حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث ، حدثنا سليمان يعني ابن المغيرة ، عن حميد يعني ابن هلال ، قال: كان رجل من الطفاوة طريقه علينا، فاتى على الحي فحدثهم قال: قدمت المدينة في عير لنا، فبعنا بياعتنا، ثم قلت: لانطلقن إلى هذا الرجل، فلآتين من بعدي بخبره، قال: فانتهيت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا هو يريني بيتا، قال:" إن امراة كانت فيه فخرجت في سرية من المسلمين وتركت ثنتي عشرة عنزا لها وصيصيتها، كانت تنسج بها"، قال:" ففقدت عنزا من غنمها وصيصيتها، فقالت: يا رب، إنك قد ضمنت لمن خرج في سبيلك ان تحفظ عليه، وإني قد فقدت عنزا من غنمي وصيصيتي، وإني انشدك عنزي وصيصيتي"، قال: فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر شدة مناشدتها لربها تبارك وتعالى، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فاصبحت عنزها ومثلها، وصيصيتها ومثلها، وهاتيك فاتها فاسالها إن شئت" ، قال: قلت: بل اصدقك.حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ حُمَيْدٍ يَعْنِي ابْنَ هِلَالٍ ، قَالَ: كَانَ رَجُلٌ مِنَ الطُّفَاوَةِ طَرِيقُهُ عَلَيْنَا، فَأَتَى عَلَى الْحَيِّ فَحَدَّثَهُمْ قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي عِيرٍ لَنَا، فَبِعْنَا بِيَاعَتَنَا، ثُمّ قُلْتُ: لَأَنْطَلِقَنَّ إِلَى هَذَا الرَّجُلِ، فَلَآتِيَنَّ مَنْ بَعْدِي بِخَبَرِهِ، قَالَ: فَانْتَهَيْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا هُوَ يُرِينِي بَيْتًا، قَالَ:" إِنَّ امْرَأَةً كَانَتْ فِيهِ فَخَرَجَتْ فِي سَرِيَّةٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَتَرَكَتْ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ عَنْزًا لَهَا وَصِيصِيَتَهَا، كَانَتْ تَنْسِجُ بِهَا"، قَالَ:" فَفَقَدَتْ عَنْزًا مِنْ غَنَمِهَا وَصِيصِيَتَهَا، فَقَالَتْ: يَا رَبِّ، إِنَّكَ قَدْ ضَمِنْتَ لِمَنْ خَرَجَ فِي سَبِيلِكَ أَنْ تَحْفَظَ عَلَيْهِ، وَإِنِّي قَدْ فَقَدْتُ عَنْزًا مِنْ غَنَمِي وَصِيصِيَتِي، وَإِنِّي أَنْشُدُكَ عَنْزِي وَصِيصِيَتِي"، قَالَ: فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ شِدَّةَ مُنَاشَدَتِهَا لِرَبِّهَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَأَصْبَحَتْ عَنْزُهَا وَمِثْلُهَا، وَصِيصِيَتُهَا وَمِثْلُهَا، وَهَاتِيكَ فَأْتِهَا فَاسْأَلْهَا إِنْ شِئْتَ" ، قَالَ: قُلْتُ: بَلْ أُصَدِّقُكَ.
حمید بن ہلال کہتے ہیں کہ طفاوہ قبیلے کا ایک آدمی ہمارے پاس سے گزرتا تھا ایک دن وہ ہمارے قبیلے میں آیا اور کہنے لگا کہ میں اپنے ایک قافلے کے ساتھ مدینہ منورہ گیا تھا وہاں ہم نے اپنا سامان تجارت بیچا پھر میں نے سوچا کہ میں اس شخص یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلتا ہوں تاکہ واپس آکر اپنے پیچھے والوں کو ان کے متعلق بتاؤں چنانچہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل پڑا وہاں پہنچا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ایک گھر دکھاتے ہوئے فرمانے لگے کہ اس گھر میں ایک عورت رہتی تھی ایک مرتبہ وہ مسلمانوں کے ایک لشکر کے ساتھ نکلی اور اپنے پیچھے بارہ بکریاں اور ایک کپڑا بننے کا کونچ جس سے وہ کپڑے بنتی تھی چھوڑ گئی۔ جب وہ واپس آئی تو اس نے دیکھا کہ اس کی ایک بکری اور وہ کونچ غائب ہے اس نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا کہ پروردگار تو اپنی راہ میں جہاد کے لئے نکلنے والوں کا ضامن ہے کہ ان کی حفاظت کرے گا اب میری ایک بکری اور کونچ گم ہوگیا ہے میں تجھے قسم دیتی ہوں کہ میری بکری اور وہ کونچ واپس دلا دے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی شدت مناجات کا تذکرہ کیا اور فرمایا کہ اگلے دن اسے اس کی بکری اور اس جیسی ایک اور بکری مل گئی اسی طرح اس کا کونچ اور اس جیسا ایک اور کونچ بھی مل گیا۔ آؤ اگر چاہو تو اس عورت سے خود پوچھ لو میں نے عرض کیا کہ میں آپ کی تصدیق کرتا ہوں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف ليس فى النص مايصرح بسماع حميد من الرجل الطفاوي