صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
5. بَابُ: {ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا}:
باب: آیت کی تفسیر ”ان لوگوں کی نسل والو! جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا، وہ (نوح) بیشک بڑا ہی شکر گزار بندہ تھا“۔
(5) Chapter. “O offspring of those whom We carried (in the ship) with Nuh (Noah)! Verily, he was a grateful slave." (V.17:3)
حدیث نمبر: 4712
Save to word مکررات اعراب English
(قدسي) حدثنا محمد بن مقاتل، اخبرنا عبد الله، اخبرنا ابو حيان التيمي، عن ابي زرعة بن عمرو بن جرير، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتي بلحم، فرفع إليه الذراع وكانت تعجبه، فنهش منها نهشة، ثم قال:" انا سيد الناس يوم القيامة، وهل تدرون مم ذلك؟ يجمع الله الناس الاولين والآخرين في صعيد واحد، يسمعهم الداعي، وينفذهم البصر، وتدنو الشمس، فيبلغ الناس من الغم والكرب ما لا يطيقون، ولا يحتملون، فيقول الناس: الا ترون ما قد بلغكم، الا تنظرون من يشفع لكم إلى ربكم؟، فيقول بعض الناس لبعض: عليكم بآدم، فياتون آدم عليه السلام، فيقولون له: انت ابو البشر خلقك الله بيده، ونفخ فيك من روحه، وامر الملائكة فسجدوا لك، اشفع لنا إلى ربك، الا ترى إلى ما نحن فيه، الا ترى إلى ما قد بلغنا، فيقول آدم: إن ربي قد غضب اليوم غضبا لم يغضب قبله مثله، ولن يغضب بعده مثله، وإنه قد نهاني عن الشجرة، فعصيته نفسي نفسي نفسي اذهبوا إلى غيري، اذهبوا إلى نوح، فياتون نوحا، فيقولون: يا نوح، إنك انت اول الرسل إلى اهل الارض، وقد سماك الله عبدا شكورا، اشفع لنا إلى ربك، الا ترى إلى ما نحن فيه، فيقول: إن ربي عز وجل قد غضب اليوم غضبا لم يغضب قبله مثله، ولن يغضب بعده مثله، وإنه قد كانت لي دعوة دعوتها على قومي نفسي نفسي نفسي، اذهبوا إلى غيري، اذهبوا إلى إبراهيم، فياتون إبراهيم، فيقولون: يا إبراهيم، انت نبي الله وخليله من اهل الارض اشفع لنا إلى ربك، الا ترى إلى ما نحن فيه، فيقول لهم: إن ربي قد غضب اليوم غضبا لم يغضب قبله مثله، ولن يغضب بعده مثله، وإني قد كنت كذبت ثلاث كذبات، فذكرهن ابو حيان في الحديث نفسي نفسي نفسي، اذهبوا إلى غيري، اذهبوا إلى موسى، فياتون موسى، فيقولون: يا موسى، انت رسول الله، فضلك الله برسالته وبكلامه على الناس، اشفع لنا إلى ربك، الا ترى إلى ما نحن فيه، فيقول: إن ربي قد غضب اليوم غضبا لم يغضب قبله مثله، ولن يغضب بعده مثله، وإني قد قتلت نفسا لم اومر بقتلها نفسي نفسي نفسي، اذهبوا إلى غيري، اذهبوا إلى عيسى ابن مريم، فياتون عيسى، فيقولون: يا عيسى، انت رسول الله وكلمته القاها إلى مريم وروح منه، وكلمت الناس في المهد صبيا اشفع لنا إلى ربك الا ترى إلى ما نحن فيه، فيقول عيسى: إن ربي قد غضب اليوم غضبا لم يغضب قبله مثله قط، ولن يغضب بعده مثله، ولم يذكر ذنبا نفسي نفسي نفسي، اذهبوا إلى غيري، اذهبوا إلى محمد، فياتون محمدا، فيقولون: يا محمد، انت رسول الله وخاتم الانبياء، وقد غفر الله لك ما تقدم من ذنبك وما تاخر اشفع لنا إلى ربك، الا ترى إلى ما نحن فيه، فانطلق فآتي تحت العرش، فاقع ساجدا لربي عز وجل، ثم يفتح الله علي من محامده، وحسن الثناء عليه شيئا لم يفتحه على احد قبلي، ثم يقال: يا محمد، ارفع راسك سل تعطه، واشفع تشفع، فارفع راسي، فاقول: امتي يا رب، امتي يا رب، امتي يا رب، فيقال: يا محمد، ادخل من امتك من لا حساب عليهم من الباب الايمن من ابواب الجنة، وهم شركاء الناس فيما سوى ذلك من الابواب، ثم قال: والذي نفسي بيده إن ما بين المصراعين من مصاريع الجنة كما بين مكة وحمير، او كما بين مكة وبصرى".
(قدسي) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِلَحْمٍ، فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ، فَنَهَشَ مِنْهَا نَهْشَةً، ثُمَّ قَالَ:" أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَهَلْ تَدْرُونَ مِمَّ ذَلِكَ؟ يَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ، يُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي، وَيَنْفُذُهُمُ الْبَصَرُ، وَتَدْنُو الشَّمْسُ، فَيَبْلُغُ النَّاسَ مِنَ الْغَمِّ وَالْكَرْبِ مَا لَا يُطِيقُونَ، وَلَا يَحْتَمِلُونَ، فَيَقُولُ النَّاسُ: أَلَا تَرَوْنَ مَا قَدْ بَلَغَكُمْ، أَلَا تَنْظُرُونَ مَنْ يَشْفَعُ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ؟، فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ: عَلَيْكُمْ بِآدَمَ، فَيَأْتُونَ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَام، فَيَقُولُونَ لَهُ: أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ، وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ، وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا قَدْ بَلَغَنَا، فَيَقُولُ آدَمُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ قَدْ نَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ، فَعَصَيْتُهُ نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى نُوحٍ، فَيَأْتُونَ نُوحًا، فَيَقُولُونَ: يَا نُوحُ، إِنَّكَ أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ، وَقَدْ سَمَّاكَ اللَّهُ عَبْدًا شَكُورًا، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، فَيَقُولُ: إِنَّ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ قَدْ كَانَتْ لِي دَعْوَةٌ دَعَوْتُهَا عَلَى قَوْمِي نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ، فَيَقُولُونَ: يَا إِبْرَاهِيمُ، أَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ وَخَلِيلُهُ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، فَيَقُولُ لَهُمْ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنِّي قَدْ كُنْتُ كَذَبْتُ ثَلَاثَ كَذِبَاتٍ، فَذَكَرَهُنَّ أَبُو حَيَّانَ فِي الْحَدِيثِ نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى مُوسَى، فَيَأْتُونَ مُوسَى، فَيَقُولُونَ: يَا مُوسَى، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، فَضَّلَكَ اللَّهُ بِرِسَالَتِهِ وَبِكَلَامِهِ عَلَى النَّاسِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، فَيَقُولُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنِّي قَدْ قَتَلْتُ نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِهَا نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، فَيَأْتُونَ عِيسَى، فَيَقُولُونَ: يَا عِيسَى، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ، وَكَلَّمْتَ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، فَيَقُولُ عِيسَى: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ قَطُّ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ ذَنْبًا نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ، فَيَأْتُونَ مُحَمَّدًا، فَيَقُولُونَ: يَا مُحَمَّدُ، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَخَاتِمُ الْأَنْبِيَاءِ، وَقَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، فَأَنْطَلِقُ فَآتِي تَحْتَ الْعَرْشِ، فَأَقَعُ سَاجِدًا لِرَبِّي عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ مَحَامِدِهِ، وَحُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْهُ عَلَى أَحَدٍ قَبْلِي، ثُمَّ يُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ سَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَقُولُ: أُمَّتِي يَا رَبِّ، أُمَّتِي يَا رَبِّ، أُمَّتِي يَا رَبِّ، فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، أَدْخِلْ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ مِنَ الْبَابِ الْأَيْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، وَهُمْ شُرَكَاءُ النَّاسِ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِنَ الْأَبْوَابِ، ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَحِمْيَرَ، أَوْ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَبُصْرَى".
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو ابوحیان (یحییٰ بن سعید) تیمی نے خبر دی۔ انہیں ابوزرعہ (ہرم) بن عمرو بن جریر نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گوشت لایا گیا اور دست کا حصہ آپ کو پیش کیا گیا۔ تو آپ نے اپنے دانتوں سے اسے ایک بار نوچا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دست کا گوشت بہت پسند تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن میں سب لوگوں کا سردار ہوں گا تمہیں معلوم بھی ہے یہ کون سا دن ہو گا؟ اس دن دنیا کے شروع سے قیامت کے دن تک کی ساری خلقت ایک چٹیل میدان میں جمع ہو گی کہ ایک پکارنے والے کی آواز سب کے کانوں تک پہنچ سکے گی اور ایک نظر سب کو دیکھ سکے گی۔ سورج بالکل قریب ہو جائے گا اور لوگوں کی پریشانی اور بےقراری کی کوئی حد نہ رہے گی جو برداشت سے باہر ہو جائے گی۔ لوگ آپس میں کہیں گے، دیکھتے نہیں کہ ہماری کیا حالت ہو گئی ہے۔ کیا ایسا کوئی مقبول بندہ نہیں ہے جو اللہ پاک کی بارگاہ میں تمہاری شفاعت کرے؟ بعض لوگ بعض سے کہیں گے کہ آدم علیہ السلام کے پاس چلنا چاہئے۔ چنانچہ سب لوگ آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے آپ انسانوں کے پردادا ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی طرف سے خصوصیت کے ساتھ آپ میں روح پھونکی۔ فرشتوں کو حکم دیا اور انہوں نے آپ کو سجدہ کیا اس لیے آپ رب کے حضور میں ہماری شفاعت کر دیں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس حال کو پہنچ چکے ہیں۔ آدم علیہ السلام کہیں گے کہ میرا رب آج انتہائی غضبناک ہے۔ اس سے پہلے اتنا غضبناک وہ کبھی نہیں ہوا تھا اور نہ آج کے بعد کبھی اتنا غضب ناک ہو گا اور رب العزت نے مجھے بھی درخت سے روکا تھا لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی، پس نفسی، نفسی، نفسی مجھ کو اپنی فکر ہے تم کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ چنانچہ سب لوگ نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے نوح! آپ سب سے پہلے پیغمبر ہیں جو اہل زمین کی طرف بھیجے گئے تھے اور آپ کو اللہ نے شکر گزار بندہ (عبد شکور) کا خطاب دیا۔ آپ ہی ہمارے لیے اپنے رب کے حضور میں شفاعت کر دیں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ گئے ہیں۔ نوح علیہ السلام بھی کہیں گے کہ میرا رب آج اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے کبھی اتنا غضبناک نہیں تھا اور نہ آج کے بعد کبھی اتنا غضبناک ہو گا اور مجھے ایک دعا کی قبولیت کا یقین دلایا گیا تھا جو میں نے اپنی قوم کے خلاف کر لی تھی۔ نفسی، نفسی، نفسی آج مجھ کو اپنے ہی نفس کی فکر ہے تم میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ، ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ سب لوگ ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے ابراہیم! آپ اللہ کے نبی اور اللہ کے خلیل ہیں روئے زمین میں منتخب، آپ ہماری شفاعت کیجئے، آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام بھی کہیں گے کہ آج میرا رب بہت غضبناک ہے؟ اتنا غضبناک نہ وہ پہلے ہوا تھا اور نہ آج کے بعد ہو گا اور میں نے تین جھوٹ بولے تھے (راوی) ابوحیان نے اپنی روایت میں تینوں کا ذکر کیا ہے۔ نفسی، نفسی، نفسی مجھ کو اپنے نفس کی فکر ہے۔ میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں موسیٰ علیہ السلام پاس کے جاؤ۔ سب لوگ موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے اے موسیٰ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی طرف سے رسالت اور اپنے کلام کے ذریعہ فضیلت دی۔ آپ ہماری شفاعت اپنے رب کے حضور میں کریں، آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کہیں گے کہ آج اللہ تعالیٰ بہت غضبناک ہے، اتنا غضبناک کہ وہ نہ پہلے کبھی ہوا تھا اور نہ آج کے بعد کبھی ہو گا اور میں نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا، حالانکہ اللہ کی طرف سے مجھے اس کا کوئی حکم نہیں ملا تھا۔ نفسی، نفسی، نفسی بس مجھ کو آج اپنی فکر ہے، میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ سب لوگ عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے۔ اے عیسیٰ! آپ اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جسے اللہ نے مریم علیھا السلام پر ڈالا تھا اور اللہ کی طرف سے روح ہیں، آپ نے بچپن میں ماں کی گود ہی میں لوگوں سے بات کی تھی، ہماری شفاعت کیجئے، آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہماری کیا حالت ہو چکی ہے۔ عیسیٰ بھی کہیں گے کہ میرا رب آج اس درجہ غضبناک ہے کہ نہ اس سے پہلے کبھی اتنا غضبناک ہوا تھا اور نہ کبھی ہو گا اور آپ کسی لغزش کا ذکر نہیں کریں گے (صرف) اتنا کہیں گے، نفسی، نفسی، نفسی میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں، محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جاؤ۔ سب لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ اللہ کے رسول اور سب سے آخری پیغمبر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیئے ہیں، اپنے رب کے دربار میں ہماری شفاعت کیجئے۔ آپ خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آخر میں آگے بڑھوں گا اور عرش تلے پہنچ کر اپنے رب عزوجل کے لیے سجدہ میں گر پڑوں گا، پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی حمد اور حسن ثناء کے دروازے کھول دے گا کہ مجھ سے پہلے کسی کو وہ طریقے اور وہ محامد نہیں بتائے تھے۔ پھر کہا جائے گا، اے محمد! اپنا سر اٹھایئے، مانگئے آپ کو دیا جائے گا۔ شفاعت کیجئے، آپ کی شفاعت قبول ہو جائے گی۔ اب میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا۔ اے میرے رب! میری امت، اے میرے رب! میری امت پر کرم کر، کہا جائے گا اے محمد! اپنی امت کے ان لوگوں کو جن پر کوئی حساب نہیں ہے، جنت کے داہنے دروازے سے داخل کیجئے ویسے انہیں اختیار ہے، جس دروازے سے چاہیں دوسرے لوگوں کے ساتھ داخل ہو سکتے ہیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ جنت کے دروازے کے دونوں کناروں میں اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ اور حمیر میں ہے یا جتنا مکہ اور بصریٰ میں ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: Some (cooked) meat was brought to Allah Apostle and the meat of a forearm was presented to him as he used to like it. He ate a morsel of it and said, "I will be the chief of all the people on the Day of Resurrection. Do you know the reason for it? Allah will gather all the human being of early generations as well as late generation on one plain so that the announcer will be able to make them all-hear his voice and the watcher will be able to see all of them. The sun will come so close to the people that they will suffer such distress and trouble as they will not be able to bear or stand. Then the people will say, 'Don't you see to what state you have reached? Won't you look for someone who can intercede for you with your Lord' Some people will say to some others, 'Go to Adam.' So they will go to Adam and say to him. 'You are the father of mankind; Allah created you with His Own Hand, and breathed into you of His Spirit (meaning the spirit which he created for you); and ordered the angels to prostrate before you; so (please) intercede for us with your Lord. Don't you see in what state we are? Don't you see what condition we have reached?' Adam will say, 'Today my Lord has become angry as He has never become before, nor will ever become thereafter. He forbade me (to eat of the fruit of) the tree, but I disobeyed Him . Myself! Myself! Myself! (I am preoccuied with my own problems). Go to someone else; go to Noah.' So they will go to Noah and say (to him), 'O Noah! You are the first (of Allah's Messengers) to the people of the earth, and Allah has named you a thankful slave; please intercede for us with your Lord. Don't you see in what state we are?' He will say.' Today my Lord has become angry as He has never become nor will ever become thereafter. I had (in the world) the right to make one definitely accepted invocation, and I made it against my nation. Myself! Myself! Myself! Go to someone else; go to Abraham.' They will go to Abraham and say, 'O Abraham! You are Allah's Messenger and His Khalil from among the people of the earth; so please intercede for us with your Lord. Don't you see in what state we are?' He will say to them, 'My Lord has today become angry as He has never become before, nor will ever become thereafter. I had told three lies (Abu Haiyan (the sub-narrator) mentioned them in the Hadith) Myself! Myself! Myself! Go to someone else; go to Moses.' The people will then go to Moses and say, 'O Moses! You art Allah's Messenger and Allah gave you superiority above the others with this message and with His direct Talk to you; (please) intercede for us with your Lord Don't you see in what state we are?' Moses will say, 'My Lord has today become angry as He has never become before, nor will become thereafter, I killed a person whom I had not been ordered to kill. Myself! Myself! Myself! Go to someone else; go to Jesus.' So they will go to Jesus and say, 'O Jesus! You are Allah's Messenger and His Word which He sent to Mary, and a superior soul created by Him, and you talked to the people while still young in the cradle. Please intercede for us with your Lord. Don't you see in what state we are?' Jesus will say. 'My Lord has today become angry as He has never become before nor will ever become thereafter. Jesus will not mention any sin, but will say, 'Myself! Myself! Myself! Go to someone else; go to Muhammad.' So they will come to me and say, 'O Muhammad ! You are Allah's Messenger and the last of the prophets, and Allah forgave your early and late sins. (Please) intercede for us with your Lord. Don't you see in what state we are?" The Prophet added, "Then I will go beneath Allah's Throne and fall in prostration before my Lord. And then Allah will guide me to such praises and glorification to Him as He has never guided anybody else before me. Then it will be said, 'O Muhammad Raise your head. Ask, and it will be granted. Intercede and It (your intercession) will be accepted.' So I will raise my head and Say, 'My followers, O my Lord! My followers, O my Lord'. It will be said, 'O Muhammad! Let those of your followers who have no accounts, enter through such a gate of the gates of Paradise as lies on the right; and they will share the other gates with the people." The Prophet further said, "By Him in Whose Hand my soul is, the distance between every two gate-posts of Paradise is like the distance between Mecca and Busra (in Sham).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 236


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.