حدثنا عبد الله، حدثنا ابو عثمان سعيد بن يحيى بن سعيد بن ابان بن سعيد بن العاص ، حدثني ابي ، حدثنا محمد بن إسحاق ، عن محمد بن جعفر بن الزبير ، قال: سمعت زياد بن ضمرة بن سعد السلمي يحدث، عروة بن الزبير، قال: حدثني ابي ، وجدي ، وكانا قد شهدا حنينا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالا: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم الظهر، ثم جلس إلى ظل شجرة، فقام إليه الاقرع بن حابس، وعيينة بن حصن بن بدر، يطلب بدم الاشجعي عامر بن الاضبط، وهو يومئذ سيد قيس، والاقرع بن حابس يدفع عن محلم بن جثامة لخندف، فاختصما بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسمعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " تاخذون الدية خمسين في سفرنا هذا، وخمسين إذا رجعنا"، قال: يقول عيينة والله يا رسول الله، لا ادعه حتى اذيق نساءه من الحزن ما اذاق نسائي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بل تاخذون الدية"، فابى عيينة، فقام رجل من ليث يقال له مكيتل، رجل قصير مجموع، فقال: يا نبي الله، ما وجدت لهذا القتيل شبيها في غرة الإسلام إلا كغنم وردت فرمي اولها فنفر آخرها، اسنن اليوم وغير غدا، قال: فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يده، ثم قال:" بل تقبلون الدية في سفرنا هذا خمسين، وخمسين إذا رجعنا"، فلم يزل بالقوم حتى قبلوا الدية، قال: فلما قبلوا الدية، قالوا: اين صاحبكم يستغفر له رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقام رجل آدم طويل ضرب عليه حلة، كان تهيا للقتل حتى جلس بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما جلس قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما اسمك؟" قال: انا محلم بن جثامة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اللهم لا تغفر لمحلم، اللهم لا تغفر لمحلم" ثلاث مرات، فقام من بين يديه، وهو يتلقى دمعه بفضل ردائه، فاما نحن بيننا فنقول قد استغفر له، ولكنه اظهر ما اظهر ليدع الناس بعضهم من بعض .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، قَالَ: سَمِعْتُ زِيَادَ بْنَ ضَمْرَةَ بْنِ سَعْدٍ السُّلَمِيَّ يُحَدِّثُ، عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، وَجَدِّي ، وَكَانَا قَدْ شَهِدَا حُنَيْنًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَا: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ، ثُمَّ جَلَسَ إِلَى ظِلِّ شَجَرَةٍ، فَقَامَ إِلَيْهِ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ، وَعُيَيْنَةُ بْنُ حِصْنِ بْنِ بَدْرٍ، يَطْلُبُ بِدَمِ الْأَشْجَعِيِّ عَامِرِ بْنِ الْأَضْبَطِ، وَهُوَ يَوْمَئِذٍ سَيِّدُ قَيْسٍ، وَالْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ يَدْفَعُ عَنْ مُحَلِّمِ بْنِ جَثَّامَةَ لِخِنْدِفٍ، فَاخْتَصَمَا بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمِعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " تَأْخُذُونَ الدِّيَةَ خَمْسِينَ فِي سَفَرِنَا هَذَا، وَخَمْسِينَ إِذَا رَجَعْنَا"، قَالَ: يَقُولُ عُيَيْنَةُ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَا أَدَعُهُ حَتَّى أُذِيقَ نِسَاءَهُ مِنَ الْحُزْنِ مَا أَذَاقَ نِسَائِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَلْ تَأْخُذُونَ الدِّيَةَ"، فَأَبَى عُيَيْنَةُ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ لَيْثٍ يُقَالُ لَهُ مُكَيْتِلٌ، رَجُلٌ قَصِيرٌ مَجْمُوعٌ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، مَا وَجَدْتُ لِهَذَا الْقَتِيلِ شَبِيهًا فِي غُرَّةِ الْإِسْلَامِ إِلَّا كَغَنَمٍ وَرَدَتْ فَرُمِيَ أَوَّلُهَا فَنَفَرَ آخِرُهَا، اسْنُنْ الْيَوْمَ وَغَيِّرْ غَدًا، قَالَ: فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ، ثُمَّ قَالَ:" بَلْ تَقْبَلُونَ الدِّيَةَ فِي سَفَرِنَا هَذَا خَمْسِينَ، وَخَمْسِينَ إِذَا رَجَعْنَا"، فَلَمْ يَزَلْ بِالْقَوْمِ حَتَّى قَبِلُوا الدِّيَةَ، قَالَ: فَلَمَّا قَبِلُوا الدِّيَةَ، قَالُوا: أَيْنَ صَاحِبُكُمْ يَسْتَغْفِرُ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَامَ رَجُلٌ آدَمُ طَوِيلٌ ضَرَبَ عَلَيْهِ حُلَّةً، كَانَ تَهَيَّأَ لِلْقَتْلِ حَتَّى جَلَسَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا جَلَسَ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا اسْمُكَ؟" قَالَ: أَنَا مُحَلِّمُ بْنُ جَثَّامَةَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ لَا تَغْفِرْ لِمُحَلِّمٍ، اللَّهُمَّ لَا تَغْفِرْ لِمُحَلِّمٍ" ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَقَامَ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ، وَهُوَ يَتَلَقَّى دَمْعَهُ بِفَضْلِ رِدَائِهِ، فَأَمَّا نَحْنُ بَيْنَنَا فَنَقُولُ قَدْ اسْتَغْفَرَ لَهُ، وَلَكِنَّهُ أَظْهَرَ مَا أَظْهَرَ لِيَدَعَ النَّاسُ بَعْضُهُمْ مِنْ بَعْضٍ .
زیاد بن ضمرہ نے عروہ بن زبیر کو اپنے والد اور دادا سے یہ حدیث نقل کرتے ہوئے سنایا جو کہ غزوہ حنین میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ظہر کی نماز پڑھائی اور ایک درخت کے سایہ تلے بیٹھ گئے اور اقرع بن حابس اور عیینہ بن حصین اٹھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے عیینہ اس وقت عامر بن اشجعی کے خون کا مطالبہ کررہے تھے جو کہ قبیلہ قیس کا سردار تھا اور اقرع بن حابس خندف کی وجہ سے محلم بن جثامہ کا دفاع کررہے تھے وہ دونوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جھگڑنے لگے ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم سفر میں دیت کے پچاس اونٹ ہم سے لو اور پچاس واپس پہنچ کرلے لینا عیینہ نے جواب دیا نہیں اللہ کی قسم دیت نہیں لوں گا جس وقت تک میں اس شخص کی عورتوں کو وہی تکلیف اور غم نہ دوں جو میری عورتوں کو پہنچا ہے پھر صدائیں بلند ہوئیں اور خوب لڑائی ہوئی اور شوروغل برپا ہوگیا حضرت رسول کریم نے فرمایا اے عیینہ تم دیت قبول نہیں کرتے عیینہ نے پھر اسی طریقہ سے جواب دیا یہاں تک کہ ایک شخص قبیلہ بنی لیث میں سے کھڑا ہو جس کو مکیتل کہا جاتا تھا وہ شخص اسلحہ باندھے ہوئے تھا اور ہاتھ میں تلوار کی ڈھال لئے ہوئے تھا اس نے عرض کیا یارسول اللہ میں اس قتل کرنے والے شخص کے یعنی محلم کے شروع اسلام میں اس کے علاوہ کوئی مثال نہیں دیکھتا ہوں جس طرح کچھ بکریاں کسی چشمہ پر پانی پینے کے لئے پہنچیں تو کسی نے پہلی بکری کو مار دیا کہ جس کی وجہ سے آخری بکری بھی بھاگ کھڑی ہوئی تو آپ آج ایک دستور بنا لیجیے اور کل کو اس کو ختم کردیں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پچاس اونٹ اب ادا کرے اور پچاس اونٹ اس وقت ادا کرے جب ہم لوگ مدینہ منورہ کی طرف لوٹ آئیں چنانچہ آپ نے اس شخص سے دیت ادا کرائی اور یہ واقعہ دوران سفر پیش آیا تھا محلم ایک طویل قد گندمی رنگ کا شخص تھا اور وہ لوگوں کے کنارے بیٹھا تھا لوگ بیٹھے ہوئے تھے کہ وہ بچتے بچاتے آنحضرت کے سامنے آکر بیٹھا اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ میں نے گناہ کیا ہے جس کی آپ کو اطلاع مل گئی اب میں اللہ سے توبہ کرتا ہوں آپ میرے لئے دعائے مغفرت کیجیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے اسلام کے شروع میں اس شخص کو اپنے اسلحہ سے قتل کیا ہے اے اللہ محلم کی مغفرت نہ کرنا آپ نے یہ بات باآواز بلند فرمائی تین مرتبہ۔ (راوی) ابوسلمہ نے یہ اضافہ کیا ہے محلم یہ بات سن کر کھڑا ہوگیا اور وہ اپنی چادر کے کونے سے اپنے آنسو پونچھ رہا تھا۔ ابن اسحاق نے بیان کیا کہ محلم کی قوم نے کہا کہ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد اس کے لئے بخشش کی دعا فرمائی لیکن ظاہر وہی کیا جو پہلے فرمایا تھا تاکہ لوگ ایک دوسرے سے تعریض نہ کریں۔