من كتاب السير سیر کے مسائل 62. باب إِذَا أَحْرَزَ الْعَدُوُّ مِنْ مَالِ الْمُسْلِمِينَ: دشمن مسلمانوں کے مال پر قبضہ کر لیں اس کا بیان
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا: عضباء اونٹنی بنوعقیل کے ایک شخص کی تھی جس کو قید کر لیا گیا اور اونٹنی کو پکڑ لیا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس سے گزرے جبکہ وہ بند تھا، اس شخص نے کہا: اے محمد! آپ لوگوں نے مجھے اور حاجیوں کے آگے چلنے والی اونٹنی کو کس جرم میں پکڑ لیا ہے حالانکہ میں مسلمان ہو گیا ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے مسلمان ہونے کا اقرار اس وقت کیا ہوتا جب تم آزاد تھے تو تم بالکل کامیاب رہتے (یعنی تمہیں گرفتار نہ کیا جاتا) اور ہم نے تمہیں تمہارے حلیف ثقیف کی پاداش میں پکڑا ہے“، کیونکہ ثقیف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو اصحاب کو پکڑ لیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گدھے پر بیٹھ کر ایک چادر اوڑھے ہوئے آئے تھے۔ بنوعقیل کے اس شخص نے کہا: اے محمد! میں بھوکا ہوں مجھے کھانا کھلایئے۔ پیاسا ہوں پانی پلایئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”یہ تمہاری ضرورت ہے“ (جو پوری کی جائے گی) پھر اس آدمی کو (ان) دو صحابی کے بدلے چھوڑ دیا گیا اور عضبا ء کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری کے لئے روک لیا (یعنی اسے نہیں چھوڑا)، بعض رواة نے «بِرِجْلِهٖ» کہا (یعنی اپنے قدم کے لئے) اور یہ عضباء حجاج کے قافلے میں (طاقت ور و تیز رو ہونے کے سبب) آگے آگے چلتی تھی، اس کے کچھ دن بعد مشرکین نے مدینہ کے مویشی (جانوروں) پر ڈاکہ ڈالا اور جانوروں کو جن میں عضباء بھی تھی ہنکا لے گئے، ان میں ایک مسلمان عورت کو بھی (جو سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں) پکڑ کر لے گئے۔
وہ لوگ جب رات ہوتی۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے ایک لفظ کہا: تو وہ لوگ اپنے جانوروں کو گھروں کے سامنے آزاد چھوڑ دیتے، ایک رات وہ مسلمان قیدی عورت (سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی بیوی) جب وہ سو گئے تو اٹھی اور (اونٹوں کے پاس آئی) جس اونٹ پر ہاتھ رکھتی وہ آواز نکالنے لگتا یہاں تک کہ عضباء کے پاس آئی، جو اونٹنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو چکی تھی اور وہ مطیع چلنے میں مشاق تھی (اس نے آواز نہ کی)، وہ عورت اس پر سوار ہوگئی اور مدینہ منورہ کا رخ کیا اور نذر مانی کہ اگر الله تعالیٰ نے (اس کے ساتھ) اس اونٹنی کو نجات دیدی (اور وہ اسے بچا لے گئی) تو وہ اسے قربان کر دے گی، جب وہ مدینہ پہنچی تو اونٹنی کو پہچان لیا گیا اور کہا گیا کہ یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کو لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس عورت نے بتایا کہ میں نے اس کو ذبح کر دینے کی منت مانی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے بڑا برا اس کو بدلہ دیا، الله تعالیٰ نے اس لئے اس کو نجات دی کہ تم اسے ذبح کر ڈالو؟ سنو! ایسی منت (نذر) پوری کرنا ضروری نہیں، جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہو، نہ ایسی نذر پوری کی جائے جس پر ابنِ آدم کا اختیار نہ ہو۔“ تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2547]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ اور امام مسلم [مسلم 1641] و [أبوداؤد 3316] نے اسی سیاق سے اور امام نسائی [نسائي 3821] و [ابن ماجه 2124] نے آخری جملہ روایت کیا ہے۔ نیز دیکھئے: [ابن حبان 4391]، [الحميدي 851] وضاحت:
(تشریح حدیث 2540) یعنی تم نے بری نذر مانی، اس اونٹنی کو جس کی پشت پر الله تعالیٰ نے تجھے نجات دی اسی کو ذبح کرنے کی نذر و منت مان لی، کیا اس کا یہی بدلہ ہے؟ جو نذر گناہ کے لئے ہو یا جس کا آدمی مالک نہ ہو وہ نذر پوری نہ کی جائے گی۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی کافر قید ہو اور پھر مسلمان ہو جائے تو اس کو قتل نہ کریں گے، لیکن اس کو غلام بنانا، اس کے بدلے روپیہ لینا، یا کسی مسلمان کو رہا کرانا، یا مفت چھوڑ دینا درست ہے، اور جو قید ہونے سے پہلے مسلمان ہو جائے وہ مسلمانوں کی طرح آزاد ہوگا، قید نہ کیا جائے گا۔ نیز یہ کہ جانور کا نحر (ذبح) کرنا گناہ نہیں، پر یہ اخلاق سے بعید ہے کہ وہ جانور سواری کا ہو، اور عمدہ سواری دیتا ہو، اور وقت پر کام آیا ہو، اسی کی قربانی کی جائے۔ اس کے علاوہ عضباء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی تھی، وہ اس عورت کی ملکیت نہ تھی، پھر پرائے جانور کو قربان کرنا گناہ میں داخل ہے۔ اس حدیث سے یہ نکلا کہ جو شخص گناہ کرنے کی نذر مانے، جیسے شراب پئے گا، تو ایسی نذر باطل ہے اور اس میں کفارہ نہیں ہے۔ امام مالک، شافعی، ابوحنیفہ اور داؤد ظاہری رحمہم اللہ اور جمہور علماء کا یہی قول ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک اس میں قسم کا کفارہ ہے۔ واضح رہے کہ ثقیف ایک قبیلہ تھا جو طائف کے قرب و جوار میں رہائش پذیر تھا، اور بنوعقیل بھی وہیں رہتے تھے، اور دونوں قبیلے ایک دوسرے کے حلیف تھے، ثقیف کے لوگوں نے مسلمانوں کے دو آدمیوں کو پکڑ لیا اور ادھر مسلمانوں نے بنوعقیل کے ایک آدمی کو پکڑ لیا، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوعقیل کے اس شخص کے بدلے میں ثقیف سے اپنے دونوں صحابی کو رہا کرایا اور عضباء اونٹنی کو ضبط کر کے اپنے لئے خاص کر لیا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|