سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
من كتاب السير
سیر کے مسائل
60. باب في النَّهْيِ عَنْ قَتْلِ الرُّسُلِ:
قاصدین کو قتل کرنے کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 2539
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن سعيد، حدثنا ابو بكر بن عياش، عن عاصم، عن ابي وائل، عن ابن معيز السعدي، قال: خرجت اسفر فرسا لي من السحر فمررت على مسجد من مساجد بني حنيفة، فسمعتهم يشهدون ان مسيلمة رسول الله، فرجعت إلى عبد الله بن مسعود فاخبرته، فبعث إليهم الشرط، فاخذوهم، فجيء بهم، إليه فتاب القوم ورجعوا عن قولهم، فخلى سبيلهم، وقدم رجلا منهم يقال له: عبد الله بن النواحة، فضرب عنقه، فقالوا له: تركت القوم وقتلت هذا؟، فقال: إني كنت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم جالسا إذ دخل هذا ورجل وافدين من عند مسيلمة، فقال لهما رسول الله صلى الله عليه وسلم:"اتشهدان اني رسول الله؟"، فقالا له: تشهد انت ان مسيلمة رسول الله، فقال: "آمنت بالله ورسله، لو كنت قاتلا وفدا، لقتلتكما". فلذلك قتلته. وامر بمسجدهم فهدم.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنِ ابْنِ مُعَيْزٍ السَّعْدِيِّ، قَالَ: خَرَجْتُ أُسْفِرُ فَرَسًا لِي مِنَ السَّحَرِ فَمَرَرْتُ عَلَى مَسْجِدٍ مِنْ مَسَاجِدِ بَنِي حَنِيفَةَ، فَسَمِعْتُهُمْ يَشْهَدُونَ أَنَّ مُسَيْلَمَةَ رَسُولُ اللَّهِ، فَرَجَعْتُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ فَأَخْبَرْتُهُ، فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ الشُّرَطَ، فَأَخَذُوهُمْ، فَجِيءَ بِهِمْ، إِلَيْهِ فَتَابَ الْقَوْمُ وَرَجَعُوا عَنْ قَوْلِهِمْ، فَخَلَّى سَبِيلَهُمْ، وَقَدَّمَ رَجُلًا مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ النَّوَاحَةِ، فَضَرَبَ عُنُقَهُ، فَقَالُوا لَهُ: تَرَكْتَ الْقَوْمَ وَقَتَلْتَ هَذَا؟، فَقَالَ: إِنِّي كُنْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا إِذْ دَخَلَ هَذَا وَرَجُلٌ وَافِدَيْنِ مِنْ عِنْدِ مُسَيْلَمَةَ، فَقَالَ لَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"أَتَشْهَدَانِ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟"، فَقَالَا لَهُ: تَشْهَدُ أَنْتَ أَنَّ مُسَيْلَمَةَ رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ: "آمَنْتُ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ، لَوْ كُنْتُ قَاتِلًا وَفْدًا، لَقَتَلْتُكُمَا". فَلِذَلِكَ قَتَلْتُهُ. وَأَمَرَ بِمَسْجِدِهِمْ فَهُدِمَ.
ابن معیز سعدی نے کہا: میں اپنے گھوڑے کو چارہ لینے کے لئے نکلا تو بنوحنیفہ کی مساجد میں سے ایک مسجد کے پاس سے گزر ہوا، میں نے وہاں لوگوں سے سنا کہ وہ شہادت دے رہے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے۔ میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس لوٹ کر آیا اور ان کو اس کی اطلاع دی، چنانچہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے پولیس کو ان لوگوں کے پاس بھیجا، ان لوگوں نے اس کو پکڑا، ان کو وہ لے آئے۔ لوگوں نے توبہ کی اور اپنے قول سے رجوع کیا، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان کا راستہ خالی کر دیا (یعنی انہیں چھوڑ دیا)۔ ان میں سے ایک آدمی آیا جس کو عبداللہ بن نواحہ کہا جاتا تھا، اس کو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے مار ڈالا، لوگوں نے ان سے کہا: آپ نے سب لوگوں کو چھوڑ دیا اور اس کو قتل کر دیا؟ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ یہ اور ایک اور شخص مسیلمہ کی طرف سے وفد کی صورت میں آئے تو ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم دونوں اس بات کی شہادت دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ ان دونوں نے کہا: کیا آپ اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں الله اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتا ہوں، اگر میں وفد (قاصد ین)کو قتل کرنے والا ہوتا تو تمہیں ضرور قتل کر دیتا، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اس لئے میں نے اس شخص کو قتل کیا اور ان کی مسجد کو مسمار کرنے کا حکم دیا جو مسمار کر دی گئی۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2545]»
اس روایت کی سند حسن اور دوسری سند سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2761]، [أبويعلی 5097]، [ابن حبان 4878]، [الموارد 1629]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2538)
سعودی عرب میں ریاض کے پاس ایک جگہ ہے جس کا نام یمامہ ہے، یہاں بنوحنیفہ کے لوگ آباد تھے، انہیں میں سے ایک جھوٹا شخص مسیلمہ تھا جس نے نبوت کا دعویٰ کیا، اور یمامہ کے لوگوں کو گمراہ کیا، لوگ اس کے پھندے میں پھنس گئے، اس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا جس کا اشارہ مذکورہ بالا حدیث میں ہے۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں اس شخص سے سیدنا خالد بن الولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں بنوحنیفہ پر لشکرکشی کی گئی اور وحشی بن حرب (قاتل سیدنا حمزه رضی اللہ عنہ) نے بمشکل تمام اس کذاب و دجال کو قتل کر دیا، اس طرح یہ فتنہ ختم ہوا۔
مذکورہ بالا حدیث میں وضاحت ہے کہ پیغام رسانی کرنے والے قاصدین کو قتل کرنا درست نہیں، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن نواحہ اور اس کے ساتھی کی بدتمیزی اور بے ہودگی کے باوجود انہیں قتل نہیں کیا، اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس لئے قتل کر دیا کہ اس وقت وہ قاصد نہیں بلکہ قیدی تھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے منکر تھا، اور مسیلمہ کذاب کا پیروکار تھا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن ولكن الحديث صحيح

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.