كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں |
صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں The Book of Commentary 1. بَابُ: {لاَ تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ} الآيَةَ: باب: آیت کی تفسیر ”اے ایمان والو! نبی کی آواز سے اپنی آوازوں کو اونچا نہ کیا کرو“۔ (1) Chapter. “O you who believe! Raise not your voices above the voice of the Prophet ….” (V.49:2)
«تشعرون» کا معنی جانتے ہو اس سے لفظ «شاعر» نکلا ہے یعنی جاننے والا۔
ہم سے یسرہ بن صفوان بن جمیل لخمی نے بیان کیا، کہا ہم سے نافع بن عمر نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ قریب تھا کہ وہ سب سے بہتر افراد تباہ ہو جائیں یعنی ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما ان دونوں حضرات نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی آواز بلند کر دی تھی۔ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب بنی تمیم کے سوار آئے تھے (اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے درخواست کی کہ ہمارا کوئی امیر بنا دیں) ان میں سے ایک (عمر رضی اللہ عنہ) نے مجاشع کے اقرع بن حابس کے انتخاب کے لیے کہا تھا اور دوسرے (ابوبکر رضی اللہ عنہ) نے ایک دوسرے کا نام پیش کیا تھا۔ نافع نے کہا کہ ان کا نام مجھے یاد نہیں۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ کا ارادہ مجھ سے اختلاف کرنا ہی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرا ارادہ آپ سے اختلاف کرنا نہیں ہے۔ اس پر ان دونوں کی آواز بلند ہو گئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «يا أيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتكم» ”اے ایمان والو! اپنی آواز کو نبی کی آواز سے بلند نہ کیا کرو“ الخ۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اتنی آہستہ آہستہ بات کرتے کہ آپ صاف سن بھی نہ سکتے تھے اور دوبارہ پوچھنا پڑتا تھا۔ انہوں نے اپنے نانا یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق اس سلسلے میں کوئی چیز بیان نہیں کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
Narrated Ibn Abi Mulaika: The two righteous persons were about to be ruined. They were Abu Bakr and `Umar who raised their voices in the presence of the Prophet when a mission from Bani Tamim came to him. One of the two recommended Al-Aqra' bin Habeas, the brother of Bani Mujashi (to be their governor) while the other recommended somebody else. (Nafi`, the sub-narrator said, I do not remember his name). Abu Bakr said to `Umar, "You wanted nothing but to oppose me!" `Umar said, "I did not intend to oppose you." Their voices grew loud in that argument, so Allah revealed: 'O you who believe! Raise not your voices above the voice of the Prophet.' (49.2) Ibn Az-Zubair said, "Since the revelation of this Verse, `Umar used to speak in such a low tone that the Prophet had to ask him to repeat his statements." But Ibn Az-Zubair did not mention the same about his (maternal) grandfather (i.e. Abu Bakr). USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 368 حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ازہر بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن عون نے خبر دی، کہا کہ مجھے موسیٰ بن انس نے خبر دی، اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا۔ ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ کے لیے ان کی خبر لاتا ہوں۔ پھر وہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے یہاں آئے دیکھا کہ وہ گھر میں سر جھکائے بیٹھے ہیں پوچھا کیا حال ہے؟ کہا کہ برا حال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کے مقابلہ میں بلند آواز سے بولا کرتا تھا اب سارے نیک عمل اکارت ہوئے اور اہل دوزخ میں قرار دے دیا گیا ہوں۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے جو کچھ کہا تھا اس کی اطلاع آپ کو دی۔ موسیٰ بن انس نے بیان کیا کہ وہ شخص اب دوبارہ ان کے لیے ایک عظیم بشارت لے کر ان کے پاس آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ان کے پاس جاؤ اور کہو کہ تم اہل دوزخ میں سے نہیں ہو بلکہ تم اہل جنت میں سے ہو۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
Narrated Anas bin Malik: The Prophet missed Thabit bin Qais for a period (So he inquired about him). A man said. "O Allah's Apostle! I will bring you his news." So he went to Thabit and found him sitting in his house and bowing his head. The man said to Thabit, " 'What is the matter with you?" Thabit replied that it was an evil affair, for he used to raise his voice above the voice of the Prophet and so all his good deeds had been annulled, and he considered himself as one of the people of the Fire. Then the man returned to the Prophet and told him that Thabit had said, so-and-so. (Musa bin Anas) said: The man returned to Thabit with great glad tidings. The Prophet said to the man. "Go back to him and say to him: "You are not from the people of the Hell Fire, but from the people of Paradise." USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 369 حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
|
https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com
No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.