من كتاب السير سیر کے مسائل 17. باب في بَيْعَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کا بیان
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مجلس میں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: ”مجھ سے بیعت کرو اس بات پر کہ الله تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے، نہ چوری کرو گے، نہ زنا کرو گے، نہ اپنی اولاد کو قتل کروگے، اور نہ عمداً کسی پر کوئی بہتان باندھو گے، پس جو کوئی تم میں سے (اس عہد کو) پورا کرے گا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ ہے، اور کوئی ان میں سے کسی بات میں مبتلا ہو گیا (یعنی زنا چوری وغیرہ سرزد ہوگئی) اور اللہ نے اس کے (گناہ) کو چھپا لیا تو پھر اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے، اگر چاہے تو سزا دے اور اگر چاہے تو اس کو معاف کر دے، اور جو کوئی ان (بری باتوں) میں سے کسی کا ارتکاب کرے اور اسے دنیا میں سزا دی گئی تو یہ سزا اس کے گناہ کا کفارہ ہے۔“ چنانچہ ہم نے آپ سے ان باتوں پر بیعت کرلی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2497]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 18]، [مسلم 1709]، [ترمذي 1439]، [نسائي 4221]، [ابن حبان 4405]، [موارد الظمآن 1506]، [الحميدي 391] وضاحت:
(تشریح حدیث 2489) یہ اسلامی بیعت تھی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک سے بچنے، اور دیگر اخلاقی برائیوں سے دور رہنے، اور اولاد کو قتل نہ کرنے کا وعدہ لیا، کیونکہ یہ برائیاں عربوں میں عام تھیں۔ اس حدیث سے حاکم یا امیر کا بیعت لینا ثابت ہوا، ہر ایک ایرا غیرا بیعت نہیں کر سکتا، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلامی قانون کے مطابق اگر کسی کو سزا مل جائے تو وہ سزا آخرت میں اس کے لئے کفارہ ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس طرح یہ ضروری نہیں کہ الله تعالیٰ ہر گناہ کی سزا دے اسی طرح اللہ تعالیٰ پر ہر نیکی کا ثواب دینا بھی ضروری نہیں، اگر وہ ہر گناہ پر سزا دے تو یہ اس کا عین انصاف، اور گناہ معاف کر دے تو اس کی عین رحمت ہے۔ نیکی پر اگر ثواب نہ دے تو یہ اس کی شانِ بے نیازی ہے، اور ثواب عطا فرما دے تو یہ اس کا عین کرم ہے، لیکن وہ ہر نیکی پر ثواب ضرور دیتا ہے: « ﴿فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ﴾ [الزلزال: 7] » ۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مرتکبِ کبیرہ اگر بلا توبہ کئے مر جائے تو الله کی مرضی پر موقوف ہے، چاہے تو اس کے ایمان کی برکت سے بلا سزا دیئے ہوئے جنّت میں داخل کر دے، اور چاہے تو سزا دے کر پھر جنّت میں داخل کرے، مگر شرک اس سے مستثنیٰ ہے: « ﴿إِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ﴾ [النساء:116] » ۔ کسی مومن کا خونِ ناحق بھی نصِ قرآنی سے یہی حکم رکھتا ہے، اور حقوق العباد کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، جب تک وہ بندے ہی (جن پرظلم ہوا) معاف نہ کر دیں معافی نہیں ملے گی۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی عام آدمی کے بارے میں قطعی جنتی یا قطعی دوزخی کہنا جائز نہیں، یہاں یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر ایمان دل میں ہے تو محض گناہوں کے ارتکاب سے انسان کافر نہیں ہوتا، مگر ایمانِ قلبی کے لئے زبان سے اقرار کرنا اور عمل سے ثبوتِ ایمان دینا بھی ضروری ہے، اس سے واضح ہوگیا کہ نیکی و بدی یقیناً ایمان کی کمی و بیشی پر اثر انداز ہوتی ہے، جو لوگ ایمان میں کمی و بیشی نہیں مانتے وہ غلطی پر ہیں۔ اس حدیث میں ان لوگوں کی بھی تردید ہے جو گناہِ کبیرہ کے مرتکب کو کافر یا ہمیشہ کے لئے دوزخی بتلاتے ہیں (راز رحمہ اللہ)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
|