من كتاب السير سیر کے مسائل 31. باب في قِسْمَةِ الْغَنَائِمِ كَيْفَ تُقَسَّمُ: مال غنیمت کس طرح تقسیم کیا جائے؟
عبدالرحمٰن بن ابی لیلی نے اپنے والد سے روایت کیا، انہوں نے کہا: میں خیبر کی فتح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا۔ مشرکین کو شکست ہوئی۔ ہم ان کی قیام گاہوں پر قابض ہو گئے تو لوگوں نے جو اونٹ پائے ان کی طرف جلد بازی کی اور فوراً ہی ہانڈیوں میں ابالنے لگے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور تمام ہانڈیاں الٹ دی گئیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے درمیان (گوشت کی) تقسیم کی اور ہر دس آدمی میں ایک بکری عطا کی، ابولیلیٰ نے کہا: بنوفلاں صرف نو تھے اور میں اکیلا تھا، چنانچہ میں ان کی طرف متوجہ ہوا اور ہم دس افراد ہو گئے، ہمارے لئے بھی (تناول کرنے کو) ایک بکری تھی۔
امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: مجھے خبر لگی ہے کہ زید بن ابی انیسہ نے یہ روایت قیس بن مسلم سے روایت کی، ان کا مقصد تھا کہ زید کو یاد نہ رہا (یہ روایت حکم سے ہے) (لیکن امام دارمی رحمہ اللہ کا یہ استغراب محل نظر ہے کیوں کہ ہو سکتا ہے زید نے حکم سے بھی سنا ہو اور قیس بن مسلم سے بھی سنا ہو۔ تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2512]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، لیکن امام دارمی رحمہ اللہ نے اسے معلول گردانا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
زید بن ابی انیسہ نے قیس بن مسلم سے، انہوں نے عبدالرحمٰن بن ابی لیلی سے، انہوں نے اپنے والد سے ایسے ہی روایت کیا اور فرمایا: میں ان کی طرف متوجہ ہوگیا (یعنی 9 افراد کی طرف)۔
امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: زکریا بن عدی والی سند میرے نزدیک درست ہے۔ تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2513]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أحمد 348/4]، [طبراني فى الأوسط 509]، [أبويعلی 930] وضاحت:
(تشریح احادیث 2504 سے 2506) اس حدیث سے معلوم ہوا جب تک مالِ غنیمت تقسیم نہ ہو جائے اس سے کچھ بھی لینا درست نہیں، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہانڈیوں کو الٹنے کا حکم دیا تھا کہ بلا اجازت تقسیم سے پہلے اونٹ یا اور کوئی جانور ذبح کئے گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر دس آدمی پر ایک بکری تقسیم کی تاکہ اسے ذبح کریں اور کھائیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|