تو تم سے یہ حدیث بیان نہ کرتا۔