حدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي ، اخبرنا النضر بن شميل ، حدثنا عوف بن ابي جميلة الاعرابي ، عن ابي رجاء العطاردي ، عن عمران بن الحصين ، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، فسرينا ليلة، حتى إذا كان من آخر الليل قبيل الصبح، وقعنا تلك الوقعة التي لا وقعة عند المسافر احلى منها، فما ايقظنا إلا حر الشمس، وساق الحديث بنحو حديث سلم بن زرير، وزاد ونقص، وقال في الحديث: فلما استيقظ عمر بن الخطاب، وراى ما اصاب الناس، وكان اجوف جليدا، فكبر ورفع صوته بالتكبير، حتى استيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم لشدة صوته بالتكبير، فلما استيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم، شكوا إليه الذي اصابهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا ضير، ارتحلوا، واقتص الحديث.حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ ، حَدَّثَنَا عَوْفُ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ الأَعْرَابِيُّ ، عَنْ أَبِي رَجَاءٍ الْعُطَارِدِيِّ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَيْنِ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَسَرَيْنَا لَيْلَةً، حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ قُبَيْلَ الصُّبْحِ، وَقَعْنَا تِلْكَ الْوَقْعَةَ الَّتِي لَا وَقْعَةَ عِنْدَ الْمُسَافِرِ أَحْلَى مِنْهَا، فَمَا أَيْقَظَنَا إِلَّا حَرُّ الشَّمْسِ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ سَلْمِ بْنِ زَرِيرٍ، وَزَادَ وَنَقَصَ، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ: فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَرَأَى مَا أَصَابَ النَّاسَ، وَكَانَ أَجْوَفَ جَلِيدًا، فَكَبَّرَ وَرَفَعَ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ، حَتَّى اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِشِدَّةِ صَوْتِهِ بِالتَّكْبِيرِ، فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، شَكَوْا إِلَيْهِ الَّذِي أَصَابَهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا ضَيْرَ، ارْتَحِلُوا، وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ.
) عوف بن ابی جمیلہ اعرابی نے ابو رجاء عطاری سے، انھوں نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ہم ایک سفر کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے، ہم ایک رات چلے، جب رات کا آخری حصہ آیا، صبح سے ٹھوڑی دیر پہلے ہم اس طرح پڑکر سو گئے کہ اس سے زیادہ میٹھی نیند ایک مسافر کے لیے اور کوئی نہیں ہو سکتی، ہمیں سورج کی حرارت ہی نے جگایا ....پھر سلم بن زریر کی حدیث کی طرح حدیث سنائی اور کچھ کمی بیشی بھی اور (اپنی روایت کردہ) حدیث میں انھوں نے کہا: جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جاگے اور لوگوں کی صورت حال دیکھی، اور وہ بلند آواز آدمی تھے تو انھوں نے اونچی آواز سے اللہ اکبر کہا حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اونچے اللہ اکبرکہنے سے جاگ گئے، جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جاگ گئے تو لوگوں نے اپنے اس معاملے کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی (بڑا) نقصان نہیں ہوا، (آگئے) چلو۔“ ......آگے وہی حدیث بیان کی۔
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو ہم رات بھر چلتے رہے۔ حتیٰ کہ رات کا آخری وقت یعنی صبح کے قریب کا وقت ہوگیا تو ہم اس طرح لیٹ گئے کہ مسافر کو اس سے زیادہ لذیذ لیٹنا نہیں ملتا۔ پھر ہمیں سورج کی گرمی ہی نے بیدار کیا۔ آگے کچھ کمی و بیشی کے ساتھ اسلم بن زریر کی مذکورہ بالا روایت کی طرح بیان کیا اور اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ جب عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیدار ہوئے اور انہوں نے لوگوں کی پریشان کن حالت دیکھی اور وہ بلند آواز اور زور آور تھے تو انہوں نے اللّٰہ اکبر کہنا شروع کیا اور تکبیر کو بلند آواز سے کہا حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بلند آواز سے بیدار ہو گئے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہو گئے تو لوگوں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی پریشانی کا تذکرہ کیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی نقصان نہیں، کوچ کرو“ اور حدیث کو آخری وقت تک بیان کیا۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1564
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) أَجْوَف: بلند آواز، آواز جس کے جوف (پیٹ) سے نکلے۔ (2) جَلِيْد: قوی، طاقتور اور مضبوط۔ (3) لَاضَيْر: یعنی نیند کے سبب نماز کا لیٹ ہو جانا، باعث نقصان نہیں ہے۔ اس لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔