من كتاب السير سیر کے مسائل 10. باب في الْقِتَالِ عَلَى قَوْلِ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ: لا إلہ إلا اللہ کے لئے جنگ کرنے کا بیان
سیدنا اوس بن ابی اوس ثقفی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں بنوثقیف کے وفد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں اس قبہ کے ایک کونے میں تھا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی نہیں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوئے تھے، اچانک ایک صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور سرگوشی کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ اسے قتل کر دو۔“ اس نے کہا: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا وہ اس کی گواہی نہیں دیتا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں؟“ شعبہ نے کہا: مجھے اس میں شک ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کے بارے میں کہا یا نہیں۔ انہوں نے کہا: جی ہاں (اس کی گواہی دیتا ہے)، فرمایا: ”مجھ کو حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک جہاد کروں جب تک کہ وہ لا إلہ إلا الله نہ کہہ دیں، اور جب وہ یہ کہہ دیں تو پھر میرے اوپر ان کا خون ان کے مال حرام ہیں سوائے حق اسلام کے (یعنی حد یا قصاص کے)، اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہے۔“ راوی نے کہا: اس شخص نے ابومسعود کو قتل کیا تھا اور اس وقت تک اس کو موت نہ آئی جب تک کہ طائف کے سب سے اچھے انسان فوت نہ ہوئے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2490]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [طيالسي 37]، [طبراني 218/1، 594]، [ابن ماجه 3929]، [أبويعلی 6862، وغيرهم وأصله فى الصحيحين] وضاحت:
(تشریح حدیث 2482) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہہ دے اس کا مال اور اس کی جان محفوظ ہو جائے گی، اب اس کو دشمنِ اسلام ہونے کے سبب نہ قتل کیا جاسکتا ہے اور نہ اس کا مال و متاع زبردستی لیا جاسکتا ہے سوائے حقِ اسلام کے، یعنی حد یا قصاص میں جان کا بدلہ جان، اور مال میں سے زکاة و صدقات وغیرہ، کیونکہ یہ کلمہ کہہ کر وہ مسلمانوں کے زمرے میں داخل ہوگیا، اور ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کو مارنا یا اس کا مال ہڑپ کرنا حرام ہے۔ جیسا کہ: «أَلَا إِنَّ دِمَاءَ هُمْ وَأَمْوَالَهُمْ حَرَامٌ عَلَيْكُمْ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هٰذَا فِيْ بَلَدِكُمْ هٰذَا فِيْ سَهْرِكُمْ هٰذَا ..... (أو كما قال عليه السلام)» مروی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|