(مرفوع) حدثنا هناد بن السري، حدثنا عبد الرحمن بن ابي الزناد، عن عبد الرحمن بن الحارث بن عياش بن ابي ربيعة، عن حكيم بن حكيم وهو ابن عباد بن حنيف , اخبرني نافع بن جبير بن مطعم، قال: اخبرني ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " امني جبريل عليه السلام عند البيت مرتين، فصلى الظهر في الاولى منهما حين كان الفيء مثل الشراك، ثم صلى العصر حين كان كل شيء مثل ظله، ثم صلى المغرب حين وجبت الشمس وافطر الصائم، ثم صلى العشاء حين غاب الشفق، ثم صلى الفجر حين برق الفجر، وحرم الطعام على الصائم، وصلى المرة الثانية الظهر حين كان ظل كل شيء مثله لوقت العصر بالامس، ثم صلى العصر حين كان ظل كل شيء مثليه، ثم صلى المغرب لوقته الاول، ثم صلى العشاء الآخرة حين ذهب ثلث الليل، ثم صلى الصبح حين اسفرت الارض، ثم التفت إلي جبريل، فقال: يا محمد هذا وقت الانبياء من قبلك والوقت فيما بين هذين الوقتين ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابي هريرة , وبريدة , وابي موسى , وابي مسعود الانصاري , وابي سعيد , وجابر , وعمرو بن حزم , والبراء , وانس.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حَكِيمٍ وَهُوَ ابْنُ عَبَّادِ بْنِ حُنَيْفٍ , أَخْبَرَنِي نَافِعُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَمَّنِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام عِنْدَ الْبَيْتِ مَرَّتَيْنِ، فَصَلَّى الظُّهْرَ فِي الْأُولَى مِنْهُمَا حِينَ كَانَ الْفَيْءُ مِثْلَ الشِّرَاكِ، ثُمَّ صَلَّى الْعَصْرَ حِينَ كَانَ كُلُّ شَيْءٍ مِثْلَ ظِلِّهِ، ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ حِينَ وَجَبَتِ الشَّمْسُ وَأَفْطَرَ الصَّائِمُ، ثُمَّ صَلَّى الْعِشَاءَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ، ثُمَّ صَلَّى الْفَجْرَ حِينَ بَرَقَ الْفَجْرُ، وَحَرُمَ الطَّعَامُ عَلَى الصَّائِمِ، وَصَلَّى الْمَرَّةَ الثَّانِيَةَ الظُّهْرَ حِينَ كَانَ ظِلُّ كُلِّ شَيْءٍ مِثْلَهُ لِوَقْتِ الْعَصْرِ بِالْأَمْسِ، ثُمَّ صَلَّى الْعَصْرَ حِينَ كَانَ ظِلُّ كُلِّ شَيْءٍ مِثْلَيْهِ، ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ لِوَقْتِهِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ صَلَّى الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ حِينَ ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ، ثُمَّ صَلَّى الصُّبْحَ حِينَ أَسْفَرَتِ الْأَرْضُ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ جِبْرِيلُ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ هَذَا وَقْتُ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِكَ وَالْوَقْتُ فِيمَا بَيْنَ هَذَيْنِ الْوَقْتَيْنِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , وَبُرَيْدَةَ , وَأَبِي مُوسَى , وَأَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ , وَأَبِي سَعِيدٍ , وَجَابِرٍ , وَعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ , وَالْبَرَاءِ , وَأَنَسٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جبرائیل علیہ السلام نے خانہ کعبہ کے پاس میری دو بار امامت کی، پہلی بار انہوں نے ظہر اس وقت پڑھی (جب سورج ڈھل گیا اور) سایہ جوتے کے تسمہ کے برابر ہو گیا، پھر عصر اس وقت پڑھی جب ہر چیز کا سایہ اس کے ایک مثل ہو گیا ۱؎، پھر مغرب اس وقت پڑھی جب سورج ڈوب گیا اور روزے دار نے افطار کر لیا، پھر عشاء اس وقت پڑھی جب شفق ۲؎ غائب ہو گئی، پھر نماز فجر اس وقت پڑھی جب فجر روشن ہو گئی اور روزہ دار پر کھانا پینا حرام ہو گیا، دوسری بار ظہر کل کی عصر کے وقت پڑھی جب ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ہو گیا، پھر عصر اس وقت پڑھی جب ہر چیز کا سایہ اس کے دو مثل ہو گیا، پھر مغرب اس کے اول وقت ہی میں پڑھی (جیسے پہلی بار میں پڑھی تھی) پھر عشاء اس وقت پڑھی جب ایک تہائی رات گزر گئی، پھر فجر اس وقت پڑھی جب اجالا ہو گیا، پھر جبرائیل نے میری طرف متوجہ ہو کر کہا: اے محمد! یہی آپ سے پہلے کے انبیاء کے اوقات نماز تھے، آپ کی نمازوں کے اوقات بھی انہی دونوں وقتوں کے درمیان ہیں ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس باب میں ابوہریرہ، بریدہ، ابوموسیٰ، ابومسعود انصاری، ابوسعید، جابر، عمرو بن حرم، براء اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 2 (393)، (تحفة الأشراف: 6519)، مسند احمد (1/333، 354) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ظہر کا وقت ایک مثل تک رہتا ہے اس کے بعد عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے جمہور کا یہی مسلک ہے اور عصر کے وقت سے متعلق امام ابوحنیفہ کا مشہور قول دو مثل کا ہے لیکن یہ کسی صحیح مرفوع حدیث سے ثابت نہیں۔ بلکہ بعض علمائے احناف نے صحیح احادیث میں ان کے اس قول کو رد کر دیا ہے (تفصیل کے لیے دیکھئیے: التعلیق الممجد علی موطا الإمام محمد، ص: ۴۱، ط/قدیمی کتب خانہ کراچی)۔
۲؎: اس سے مراد وہ سرخی ہے جو سورج ڈوب جانے کے بعد مغرب (پچھم) میں باقی رہتی ہے۔
۳؎: پہلے دن جبرائیل علیہ السلام نے ساری نمازیں اول وقت میں پڑھائیں اور دوسرے دن آخری وقت میں تاکہ ہر نماز کا اول اور آخر وقت معلوم ہو جائے۔
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، المشكاة (583)، الإرواء (249)، صحيح أبي داود (416)
(مرفوع) اخبرني احمد بن محمد بن موسى، اخبرنا عبد الله بن المبارك، اخبرنا حسين بن علي بن حسين، اخبرني وهب بن كيسان، عن جابر بن عبد الله، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " امني جبريل " فذكر نحو حديث ابن عباس بمعناه، ولم يذكر فيه لوقت العصر بالامس. قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح غريب، وحديث ابن عباس حسن صحيح، وقال محمد: اصح شيء في المواقيت حديث جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال: وحديث جابر في المواقيت قد رواه عطاء بن ابي رباح , وعمرو بن دينار , وابو الزبير، عن جابر بن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو حديث وهب بن كيسان، عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، أَخْبَرَنِي وَهْبُ بْنُ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَمَّنِي جِبْرِيلُ " فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ بِمَعْنَاهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ لِوَقْتِ الْعَصْرِ بِالْأَمْسِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وقَالَ مُحَمَّدٌ: أَصَحُّ شَيْءٍ فِي الْمَوَاقِيتِ حَدِيثُ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: وَحَدِيثُ جَابِرٍ فِي الْمَوَاقِيتِ قَدْ رَوَاهُ عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ , وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ , وَأَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ حَدِيثِ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جبرائیل نے میری امامت کی“، پھر انہوں نے ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث کی طرح اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔ البتہ انہوں نے اس میں «لوقت العصر بالأمس» کا ٹکڑا ذکر نہیں کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ۱؎، اور ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: اوقات نماز کے سلسلے میں سب سے صحیح جابر رضی الله عنہ والی حدیث ہے جسے انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/مواقیت الصلاة 17 (527)، (تحفة الأشراف: 3128)، مسند احمد (3/330، 331) (وذکرہ أبو داود تحت حدیث رقم: 394 تعلیقاً ومقتصرا علی وقت المغرب فقط) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: امام ترمذی یہ اصطلاح (حسن صحیح غریب) اس وقت استعمال کرتے ہیں جب کوئی حدیث کسی صحابی کی روایت سے معروف ہو اور اس کے مختلف طرق ہوں، یا ایک ہی طریق ہو پھر اسی صحابی سے کسی اور طریق سے روایت آئے اور اسے غریب جانا جائے، مطلب یہ ہے کہ لفظی طور پر غریب ہے اسنادی طور پر حسن صحیح ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (250)، صحيح أبي داود (418)