من كتاب السير سیر کے مسائل 8. باب في الدَّعْوَةِ إِلَى الإِسْلاَمِ قَبْلَ الْقِتَالِ: جنگ کرنے سے پہلے اسلام کی دعوت دینے کا بیان
سلیمان بن بریدہ نے اپنے باپ سے روایت کیا انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کو کسی پلٹن کا سردار بناتے تو اسے وصیت کرتے تھے کہ ”جب تمہاری مشرک دشمن سے ملاقات ہو تو انہیں تین میں سے ایک بات کی دعوت دو، ان تینوں خصلتوں میں سے وہ جو بھی مان لیں اس کو قبول کر لو اور ان سے لڑائی نہ کرو، وہ تین باتیں یہ ہیں: ان کو اسلام کی دعوت دو، اگر وہ اس پر راضی ہوں تو تم قبول کر لو اور ان سے باز رہو (یعنی ان کے جان و مال کو تلف نہ کرو)، پھر ان سے کہو کہ وہ اپنے ملک سے مہاجرین کے ملک میں منتقل ہو جائیں اور انہیں بتاؤ کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو جو (حق فائدہ) مہاجرین کے لئے ہے وہ ان کو بھی ملے گا، جو سزائیں (قصور کے بدلے) مہاجرین کو دی جاتی ہیں وہی ان کو بھی دی جائیں گی، اور اگر وہ ہجرت کرنے سے انکار کر دیں تو ان کا حکم مسلم دیہاتیوں کا سا ہوگا اور الله کا حکم جو مسلمانوں پر جاری ہوتا ہے وہ ان پر جاری ہوگا اور ان کو مالِ غنیمت یا بلا جنگ کے حاصل شدہ مال میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا سوائے اس حالت کے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جہاد کریں، اور اگر وہ اسلام لانے سے انکار کریں تو ان سے کہو کہ جزیہ ادا کریں، اگر وہ جزیہ دینے پر راضی ہوں تو قبول کر لو اور ان سے باز رہو (ان کے قتل یا مال سے کیونکہ وہ ذمی ہو گئے اور ان کا جان و مال محفوظ ہو گیا)، اور اگر وہ جزیہ دینے سے بھی انکار کریں تو اللہ سے مدد طلب کر کے ان سے لڑائی کرو اور اگر تم کسی قلعہ کا محاصرہ کرو اور قلعہ کے لوگ تم سے الله اور اس کے رسول کا ذمہ طلب کریں (یعنی امان مانگیں) تو اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ نہ دو بلکہ اپنا، اپنے باپ اور اپنے ساتھیوں کا ذمہ دیدو، اس لئے کہ اگر تم اپنا ذمہ یا اپنے باپ دادوں کا ذمہ توڑ ڈالو تو یہ اس سے آسان ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ توڑ ڈالو، اور اگر تم کسی قلعہ کا محاصرہ کرو پھر قلعہ والے یہ چاہیں کہ اللہ کے حکم پر وہ قلعہ سے نکل آئیں گے تو اس شرط پر انہیں نہ نکالو بلکہ اپنے حکم پر ہی انہیں نکلنے کو کہو، اس لئے کہ تم نہیں جانتے تم اللہ کے حکم پر چل سکو گے یا نہیں، پھر اس کے بعد جس طرح چاہو ان کا فیصلہ کر لو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2486]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1731]، [أبوداؤد 2612]، [ترمذي 1617]، [ابن ماجه 2858] وضاحت:
(تشریح حدیث 2478) اس حدیث سے بہت سے مسائل معلوم ہوئے۔ ایک یہ کہ جنگ کرنے سے پہلے اسلام کی دعوت دی جائے، انکار کریں تو جزیہ طلب کیا جائے، اس سے بھی انکار کریں تو پھر قتال کیا جائے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مال فئ اور غنیمت میں دیہاتیوں کا حصہ نہیں ہے سوائے ان کے جو جہاد میں شہریوں کے ساتھ شریک ہوں، نیز یہ کہ اگر دشمن پہلی دو شرطوں میں سے کوئی ایک کو مان لے تو پھر ان سے جنگ نہیں کی جائے گی۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
علقمہ نے کہا: میں نے اس حدیث کو مقاتل بن حیان سے بیان کی تو انہوں نے کہا: یہی حدیث مجھ سے مسلم بن ہیصم نے سیدنا نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ سے بیان کی اور انہوں نے ایسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔
تخریج الحدیث: «إسناده موصول بالإسناد السابق وهذا إسناد جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2487]»
اس روایت کی تخریج او پرگذر چکی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده موصول بالإسناد السابق وهذا إسناد جيد
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی قوم سے دعوت (اسلام) دینے سے پہلے قتال نہیں کیا۔
امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: اس حدیث کو سفیان نے ابن ابی نجیح سے نہیں سنا۔ (یعنی یہ روایت منقطع ہے)۔ تخریج الحدیث: «رجاله ثقات. ولكن سفيان لم يسمع هذا الحديث من ابن أبي نجيح كما قال الدرامي. والحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2488]»
اس سند سے یہ روایت منقطع ہے، لیکن دوسری صحیح سند سے موجود ہے۔ دیکھئے: [أحمد 236/1]، [أبويعلی 2591]، [طبراني 132/11، 11270]، [بيهقي 107/9]، [الحاكم 38] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات. ولكن سفيان لم يسمع هذا الحديث من ابن أبي نجيح كما قال الدرامي. والحديث صحيح
|