سلم بن زریر عطاری نے کہا: میں نے ابو رجاء عطاری سے سنا، وہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کر رہے تھے، کہا: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا، ہم اس رات چلتے رہے حتی کہ جب صبح قریب آئی تو ہم (تھکاوٹ کے سبب) اتر پڑے، ہم پر (نینج میں ڈوبی) آنکھیں غالب آگئیں یہاں تک کہ سورج چمکنے لگا۔ہم میں جو سب سے پہلے بیدار ہوئے وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے۔جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سو جاتے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جگایا نہیں کرتے تھے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بیدار ہو جاتے، پھر عمر رضی اللہ عنہ جاگے، وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کھڑے ہو گے اور اللہ اکبر پکارنے لگے اور (اس) تکبیر میں آواز اونچی کرنے لگے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جاگ گئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور دیکھا کہ سورج چمک رہا ہےتو فرمایا: ’ (آگے) چلو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں لے کر چلے یہاں تک کہ سورج (روشن) ہو کر سفید ہو گیا، آپ اتر ے، ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔لوگوں میں سے ایک آدمی الگ ہو گیا اور اس نے ہمارے ساتھ نماز نہ پڑھی، جب سلام پھیرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: ”فلاں!تم نے ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟“ اس نے کہا: اے اللہ کے نبی!مجھےےجنابت لاحق ہوگی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا۔اس نے مٹی سے تیمم کیا اور نماز پڑھی، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھےےچند سواروں سمیت پانی کی تلاش میں جلدی اپنے آگے روانہ کیا، ہم سخت پیاسے تھے، جب ہم چل رہے تھے تو ہمیں ایک عورت ملی جس نے اپنے پاؤں دو مشکوں کے درمیان لٹکارکھےے تھے (بقڑی مشکوں سمیت پاؤں لٹکائے، اونٹ پر سوار تھی)، ہم نے اس سے پوچھا: پانی کہا ں ہے؟کہنے لگی: افسوس!تمہارے لیے پانی نہیں ہے۔ہم نے پوچھا: تمہارے گھر اور پانی کے دریمان کتنا فاصلہ ہے؟اس نے کہا: ایک دن اور رات کی مسافت ہے۔ہم نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو۔کہنے لگی: اللہ کا رسول کیا ہوتا ہے؟ہم نے اسے اس کے معاملے میں (فیصلےکا) کچھاختیار نہ دیا حتی کہ اسے لے آئےاس کے ساتھ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حاضر ہوئے، آپنے اس سے پوچھا تو اس نے آپکو اسی طرح بتایا جس طرح ہمیں بتایا تھا، اور آپ کو یہ بھی بتایا کہ وہ یتیم بچوں والی ہے، اس کے (زیر کفالت) بہت سے یتیم بچے ہیں۔آپ نے اس کی پانی ڈھونے والی اونٹنی کے بارے میں حکم دیا، اسے بھٹا دیا گیا اور آپ نے کلی کر کے مسکوں کے اوپر کے دونوں سوراخوں میں پانی ڈالا، پھر آپ نے اس کی اونٹنی کوکھرا کیا تو ہم سب نے اور ہم چالیس (شدید) پیاسے افراد تھے (ان مشکوں سے) پانی پیا یہاں تک کہ ہم سیراب ہو گے اور ےہمارے پاس جتنی مشکیں اور پانی کے برتن تھے سب بھر لیے اور اپنے ساتھی کو غسل بھی کرا یا، التبہ ہم نےکسی اونٹ کو پانی نہ پیلایا اور وہ یعنی دونوں مشکیں پانی (کی مقدار زیادہ ہو جانے کے سبب) پھٹنے والی ہو گیئں، پھر آپ نے فرمایا: ”تمہارےپاس جو کچھ ہے، لے آؤ۔“ ہم نے ٹکڑے اور کھجوریں اکٹھی کیں، اس کے لیے ایک تھیلی کا منہ بند کر دیا گیا تو آپ نےاس سے کہا: ”جاؤ اور یہ خوراک اپنے بچوں کو کھلا ؤ اور جان لو!ہم نے تمہارے پانی میں کمی نہیں۔“ جب وہ اپنے گھر والوں کے پاس پہنچی تو کہا: میں انسانوں کے سب سے بڑے ساحر سے مل کر آئی ہوں یا پھر جس طرحکہ وہ خود کو سمجھتا ہے، وہ نبی ہے، اور اس کا معملہ اس اس کرح سے ہے۔پھر (آخر کار) اللہ نے اس عورت کے سبب سے لوگوں سے کٹی ہوئی اس آبادی کو ہدایت عطا کر دی، وہ مسلمان ہوگی اور (باقی) لوگ بھی مسلمان ہو گے۔ (یہ پچھلے واقعے سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ ہے۔)
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا کہ ہم رات بھر چلتے رہے حتیٰ کہ صبح کا وقت ہو گیا تو ہم نے پڑاؤ کیا اور ہم پر نیند نے غلبہ پا لیا، حتیٰ کہ سورج نکل آیا۔ ہم میں سب سے پہلے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیدار ہوئے۔ ہماری عادت تھی کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سو جاتے تو ہم آپصلی اللہ علیہ وسلم کو نیند سے جگاتے نہیں تھے، حتیٰ کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم خود ہی بیدار ہو جاتے، پھر (ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیدار ہو گئے تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہو کر اللّٰہ اکبر کہنے لگے اور تکبیر بھی بلند آواز سے کہتے حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہو گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر مبارک اٹھایا اور سورج کو دیکھا کہ وہ نکل چکا ہے تو فرمایا کوچ کرو ہمارے ساتھ آپ بھی چلتے رہے، حتیٰ کہ سورج سفید ہو گیا (یعنی سرخی ختم ہوگئی دھوپ پھیل گئی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری سے اتر کر صبح کی نماز پڑھائی۔ ایک آدمی لوگوں سے الگ رہا۔ اس نے ہمارے ساتھ نماز نہ پڑھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سلام پھیرا تو اس سے پوچھا: ”اے فلاں! تم نے ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟“ اس نے جواب دیا: اے اللہ کےنبی! مجھے جنابت لاحق ہو گئی تھی (جنابت کی بنا پر جماعت میں شریک نہیں ہوا) آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تیمّم کا حکم دیا اور اس نے مٹی سے تیمّم کیا اور نماز پڑھ لی۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے چند ساتھیوں کے ساتھ مجھے آگے پانی کی تلاش میں دوڑایا۔ کیونکہ ہمیں سخت پیاس لگ چکی تھی۔ ہم جا رہے تھے کہ اچانک ہمیں ایک عورت ملی جو دو مشکوں کے درمیان پاؤں لٹکائے ہوئے تھی تو ہم نے اس سے پوچھا: پانی کہاں ہے؟ اس نے کہا: دور بہت ہی دور۔ تم پانی حاصل نہیں کر سکتے۔ ہم نے پوچھا: تیرے گھر والوں سے پانی کتنی دور ہے؟ اس نے کہا ایک دن، رات کا فاصلہ ہے۔ ہم نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو۔ اس نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہوتا ہے؟ ہم نے اس کا معاملہ اس کے اختیار میں نہ رہنے دیا اور اس کو لے کر چل کر پڑے اور ہم اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لے آئے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: اس نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو وہی کچھ بتایا جو ہمیں بتا چکی تھی اور اس نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی بتایا وہ یتیموں والی ہے۔ اس کے کئی یتیم بچے ہیں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پانی والے اونٹ کے بارے میں حکم دیا۔ اسے بٹھایا گیا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مشکوں کے اوپر والے دہانوں میں کلی کی پھر اس کے اونٹ کو اٹھا دیا گیا تو ہم نے پانی پیا جبکہ ہم چالیس پیاسے آدمی تھے۔ ہم سیراب ہو گئے اور ہمارے پاس جو مشکیزہ اور برتن تھا اس کو ہم نے بھر لیا اور آپنے ساتھی کو غسل کروایا۔ ہاں ہم نے کسی اونٹ کو پانی نہیں پلایا اور اس کی مشکیں پھٹنے کو تھیں یعنی اس کی مشکیں پہلے سے بھی زیادہ بھر گئیں۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کچھ تمہارے پاس ہے لاؤ“ ہم نے اس کے لیے روٹی کے ٹکڑے اور کھجوریں جمع کیں اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک تھیلی میں باندھ دیا اور اسے فرمایا: جاؤ، اسے اپنے بچوں کو کھلاؤ اور جان لو ہم نے تیرے پانی کو کچھ کم نہیں کیا۔ جب وہ اپنے گھر والوں کے پاس آئی تو کہنے لگی آج میں سب انسانوں سے بڑے جادوگر کو مل چکی ہوں یا وہ نبی ہے جیسا کہ اس کا دعویٰ ہے، اس نے یہ کام دکھائے تو اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی وجہ ان بستی والوں کو ہدایت دی۔ وہ مسلمان ہوئی اور بستی والے بھی مسلمان ہو گئے۔