حدثنا بهز ، وعفان ، قالا: حدثنا حماد بن سلمة ، عن عبد الملك بن عمير ، عن ربعي بن حراش ، عن طفيل بن سخبرة اخي عائشة لامها، انه راى فيما يرى النائم، كانه مر برهط من اليهود، فقال: من انتم؟ قالوا: نحن اليهود، قال: إنكم انتم القوم، لولا انكم تزعمون ان عزيرا ابن الله! فقالت اليهود: وانتم القوم، لولا انكم تقولون ما شاء الله وشاء محمد! ثم مر برهط من النصارى، فقال: من انتم؟ قالوا: نحن النصارى، فقال: إنكم انتم القوم، لولا انكم تقولون المسيح ابن الله! قالوا: وإنكم انتم القوم، لولا انكم تقولون ما شاء الله وما شاء محمد! فلما اصبح اخبر بها من اخبر، ثم اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فاخبره، فقال" هل اخبرت بها احدا؟" قال عفان: قال: نعم، فلما صلوا خطبهم، فحمد الله واثنى عليه، ثم قال" إن طفيلا راى رؤيا، فاخبر بها من اخبر منكم، وإنكم كنتم تقولون كلمة كان يمنعني الحياء منكم ان انهاكم عنها"، قال: " لا تقولوا ما شاء الله وما شاء محمد" .حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ طُفَيْلِ بْنِ سَخْبَرَةَ أَخِي عَائِشَةَ لِأُمِّهَا، أَنَّهُ رَأَى فِيمَا يَرَى النَّائِمُ، كَأَنَّهُ مَرَّ بِرَهْطٍ مِنَ الْيَهُودِ، فَقَالَ: مَنْ أَنْتُمْ؟ قَالُوا: نَحْنُ الْيَهُودُ، قَالَ: إِنَّكُمْ أَنْتُمْ الْقَوْمُ، لَوْلَا أَنَّكُمْ تَزْعُمُونَ أَنَّ عُزَيْرًا ابْنُ اللَّهِ! فَقَالَتْ الْيَهُودُ: وَأَنْتُمْ الْقَوْمُ، لَوْلَا أَنَّكُمْ تَقُولُونَ مَا شَاءَ اللَّهُ وَشَاءَ مُحَمَّدٌ! ثُمَّ مَرَّ بِرَهْطٍ مِنَ النَّصَارَى، فَقَالَ: مَنْ أَنْتُمْ؟ قَالُوا: نَحْنُ النَّصَارَى، فَقَالَ: إِنَّكُمْ أَنْتُمْ الْقَوْمُ، لَوْلَا أَنَّكُمْ تَقُولُونَ الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ! قَالُوا: وَإِنَّكُمْ أَنْتُمْ الْقَوْمُ، لَوْلَا أَنَّكُمْ تَقُولُونَ مَا شَاءَ اللَّهُ وَمَا شَاءَ مُحَمَّدٌ! فَلَمَّا أَصْبَحَ أَخْبَرَ بِهَا مَنْ أَخْبَرَ، ثُمَّ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ" هَلْ أَخْبَرْتَ بِهَا أَحَدًا؟" قَالَ عَفَّانُ: قَالَ: نَعَمْ، فَلَمَّا صَلَّوْا خَطَبَهُمْ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ" إِنَّ طُفَيْلًا رَأَى رُؤْيَا، فَأَخْبَرَ بِهَا مَنْ أَخْبَرَ مِنْكُمْ، وَإِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَقُولُونَ كَلِمَةً كَانَ يَمْنُعُنِي الْحَيَاءُ مِنْكُمْ أَنْ أَنْهَاكُمْ عَنْهَا"، قَالَ: " لَا تَقُولُوا مَا شَاءَ اللَّهُ وَمَا شَاءَ مُحَمَّدٌ" .
حضرت طفیل بن سخبرہ جو حضرت عائشہ کے ماں شریک بھائی ہیں کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ وہ یہودیوں کے ایک گروہ کے پاس سے گذرے اور ان سے پوچھا کہ تم کون لوگ ہو؟ انہوں نے کہا ہم یہودی ہیں طفیل نے کہا تم ایک صحیح قوم ہوتے اگر تم حضرت عزیر کو اللہ کا بیٹا نہ سمجھتے یہودیوں نے کہا تم بھی ایک صحیح قوم ہوتے اگر تم یوں نہ کہتے کہ جو اللہ نے چاہا اور جو محمد نے چاہا پھر ان کا گذر عیسائیوں کے ایک گروہ پر ہوا اور ان سے پوچھا کہ تم کون لوگ ہو انہوں نے کہا ہم عیسائی ہیں طفیل نے کہا تم ایک صحیح قوم ہوتے اگر تم حضرت عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا نہ قرار دیتے عیسائیوں نے کہا تم بھی ایک صحیح قوم ہوتے اگر تم یوں نہ کہتے کہ جو اللہ نے چاہا اور جو محمد نے چاہا۔ صبح ہوئی تو انہوں نے یہ خواب کچھ لوگوں کو سنایا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں بھی یہ واقعہ سنایا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے یہ خواب کسی کو بتایا بھی ہے انہوں نے عرض کیا جی ہاں۔ چنانچہ نماز سے فارغ ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمدوثناء بیان کی اور فرمایا کہ طفیل نے ایک خواب دیکھا ہے جو اس نے تم میں سے بعض لوگوں کو بتایا بھی ہے تم یہ جملہ پہلے کہتے تھے جس سے تمہیں روکتے ہوئے مجھے حیاء مانع ہوجاتی تھی اب یہ نہ کہا کرو کہ جو اللہ نے چاہا اور جو محمد نے چاہا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وقد اختلف فى إسناده على عبدالملك بن عمير