من كتاب السير سیر کے مسائل 59. باب يُجِيرُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ أَدْنَاهُمْ: مسلمانوں کا ادنیٰ فرد بھی پناہ (امان) دے سکتا ہے
عقیل بن ابی طالب کے آزاد کردہ غلام ابومرہ نے کہا: انہوں نے سیدہ ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا سے سنا: وہ بیان کرتی ہیں کہ وہ فتح مکہ کے سال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں، عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں جائے بھائی (سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ) کا خیال ہے کہ وہ اس شخص ہبیرہ کے فلاں بیٹے کو قتل کر ڈالیں گے جس کو میں نے پناہ دی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ام ہانی! جس کو تم نے پناہ دی ہے اس کو ہم نے بھی پناہ دی۔“ (یعنی سیدنا علی رضی اللہ عنہ اسے قتل کرنے کے مجاز نہیں)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2544]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 357]، [مسلم 336]، [أبوداؤد 2762]، [ترمذي 1579]، [نسائي 225]، [ابن حبان 1188]، [الموارد 631]، [الحميدي 333] وضاحت:
(تشریح حدیث 2537) اجارہ: امان دینے کو کہتے ہیں۔ سیدہ اُم ہانی رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چچا زاد بہن اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی سگی بہن تھیں۔ انہوں نے اپنے شوہر ہبیرہ ابن ابی وہب جو حالتِ کفر میں انتقال کر گئے تھے، ان کے کسی عزیز کو شوہر سے وفاداری کے تحت پناه دی تھی، لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس کو قتل کر دینا چاہتے تھے کیونکہ وہ مشرک تھا، لیکن سیدہ اُم ہانی رضی اللہ عنہا نے اسے فتح مکہ کے بعد پناہ دیدی تھی، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پناہ کا حکم دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا ادنیٰ فرد، مرد ہو یا عورت، غیر مسلم کو پناہ دے سکتا ہے، اور سب کو یہ حکم ماننا ہوگا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
|