كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں |
صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں The Book of Commentary 3. بَابُ: {إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلاً أُولَئِكَ لاَ خَلاَقَ لَهُمْ} لاَ خَيْرَ: باب: آیت کی تفسیر ”بیشک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں کوئی بھلائی نہیں ہے اور ان کو دکھ کا عذاب ہو گا“۔ (3) Chapter. “Verily, those who purchase a small gain at the cost of Allah’s Covenant and their oaths, they shall have no portion in the Hereafter (Paradise)... (till)... and they shall have a painful torment. ” (V.3:77)
«أليم» کے معنی دکھ دینے والا جیسے «مؤلم» ہے۔ «أليم» بروزن «فعيل» بمعنی «مفعل» ہے (جو کلام عرب میں کم آیا ہے۔)
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابووائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے اس لیے قسم کھائی کہ کسی مسلمان کا مال (جھوٹ بول کر وہ) مار لے تو جب وہ اللہ سے ملے گا، اللہ تعالیٰ اس پر نہایت ہی غصہ ہو گا، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کے اس فرمان کی تصدیق میں یہ آیت نازل کی «إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا أولئك لا خلاق لهم في الآخرة» ”بیشک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچتے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔“ آخر آیت تک۔ ابووائل نے بیان کیا کہ اشعث بن قیس کندی رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور پوچھا: ابوعبدالرحمٰن (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) نے آپ لوگوں سے کوئی حدیث بیان کی ہے؟ ہم نے بتایا کہ ہاں، اس اس طرح سے حدیث بیان کی ہے۔ اشعث رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ یہ آیت تو میرے ہی بارے میں نازل ہوئی تھی۔ میرے ایک چچا کے بیٹے کی زمین میں میرا ایک کنواں تھا (ہم دونوں کا اس بارے میں جھگڑا ہوا اور مقدمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوا تو) آپ نے مجھ سے فرمایا کہ تو گواہ پیش کر یا پھر اس کی قسم پر فیصلہ ہو گا۔ میں نے کہا پھر تو یا رسول اللہ وہ (جھوٹی) قسم کھا لے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص جھوٹی قسم اس لیے کھائے کہ اس کے ذریعہ کسی مسلمان کا مال لے اور اس کی نیت بری ہو تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملے گا کہ اللہ اس پر نہایت ہی غضبناک ہو گا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
Narrated Abu Wail: `Abdullah bin Masud said, "Allah's Messenger said, 'Whoever takes an oath when asked to do so, in which he may deprive a Muslim of his property unlawfully, will meet Allah Who will be angry with him.' So Allah revealed in confirmation of this statement:--"Verily! Those who Purchase a small gain at the cost of Allah's Covenant and oaths, they shall have no portion in the Hereafter..." (3.77) Then entered Al-Ash'ath bin Qais and said, "What is Abu `Abdur-Rahman narrating to you?" We replied, 'So-and-so." Al-Ash'ath said, "This Verse was revealed in my connection. I had a well in the land of my cousin (and he denied my, possessing it). On that the Prophet said to me, 'Either you bring forward a proof or he (i.e. your cousin) takes an oath (to confirm his claim)' I said, 'I am sure he would take a (false) oath, O Allah's Messenger .' He said, 'If somebody takes an oath when asked to do so through which he may deprive a Muslim of his property (unlawfully) and he is a liar in his oath, he will meet Allah Who will be angry with him.' " USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 72 حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابووائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے اس لیے قسم کھائی کہ کسی مسلمان کا مال (جھوٹ بول کر وہ) مار لے تو جب وہ اللہ سے ملے گا، اللہ تعالیٰ اس پر نہایت ہی غصہ ہو گا، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کے اس فرمان کی تصدیق میں یہ آیت نازل کی «إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا أولئك لا خلاق لهم في الآخرة» ”بیشک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچتے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔“ آخر آیت تک۔ ابووائل نے بیان کیا کہ اشعث بن قیس کندی رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور پوچھا: ابوعبدالرحمٰن (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) نے آپ لوگوں سے کوئی حدیث بیان کی ہے؟ ہم نے بتایا کہ ہاں، اس اس طرح سے حدیث بیان کی ہے۔ اشعث رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ یہ آیت تو میرے ہی بارے میں نازل ہوئی تھی۔ میرے ایک چچا کے بیٹے کی زمین میں میرا ایک کنواں تھا (ہم دونوں کا اس بارے میں جھگڑا ہوا اور مقدمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوا تو) آپ نے مجھ سے فرمایا کہ تو گواہ پیش کر یا پھر اس کی قسم پر فیصلہ ہو گا۔ میں نے کہا پھر تو یا رسول اللہ وہ (جھوٹی) قسم کھا لے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص جھوٹی قسم اس لیے کھائے کہ اس کے ذریعہ کسی مسلمان کا مال لے اور اس کی نیت بری ہو تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملے گا کہ اللہ اس پر نہایت ہی غضبناک ہو گا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
Narrated Abu Wail: `Abdullah bin Masud said, "Allah's Messenger said, 'Whoever takes an oath when asked to do so, in which he may deprive a Muslim of his property unlawfully, will meet Allah Who will be angry with him.' So Allah revealed in confirmation of this statement:--"Verily! Those who Purchase a small gain at the cost of Allah's Covenant and oaths, they shall have no portion in the Hereafter..." (3.77) Then entered Al-Ash'ath bin Qais and said, "What is Abu `Abdur-Rahman narrating to you?" We replied, 'So-and-so." Al-Ash'ath said, "This Verse was revealed in my connection. I had a well in the land of my cousin (and he denied my, possessing it). On that the Prophet said to me, 'Either you bring forward a proof or he (i.e. your cousin) takes an oath (to confirm his claim)' I said, 'I am sure he would take a (false) oath, O Allah's Messenger .' He said, 'If somebody takes an oath when asked to do so through which he may deprive a Muslim of his property (unlawfully) and he is a liar in his oath, he will meet Allah Who will be angry with him.' " USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 72 حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
ہم سے علی بن ابی ہاشم نے بیان کیا، انہوں نے ہشیم سے سنا، انہوں نے کہا ہم کو عوام بن حوشب نے خبر دی، انہیں ابراہیم بن عبدالرحمٰن نے اور انہیں عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص نے بازار میں سامان بیچتے ہوئے قسم کھائی کہ فلاں شخص اس سامان کا اتنا روپیہ دے رہا تھا، حالانکہ کسی نے اتنی قیمت نہیں لگائی تھی، بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ اس طرح کسی مسلمان کو وہ دھوکا دے کر اسے ٹھگ لے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی «إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا» کہ ”بیشک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچتے ہیں۔“ آخر آیت تک۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
Narrated `Abdullah bin Abu `Aufa: A man displayed some merchandise in the market and took an oath that he had been offered a certain price for it while in fact he had not, in order to cheat a man from the Muslims. So then was revealed:-- "Verily! Those who purchase a small gain at the cost of Allah's Covenant and their oaths..."(3.77) USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 73 حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
ہم سے نصر بن علی بن نصر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن داؤد نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے کہ دو عورتیں کسی گھر یا حجرہ میں بیٹھ کر موزے بنایا کرتی تھیں۔ ان میں سے ایک عورت باہر نکلی اس کے ہاتھ میں موزے سینے کا سوا چبھو دیا گیا تھا۔ اس نے دوسری عورت پر دعویٰ کیا۔ یہ مقدمہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر صرف دعویٰ کی وجہ سے لوگوں کا مطالبہ مان لیا جانے لگے تو بہت سوں کا خون اور مال برباد ہو جائے گا۔ جب گواہ نہیں ہے تو دوسری عورت کو جس پر یہ الزام ہے، اللہ سے ڈراؤ اور اس کے سامنے یہ آیت پڑھو «إن الذين يشترون بعهد الله» چنانچہ جب لوگوں نے اسے اللہ سے ڈرایا تو اس نے اقرار کر لیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، قسم مدعیٰ علیہ پر ہے۔ اگر وہ جھوٹی قسم کھا کر کسی کا مال ہڑپ کرے گا تو اس کو اس وعید کا مصداق قرار دیا جائے گا جو آیت میں بیان کی گئی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
Narrated Ibn Abu Mulaika: Two women were stitching shoes in a house or a room. Then one of them came out with an awl driven into her hand, and she sued the other for it. The case was brought before Ibn `Abbas, Ibn `Abbas said, "Allah's Messenger said, 'If people were to be given what they claim (without proving their claim) the life and property of the nation would be lost.' Will you remind her (i.e. the defendant), of Allah and recite before her:--"Verily! Those who purchase a small gain at the cost of Allah's Covenant and their oaths..."(3.77) So they reminded her and she confessed. Ibn `Abbas then said, "The Prophet said, 'The oath is to be taken by the defendant (in the absence of any proof against him). USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 74 حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
|
https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com
No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.