من كتاب السير سیر کے مسائل 66. باب نُزُولِ أَهْلِ قُرَيْظَةَ عَلَى حُكْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ: اہل قریظہ کا سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے حکم پر ہتھیار ڈالنے کا بیان
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جنگِ احزاب میں سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے تیر لگ گیا اور ان کی رگ (ابجل نامی) کٹ گئی جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگ سے داغ دیا، ان کا ہاتھ سوج گیا اور پھر سے خون بہنے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دوباره داغا، پھر ہاتھ سورج گیا۔ جب سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے یہ حال دیکھا (اور موت کا یقین ہو گیا) تو کہا: اے اللہ اس وقت تک میری جان نہ نکالنا جب تک کہ بنی قریظہ سے میری آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں (یعنی ان کی ہلاکت دیکھ لوں اللہ کی مشیت سے)، ان کی رگ رک گئی اور اس سے ایک قطرہ بھی خون نہ ٹپکا یہاں تک کہ بنوقریظہ سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے حکم پر اتر آئے (یعنی انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے)، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے پاس پیغام بھیجا (یعنی انہیں بلایا، وہ آئے) اور سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کیا: ان کے مرد قتل کر دیئے جائیں اور عورتیں زندہ رکھی جائیں تاکہ مسلمانوں کو ان سے مدد ملے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کیا“، اس وقت بنوقریظہ کے چار سو افراد تھے، جب ان کے قتل سے فارغ ہوئے تو پھر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی رگ کھل گئی اور وہ انتقال کر گئے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وعند مسلم مختصرا، [مكتبه الشامله نمبر: 2551]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ مسلم نے مختصراً اس کو روایت کیا ہے۔ دیکھئے: [مسلم: كتاب السلام، باب لكل داء دواء] اور ترمذی نے اسی سیاق سے روایت کیا ہے، [ترمذي 1582]۔ نیز دیکھئے: [ابن حبان 4784]، [مشكل الآثار للطحاوي 3579]، [دلائل النبوة للبيهقي 28/4] وضاحت:
(تشریح حدیث 2544) بنوقریظہ قباء میں بسنے والے یہود تھے، مسلمانوں اور ان کے درمیان عہد تھا، لیکن جنگِ احزاب میں انہوں نے بدعہدی کی اور مشرکین کا ساتھ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد بن معاذ ودیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے وفد کے ذریعہ انہیں اپنا عہد یاد دلایا، لیکن انہوں نے بدتمیزی کی، کون محمد؟ کیسے مسلمان؟ ہمارا کوئی ان سے عہد نہیں، گالیاں دیں، جس سے بڑی پریشان کن صورتِ حال پیدا ہوگئی تھی، اسی لئے جنگِ احزاب کے بعد حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آ کر کہا کہ ابھی جنگ ختم نہیں ہوئی۔ ہم بنوقریظہ کی طرف جا رہے ہیں، آپ بھی مسلمانوں کے ساتھ آیئے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا محاصرہ کیا، وہ قلعہ بند ہو گئے، جب محاصرے نے طول پکڑا تو پھر سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو حکم بنایا گیا اور ان کے حکم سے بنوقریظ قلعوں سے باہر آئے، جس کا ذکر مذکورہ بالا حدیث میں ہے۔ اس حدیث سے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی فضیلت، ان کی بصیرت اور مستجاب الدعوات ہونے کی دلیل ملتی ہے، ایسا زخم جو داغنے سے بھی اچھا نہیں ہوتا، خون گرتا رہتا ہے، دعا کی، اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے بلا دوا خون روک دیا اور پھر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں۔ بدعہدی کرنے والے مسلمانوں کو گالیاں دینے، اور ان کے بیوی بچوں کے مال و دولت سے کھلواڑ کرنے والے کو کیفرِ کردار تک پہنچایا گیا، اور پھر ان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرتی ہے۔ سبحان الله العظیم! اللہ کی شان کتنی نرالی، اس کے وعدے کتنے سچے ہیں۔ «وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.» قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وعند مسلم مختصرا
|