وحدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا سليمان يعني ابن المغيرة ، حدثنا ثابت ، عن عبد الله بن رباح ، عن ابي قتادة ، قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" إنكم تسيرون عشيتكم وليلتكم، وتاتون الماء إن شاء الله غدا، فانطلق الناس، لا يلوي احد على احد"، قال ابو قتادة: فبينما رسول الله صلى الله عليه وسلم يسير، حتى ابهار الليل، وانا إلى جنبه، قال: فنعس رسول الله صلى الله عليه وسلم، فمال عن راحلته، فاتيته فدعمته من غير ان اوقظه، حتى اعتدل على راحلته، قال: ثم سار حتى تهور الليل، مال عن راحلته، قال: فدعمته من غير ان اوقظه، حتى اعتدل على راحلته، قال: ثم سار، حتى إذا كان من آخر السحر، مال ميلة هي اشد من الميلتين الاوليين حتى كاد ينجفل، فاتيته فدعمته، فرفع راسه، فقال: من هذا؟ قلت: ابو قتادة، قال: متى كان هذا مسيرك مني؟ قلت: ما زال هذا مسيري منذ الليلة، قال: حفظك الله بما حفظت به نبيه، ثم قال: هل ترانا نخفى على الناس، ثم قال: هل ترى من احد؟ قلت: هذا راكب، ثم قلت: هذا راكب آخر، حتى اجتمعنا، فكنا سبعة ركب، قال: فمال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الطريق، فوضع راسه، ثم قال: احفظوا علينا صلاتنا، فكان اول من استيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم، والشمس في ظهره، قال: فقمنا فزعين، ثم قال: اركبوا، فركبنا، فسرنا حتى إذا ارتفعت الشمس نزل، ثم دعا بميضاة، كانت معي فيها شيء من ماء، قال: فتوضا منها وضوءا دون وضوء، قال: وبقي فيها شيء من ماء، ثم قال لابي قتادة: احفظ علينا ميضاتك، فسيكون لها نبا، ثم اذن بلال بالصلاة، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين، ثم صلى الغداة، فصنع كما كان يصنع كل يوم، قال: وركب رسول الله صلى الله عليه وسلم، وركبنا معه، قال: فجعل بعضنا يهمس إلى بعض، ما كفارة ما صنعنا بتفريطنا في صلاتنا؟ ثم قال: اما لكم في اسوة، ثم قال: اما إنه ليس في النوم تفريط،" إنما التفريط على من لم يصل الصلاة، حتى يجيء وقت الصلاة الاخرى، فمن فعل ذلك، فليصلها حين ينتبه لها، فإذا كان الغد، فليصلها عند وقتها"، ثم قال: ما ترون الناس صنعوا؟ قال: ثم قال: اصبح الناس فقدوا نبيهم، فقال ابو بكر وعمر رسول الله صلى الله عليه وسلم: بعدكم لم يكن ليخلفكم، وقال الناس: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم بين ايديكم، فإن يطيعوا ابا بكر وعمر يرشدوا، قال فانتهينا إلى الناس حين امتد النهار، وحمي كل شيء، وهم يقولون: يا رسول الله، هلكنا، عطشنا، فقال: لا هلك عليكم، ثم قال: اطلقوا لي غمري، قال: ودعا بالميضاة، فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يصب، وابو قتادة يسقيهم، فلم يعد ان راى الناس ماء في الميضاة تكابوا عليها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: احسنوا الملا، كلكم سيروى، قال: ففعلوا، فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يصب واسقيهم، حتى ما بقي غيري، وغير رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: ثم صب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لي: اشرب، فقلت: لا اشرب حتى تشرب يا رسول الله، قال: إن ساقي القوم آخرهم شربا، قال: فشربت، وشرب رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فاتى الناس الماء جامين رواء، قال: فقال عبد الله بن رباح: إني لاحدث هذا الحديث في مسجد الجامع، إذ قال عمران بن حصين : انظر ايها الفتى، كيف تحدث، فإني احد الركب تلك الليلة، قال: قلت: فانت اعلم بالحديث، فقال: ممن انت؟ قلت: من الانصار، قال: حدث، فانتم اعلم بحديثكم، قال: فحدثت القوم، فقال عمران: لقد شهدت تلك الليلة، وما شعرت ان احدا حفظه كما حفظته. وحَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنَّكُمْ تَسِيرُونَ عَشِيَّتَكُمْ وَلَيْلَتَكُمْ، وَتَأْتُونَ الْمَاءَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ غَدًا، فَانْطَلَقَ النَّاسُ، لَا يَلْوِي أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ"، قَالَ أَبُو قَتَادَةَ: فَبَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسِيرُ، حَتَّى ابْهَارَّ اللَّيْلُ، وَأَنَا إِلَى جَنْبِهِ، قَالَ: فَنَعَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَالَ عَنْ رَاحِلَتِهِ، فَأَتَيْتُهُ فَدَعَمْتُهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ أُوقِظَهُ، حَتَّى اعْتَدَلَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، قَالَ: ثُمَّ سَارَ حَتَّى تَهَوَّرَ اللَّيْلُ، مَالَ عَنْ رَاحِلَتِهِ، قَالَ: فَدَعَمْتُهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ أُوقِظَهُ، حَتَّى اعْتَدَلَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، قَالَ: ثُمَّ سَارَ، حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ السَّحَرِ، مَالَ مَيْلَةً هِيَ أَشَدُّ مِنَ الْمَيْلَتَيْنِ الأُولَيَيْنِ حَتَّى كَادَ يَنْجَفِلُ، فَأَتَيْتُهُ فَدَعَمْتُهُ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ قُلْتُ: أَبُو قَتَادَةَ، قَالَ: مَتَى كَانَ هَذَا مَسِيرَكَ مِنِّي؟ قُلْتُ: مَا زَالَ هَذَا مَسِيرِي مُنْذُ اللَّيْلَةِ، قَالَ: حَفِظَكَ اللَّهُ بِمَا حَفِظْتَ بِهِ نَبِيَّهُ، ثُمَّ قَالَ: هَلْ تَرَانَا نَخْفَى عَلَى النَّاسِ، ثُمَّ قَالَ: هَلْ تَرَى مِنْ أَحَدٍ؟ قُلْتُ: هَذَا رَاكِبٌ، ثُمَّ قُلْتُ: هَذَا رَاكِبٌ آخَرُ، حَتَّى اجْتَمَعْنَا، فَكُنَّا سَبْعَةَ رَكْبٍ، قَالَ: فَمَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الطَّرِيقِ، فَوَضَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ قَالَ: احْفَظُوا عَلَيْنَا صَلَاتَنَا، فَكَانَ أَوَّلَ مَنِ اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالشَّمْسُ فِي ظَهْرِهِ، قَالَ: فَقُمْنَا فَزِعِينَ، ثُمَّ قَالَ: ارْكَبُوا، فَرَكِبْنَا، فَسِرْنَا حَتَّى إِذَا ارْتَفَعَتِ الشَّمْسُ نَزَلَ، ثُمَّ دَعَا بِمِيضَأَةٍ، كَانَتْ مَعِي فِيهَا شَيْءٌ مِّنْ مَاءٍ، قَالَ: فَتَوَضَّأَ مِنْهَا وُضُوءًا دُونَ وُضُوءٍ، قَالَ: وَبَقِيَ فِيهَا شَيْءٌ مِّنْ مَاءٍ، ثُمَّ قَالَ لِأَبِي قَتَادَةَ: احْفَظْ عَلَيْنَا مِيضَأَتَكَ، فَسَيَكُونُ لَهَا نَبَأٌ، ثُمَّ أَذَّنَ بِلَالٌ بِالصَّلَاةِ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى الْغَدَاةَ، فَصَنَعَ كَمَا كَانَ يَصْنَعُ كُلَّ يَوْمٍ، قَالَ: وَرَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَكِبْنَا مَعَهُ، قَالَ: فَجَعَلَ بَعْضُنَا يَهْمِسُ إِلَى بَعْضٍ، مَا كَفَّارَةُ مَا صَنَعْنَا بِتَفْرِيطِنَا فِي صَلَاتِنَا؟ ثُمَّ قَالَ: أَمَا لَكُمْ فِيَّ أُسْوَةٌ، ثُمَّ قَالَ: أَمَا إِنَّهُ لَيْسَ فِي النَّوْمِ تَفْرِيطٌ،" إِنَّمَا التَّفْرِيطُ عَلَى مَنْ لَمْ يُصَلِّ الصَّلَاةَ، حَتَّى يَجِيءَ وَقْتُ الصَّلَاةِ الأُخْرَى، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ، فَلْيُصَلِّهَا حِينَ يَنْتَبِهُ لَهَا، فَإِذَا كَانَ الْغَدُ، فَلْيُصَلِّهَا عِنْدَ وَقْتِهَا"، ثُمَّ قَالَ: مَا تَرَوْنَ النَّاسَ صَنَعُوا؟ قَالَ: ثُمَّ قَالَ: أَصْبَحَ النَّاسُ فَقَدُوا نَبِيَّهُمْ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَعْدَكُمْ لَمْ يَكُنْ لِيُخَلِّفَكُمْ، وَقَالَ النَّاسُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ، فَإِنْ يُطِيعُوا أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ يَرْشُدُوا، قَالَ فَانْتَهَيْنَا إِلَى النَّاسِ حِينَ امْتَدَّ النَّهَارُ، وَحَمِيَ كُلُّ شَيْءٍ، وَهُمْ يَقُولُونَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلَكْنَا، عَطِشْنَا، فَقَالَ: لَا هُلْكَ عَلَيْكُمْ، ثُمَّ قَالَ: أَطْلِقُوا لِي غُمَرِي، قَالَ: وَدَعَا بِالْمِيضَأَةِ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُبُّ، وَأَبُو قَتَادَةَ يَسْقِيهِمْ، فَلَمْ يَعْدُ أَنْ رَأَى النَّاسُ مَاءً فِي الْمِيضَأَةِ تَكَابُّوا عَلَيْهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَحْسِنُوا الْمَلَأَ، كُلُّكُمْ سَيَرْوَى، قَالَ: فَفَعَلُوا، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُبُّ وَأَسْقِيهِمْ، حَتَّى مَا بَقِيَ غَيْرِي، وَغَيْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ثُمَّ صَبَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي: اشْرَبْ، فَقُلْتُ: لَا أَشْرَبُ حَتَّى تَشْرَبَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: إِنَّ سَاقِيَ الْقَوْمِ آخِرُهُمْ شُرْبًا، قَالَ: فَشَرِبْتُ، وَشَرِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَأَتَى النَّاسُ الْمَاءَ جَامِّينَ رِوَاءً، قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَبَاحٍ: إِنِّي لَأُحَدِّثُ هَذَا الْحَدِيثَ فِي مَسْجِدِ الْجَامِعِ، إِذْ قَالَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ : انْظُرْ أَيُّهَا الْفَتَى، كَيْفَ تُحَدِّثُ، فَإِنِّي أَحَدُ الرَّكْبِ تِلْكَ اللَّيْلَةَ، قَالَ: قُلْتُ: فَأَنْتَ أَعْلَمُ بِالْحَدِيثِ، فَقَالَ: مِمَّنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ: مِنَ الأَنْصَارِ، قَالَ: حَدِّثْ، فَأَنْتُمْ أَعْلَمُ بِحَدِيثِكُمْ، قَالَ: فَحَدَّثْتُ الْقَوْمَ، فَقَالَ عِمْرَانُ: لَقَدْ شَهِدْتُ تِلْكَ اللَّيْلَةَ، وَمَا شَعَرْتُ أَنَّ أَحَدًا حَفِظَهُ كَمَا حَفِظْتُهُ.
ثابت نے عبداللہ بن رباح سے اور انھوں نے حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سےر وایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطاب فرمایا اور کہا: ”تم اپنی (پوری) شام اور (پوری) رات چلتے رہو گے تو ان شاء اللہ کل تک پانی پر پہنچ جاؤ گے۔“ لوگ چل پڑے، کوئی مڑ کر دوسرے کی طرف دیکھتا بھی نہ تھا۔ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اسی عالم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے یہاں تک کہ رات آدھی گزر گئی، میں آپ کے پہلو میں چل رہا تھا، کہا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اونگھ آگئی اور آپ سواری سے ایک طرف جھک گئے، میں آپ کے پاس آیا اور آپ کو جگائے بغیر آپ کو سہارا دیا حتی کہ آپ اپنی سواری پر سیدھے ہو گئے، پھر آپ چلتے رہے یہا ں تک کہ رات کا بیشتر حصہ گزر گیا، آپ (پھر) سواری پر (ایک طرف) جھکے، کہا: میں نے آپ کو جگائے بغیر آپ کو سہارا دیا یہاں تک کہ آپ اپنی سواری پر سیدھے ہو گئے، کہا: پھر چلتے رہے حتی کہ سحری کا آخری وقت تھا تو آپ (پھر) جھکے، یہ جھکنا پہلے دونزں بار کے جھکنے سے زیادہ تھا، قریب تھا کہ آپ اونٹ سے گر پڑتے، میں آپ کے پاس آیا اور آپ کو سہارا دیاتو آپ نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور فرمایا: ”یہ کون ہے؟“ میں نے عرض کی: ابو قتادہ ہوں۔ فرمایا: ”تم کب سے میرے ساتھ اس طرح چل رہے ہو؟“ میں نے عرض کی: میں رات ہی سے اس طرح سفر کر رہا ہوں۔ فرمایا: ” اللہ اسی طرح تمھاری حفاظت کرے جس طر ح تم نے اس کے نبی کی حفاظت کی۔“ پھر فرمایا: ” کیا تم دیکھ رہے ہو (کہ) ہم لوگوں سے اوجھل ہیں؟“ پھر پوچھا: ”تمھیں کوئی (اور) نظر آر ہا ہے؟“ میں نے عرض کی: یہ ایک سوار ہے۔ پھر عرض کی: یہ ایک اور سوار ہے حتی کہ ہم اکٹھے ہوئے تو سات سوار تھے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راستے سے ایک طرف ہٹے، پھر سر (نیچے) رکھ دیا (اور لیٹ گئے) پھر فرمایا: ” ہمارے لیے ہماری نماز کا خیال رکھنا۔“ پھر جو سب سے پہلے جاگے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے، سورج آپ کی پشت پر (چمک رہا) تھا، کہا: ہم سخت تشویش کے عالم میں کھڑے ہوئے، پھر آپ نے فرمایا: ”سوار ہوجاؤ۔“ ہم سوار ہوئے اور (آگے) چل پڑے حتی کہ جب سورج بلند ہو گیا تو آپ اترے، پھر آپ نے وضو کا برتن مانگا جو میرے ساتھ تھا، اسی میں کچھ پانی تھا، کہا: پھر آپ نے اس سے (مکمل) وضو کے مقابلے میں کچھ ہلکا وضو کیا، اور ا س میں کچھ پانی بچ بھی گیا، پھر آپ نے (مجھے) ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ” ہمارے لیے اپنے وضو کا برتن محفوظ رکھنا، اس کی ایک خبر ہو گی۔“ پھر بلال ر رضی اللہ عنہ نے نماز کے لیے اذان کہی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھیں، پھر آپ نے اسی طرح جس طرح روز کرتے تھے صبح کی نماز پڑھائی، کہا: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو گئے ہم بھی آپ کی معیت میں سوار ہو گئے، کہا: ہم میں سے کچھ لوگ ایک دوسرے سے کھسر پھر کرنے لگے کہ ہم نے نماز میں جو کوتاہی کی ہے اس کا کفارہ کیا ہے؟ اس پر آپ نے فرمایا: ” کیا تمھارے لیے میر ے عمل میں نمونہ نہیں؟“ پھر آپ نے فرمایا: ” سمجھ لو! نیند (آجانے) میں (کسی کی) کوئی کوتاہی نہیں۔“ کوتاہی اس کی ہے جس نے (جاگنے کے بعد) دوسری نماز کا وقت آجانے تک نماز نہیں پڑھی، جو اس طرح (نیند) کرے تو جب اس کے لیے جاگے تو یہ نماز پڑھ لے، پھر جب دوسرا دن آئے تو اسے وقت پر ادا کرے۔“ پھر فرمایا: ”تم کیا دیکھتے ہو (دوسرے) لوگوں نےکیا کیا؟“ کہا: پھر آپ نے فرمایا: ”لوگوں نے صبح کی تو اپنے نبی کو گم پایا۔ ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمھارے پیچھے ہیں، وہ ایسے نہیں کہ تمھیں پیچھے چھوڑ دیں۔ (دوسرے) لوگوں نے کہا: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سے آگے ہیں۔ اگر وہ ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہ کی ا رضی اللہ عنہ اعت کریں تو صحیح راستے پر چلیں گے۔“ کیا: تو ہم لوگوں تک (اس وقت) پہنچ پائے جب دن چڑھ آیا تھا اور ہر شے تپ گئی تھی اور وہ کہہ رہے تھے: اے اللہ کے رسول! ہم پیا سے مر گئے۔ تو آپ نے فرمایا: ” تم پر کوئی ہلاکت نہیں آئی۔“ پھر فرمایا: ”میرا چھوٹا پیالہ میرے پاس آنے دو۔“ کہا: پھر وضو کے پانی والا برتن منگوایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس سے پیالے میں) انڈیلتے گئے اور ابو قتادہ رضی اللہ عنہ لوگوں کو پلاتے گئے، زیاد دیر نہ گزری تھ کہ لوگوں نے وضو کے برتن کیں جو تھوڑا سا پانی تھا، دیکھ لیا، اس بر جھرمٹ بنا کر اکٹھے ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اچھا طریقہ اختیار کرو، تم میں سے ہر ایک اچھی طرح پیاس بجھا لے گا۔“ کہا: لوگوں نے ایسا ہی کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی (پیالے میں) انڈیلتے گئے اور میں لوگوں کو پلاتا گیا یہاں تک کہ میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کوئی نہ بچا، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پانی ڈالا اور مجھ سے فرمایا: ” پیو۔“ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! جب تک آپ نہیں پی لیں گے میں نہیں پیوں گا۔ فرمایا: ” قوم کو پانی پلانے والا ان سب سے آخر میں پیتا ہے۔“ کہا: تب میں نے پی لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نوش فرمایا، کہا: اس کے بعد لوگ اس حالت میں (اگلے) پانی پر پہنچے کہ سب (نے اپنے) برتن پانی سے بھرے ہوئے تھے اور (خوب) سیراب تھے۔ (ثابت نے) کہا، عبداللہ بن رباح نے کہا: میں یہ حدیث جامع مسجد میں سب لوگوں کو سناؤں گا۔ تب عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے جوان! خیال رکھنا کہ تم کس طرح حدیث بیان کرتے ہو، اس رات میں بھی قافلے کے سواروں میں سے ایک تھا۔ کہا: میں نے عرض کی: آپ اس حدیث کو زیادہ جاننے والے ہیں۔ تو انھوں نے پوچھا: تم کس قبیلے سے ہو؟ میں میں نے کہا انصار سے۔ فرمایا: حدیث بیان کرو تم اپنی احادیث سے زیادہ آگاہ ہو (انصار میں سے ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے اس سارے واقعے کا سب سے زیادہ اور باریکی سے مشاہدہ کیا تھا بلکہ و ہ اس سارے واقعے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ تھے، آگے ان سے سننے والے عبداللہ بن رباح بھی انصار میں سے تھے۔) کہا: میں نے لوگوں کو حدیث سنائی تو عمران رضی اللہ عنہ نے کہا: اس رات میں میں بھی موجود تھا اور مین نہیں سمجھتاکہ اسے کسی نے اس طرح یا در کھا جس طرح تم نے اسے یا درکھا ہے۔
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطاب فرمایا اور کہا: تم آج زوال سے لے کر رات تک چلو گے اور کل صبح ان شاء اللہ پانی پر پہنچو گے تو لوگ چل پڑے کوئی کسی دوسرے کی طرف متوجہ نہیں ہو رہا تھا۔ ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے۔ میں بھی ساتھ تھا حتیٰ کہ آدھی رات گزر گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اونگھ آ گئی اور اپنی سواری پر ایک طرف جھکے، میں نے آگے بڑھ کر آپصلی اللہ علیہ وسلم کو جگائے بغیر سہارا دیا حتیٰ کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سیدھے ہو گئے۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے حتیٰ کہ رات کا اکثر حصہ گزر گیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر ایک طرف جھک گئے۔ پھر میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو جگائے بغیر سہارا دیا۔ حتیٰ کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم سواری پر سیدھے بیٹھ گئے پھر چلتے رہے یہاں تک کہ رات کا آخری حصہ آ پہنچا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم پہلی دوبار سے زیادہ جھک گئے۔ قریب تھا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم گر جائیں تو میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ کو سہارا دیا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھا کر پوچھا: ”یہ کون ہے؟“ میں نے کہا میں ابو قتادہ ہوں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم کب سے میرے ساتھ اس طرح چل رہے ہو؟ میں نے عرض کیا۔ رات بھر سے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس طرح چل رہا ہوں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تیری حفاظت فرمائے، کیونکہ تم نے اس کے نبی کی حفاظت کی ہے۔“ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہارے خیال میں ہم لوگوں سے اوجھل ہو سکتے ہیں؟“ پھر فرمایا: ”کیا تمہیں کوئی نظر آ رہا ہے؟“ میں نے کہا یہ ایک سوار ہے۔ پھر میں نے کہا: یہ دوسرا سوار ہے، حتیٰ کہ سات سوار جمع ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راستہ سے ایک طرف ہٹ گئے اور اپنا سر زمین پر رکھ لیا۔ یعنی سونے لگے۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ ہماری نماز کی حفاظت کرنا۔ پھر سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے جبکہ سورج آپصلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر آ چکا تھا اور ہم بھی گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سوار ہو جاؤ“ تو ہم سوار ہو کر چل پڑے۔ حتیٰ کہ سورج بلند ہو گیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم سواری سے اترے۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے وضوء کا برتن طلب کیا جو میرے پاس تھا، اس میں تھوڑا سا پانی تھا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے تخفیف کے ساتھ وضوء کیا یعنی کم مرتبہ اعضاء دھوئے کہ کم پانی استعمال کیا اور برتن میں تھوڑا سا پانی بچ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو قتادہ سے فرمایا: ”ہمارے لیے اپنے برتن کو محفوظ رکھنا، جلد یہ کہ ایک بڑی خیر کا سبب ہو گا۔“ پھر بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اذان کہی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں ادا کیں۔ پھر صبح کی نماز پڑھائی، اس کو اسی طرح پڑھایا جس طرح روزانہ پڑھاتے تھے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو گئے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار ہو گئے اور ہم ایک دوسرے سے سرگوشی کرنے لگے کہ نماز کے بارے میں جو ہم نے کوتاہی کی ہے اس کا کفارہ کیا ہے؟ تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہارے لیے نمونہ نہیں ہوں؟“ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں سو جانے کی صورت میں کوتاہی نہیں ہے، کوتاہی تو اس صورت میں ہے کہ انسان نماز نہ پڑھے (حالانکہ پڑھ سکتا ہے) یہاں تک کہ دوسری نماز کا وقت ہو جائے۔ جس کو یہ صورت (کہ سویا رہے) پیش آ جائے تو وہ بیدار ہونے پر نماز پڑھ لے اور اگلے دن نماز اپنے وقت پر پڑھے (عمداً مؤخر نہ کرے) پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تمہارے خیال میں لوگوں نے کیا کیا؟“ پھر فرمایا: لوگوں نے صبح کے وقت اپنے نبی کو اپنے اندر نہیں پایا تو ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پیچھے ہیں وہ تمہیں اپنے پیچھے نہیں چھوڑ سکتے اور دوسرے لوگوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے آگے ہیں۔ پس اگر لوگ ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی اطاعت کریں گے تو ہدایت پائیں گے (یعنی ان کی بات مان لیں گے تو میرے انتظار میں رکے رہیں گے کیونکہ میں تو پیچھے ہوں) پھر ہم لوگوں کے پاس اس وقت پہنچے جب دن کافی چڑھ آیا اور ہر چیز گم ہو گئی اور لوگ کہہ رہے تھے کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم پیاسے مرگئے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ہلاک نہیں ہوگے“ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا چھوٹا پیالہ لاؤ“ اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کا برتن منگوایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی ڈالنے لگے اور ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پلا رہے تھے جوں ہی لوگوں نے برتن میں معمولی سا پانی دیکھا تو اس پر ٹوٹ پڑے (ہر ایک کی خواہش تھی کہ میں پانی سے محروم نہ رہوں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا اخلاق اختیار کرو، سب سیراب ہو جاؤ گے“ تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر عمل کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی انڈیلنے لگے اور میں انہیں پلانے لگا۔ حتیٰ کہ میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی باقی نہ رہا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی ڈالا اور مجھے فرمایا: ”پیو“ میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جب تک آپصلی اللہ علیہ وسلم نہیں پی لیں گے میں نہیں پیوں گا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کو پانی پلانے والا آخر میں پیتا ہے“ تو میں نے پی لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پی لیا۔ پھر سب لوگ سیراب ہو کر آرام کے ساتھ پانی تک پہنچ گئے۔ ثابت کہتے ہیں، عبداللہ بن رباح نے بتایا میں جامع مسجد میں یہ حدیث بیان کررہا تھا کہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اے نوجوان! سوچ لو، کیسے بیان کر رہے ہو کیونکہ اس رات کے سواروں میں سے ایک میں بھی ہوں تو میں نے کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم واقعہ بہتر جانتے ہیں۔ انہوں نے پوچھا: تم کس خاندان سے ہو؟ میں نے کہا: انصار سے ہوں۔ انہوں نے کہا۔ بیان کرو تم اپنے واقعات کو بہتر جانتے ہو تو میں نے لوگوں کو پورا واقعہ سنایا۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں بھی اس رات موجود تھا اور میں نہیں سمجھتا کسی نے اس واقعہ کو اس طرح یاد رکھا ہے جیسا تو نے یاد رکھا ہے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1562
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) لَايَلْوْي أَحَدُ عَلٰي أَحَدٍ: کوئی ایک دوسرے کی طرف مڑ کر نہیں دیکھتا تھا، سب سیدھے رخ چل رہےتھے۔ (2) أَبْهَارُ الليل: تھوڑا اللیل۔ رات آدھی گزر گئی۔ (3) نَعِسَ: آپ کو اونگھ آ گئی۔ (4) دَعَمْتُه: میں نے آپﷺ کو سہارا دیا، تاکہ آپ سیدھے ہو جائیں۔ (5) تَهَوَّرَالليل: رات کا اکثر حصہ گزرگیا۔ (6) تَهَوَّرَ البِنَاء: سے مأخوذ ہے، عمارت گرنے لگی۔ (7) يَنْجَفِل: گرنے لگی۔ بِمَا حَفِظْت میں با سببيہ ہے اور ما مصدریہ ہے۔ یعنی بسبب(8) حفظكَ: تیرے حفاظت کرنے کے سبب، تیری حفاظت کی بنا پر۔ (9) رَكْبٍ: راكب کی جمع ہے۔ سوار، مِيْضَأَةٍ: لوٹا، وضو کرنے کا برتن۔ (10) وضو، دون وضوء: عام وضو سے ہلکا۔ عام وضوء سے کم پانی استعمال کیا۔ (11) يَهْمِسُ إِلٰي بَعْضٍ: ایک دوسرے سے آہستگی کے ساتھ گفتگو کرنا۔ (12) أُسْوَة: نمونہ ماڈل۔ (13) لَيْسَ فِي النَّومِ تَفْرِيْط: سوئے سوئے غیر اختیاری طور پر نماز فوت ہو جائے تو یہ تقصیر اور کوتاہی نہیں ہے۔ (14) مَاتَرَوْنَ النَّاسَ صَنَعُوا: ثُمَّ قَالَ: مقصد یہ ہے کہ جب آپﷺ نے سورج نکلنے کے بعد، ان پیچھے رہ جانے والے ساتھیوں کو صبح کی نماز پڑھا دی تو ان سے پوچھا تمہارے خیال میں دوسرے ساتھیوں کا ہمارے بارے میں کیا خیال ہے کہ ہم کہاں ہیں؟ فوائد ومسائل: 1۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کے سلسلے میں تمام ساتھیوں کو اعتماد میں لیا اور ان کو صورت حال سے پوری طرح آگاہ فرمایا تاکہ وہ ذہنی طور پر تیار ہو جائیں اور اس سفر میں بہت سے معجزات ظہور پذیر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ پیش آنے والے واقعات سے بھی آگاہ فرمایا لیکن اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ آپﷺ کو ایسی قوت حاصل تھی جس چیز سے آپﷺ غیب کو جان لیتے تھے۔ رسول اللہ تعالیٰ کی نگرانی اور حفاظت میں ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت ومصلحت کے تحت جس سے آگاہ کرنا چاہتا ہے آگاہ فرما دیتا ہے اور جس کو مخفی رکھنا چاہتا ہے۔ اپنی حکمت کے تحت پوشیدہ رکھتا ہے۔ آپﷺ کو صبح کے وقت سے آگاہ نہیں فرمایا۔ آپﷺ نے نماز کے اہتمام کی خاطر ڈیوٹی مقرر کی تھی۔ محافظ بھی سو گئے لیکن آپﷺ نے اس واقعہ سے آگاہ نہیں فرمایا کہ یہ واقعہ بھی پیش آئے گا اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اونگھ اور ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بار بار سہارا دینے کا پتہ چلا۔ 2۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیند کی مجبوری کے تحت ساتھیوں سے الگ ہو کر لیٹ گئے اور ساتھیوں کو نماز کے بارے میں تاکید فرمائی۔ لیکن سب نیند کے ہاتھوں مجبور ہو کر سو گئے۔ سورج کے کافی بلند ہونے کےبعد آپﷺ بیدار ہوئے۔ لیکن آپﷺ نے ساتھیوں کو سرزنش اور توبیخ نہیں فرمائی۔ بلکہ ساتھی جب اس سلسلہ میں پریشان ہوئے کہ اس کوتاہی کا کفارہ کیا ہو گا تو ان کو حوصلہ دیا۔ 3۔ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپﷺ کے ساتھ رہے۔ آپﷺ کی حفاظت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خدمت کا اعتراف فرمایا اور اس کو دعائے خیر دی۔ 4۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوت شدہ نماز کو پورے اہتمام کے ساتھ باجماعت ادا فرمایا اور غفلت والی جگہ کو چھوڑ کر نماز ادا کی اورساتھیوں کو بتا دیا۔ اگر غیر شعوری اور غیر ارادی طور پر سونے کی وجہ سے نماز کاوقت نکل جائے تو انسان معذور تصور ہو گا گناہ گار نہیں ہو گا۔ ہاں اس کو نیند سے بیدار ہونے کے بعد نماز پڑھ لینی چاہیے اور آئندہ نماز اپنے وقت پر پڑھے تاخیر کو عادت نہ بنا لے۔ یہ مقصد نہیں کہ اگلے دن دوبارہ وقت پر اس نماز کا اعادہ کرے جان بوجھ کر نماز میں تاخیر کرنا درست نہیں ہے۔ 5۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضوء کے برتن سے تخفیف کے ساتھ وضوء کیا اوراس میں کچھ پانی رہنے دیا اور ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بتا دیا کہ اس برتن کی حفاظت کرنا۔ یہ ایک عجیب خبر کا باعث بنے گا اور ایسے ہی ہوا کہ جب صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے پیاس سے ہلاکت کی شکایت کی تو آپﷺ نے فرمایا حوصلہ کرو۔ کسی قسم کی ہلاکت سے دوچار نہیں ہو گے۔ اس معمولی پانی میں اتنی برکت ہوئی کہ سب ساتھی اس سے سیراب ہو گئے اور جب سینکڑوں ساتھی معمولی پانی دیکھ کر ایک دوسرے سے پہلے پانی لینے کی کوشش کرنے لگے تو آپﷺ نے فرمایا آرام وسکون سے پانی لو۔ تم سب سیراب اور آسودہ ہو جاؤ گے اور ایسا ہی ہوا کہ سکون واطمینان سے اپنی اپنی باری پر پانی لے کر تمام لوگ سیراب ہو گئے۔ 6۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ کر نماز پڑھی تو نماز پڑھنے کے بعد دوسرے ساتھیوں میں ہونے والی گفتگو سے آگاہ فرمایا اور یہ بھی بتا دیا ابوبکر اورعمر رضوان اللہ عنھم اجمعین نے صحیح بات کی ہے اگر لوگ ان کی بات مان کر ہمارا انتظار کریں گے تو یہی فیصلہ صحیح ہو گا اور ہم ان تک پہنچ جائیں گے۔ 7۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ لوگوں کو پانی پلا رہے تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے آخر میں پانی نوش فرمایا اور اس بات کی عملی تعلیم دی کہ: (ساقي القوم آخرهم شربًا) پانی پلانے والا سب سے آخر میں پیتا ہے۔ 8۔ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس سفر کا واقعہ بیان کیا ہے۔ اگرچہ اس میں بھی عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ موجود تھے لیکن جو واقعہ انہوں نے خود بیان کیا ہے وہ اس سے الگ واقعہ ہے۔ لیکن یہ ممکن ہے دونوں واقعات ایک ہی سفرمیں پیش آئے ہوں۔ ایک واقعہ میں آپﷺ کے ساتھ صرف سات ساتھی تھے اور دوسرے واقعہ میں سب ساتھی ساتھ تھے جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے۔ 9۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ تم زوال کے بعد سے لے کر رات بھر چلنے کے بعد پانی پر پہنچو گے ایسے ہی ہوا جب لوگ پانی میں برکت کے بعد سیراب ہو کر آسودہ حالت میں چل پڑے تو پانی پر پہنچ گئے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں جتنی پیشن گوئیاں فرمائی تھیں پوری ہو گئیں۔