(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا المغيرة بن عبد الرحمن، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا ام احدكم الناس فليخفف فإن فيهم الصغير والكبير والضعيف والمريض، فإذا صلى وحده فليصل كيف شاء "قال ابو عيسى: وفي الباب عن عدي بن حاتم، وانس، وجابر بن سمرة، ومالك بن عبد الله، وابي واقد، وعثمان بن ابي العاص، وابي مسعود، وجابر بن عبد الله، وابن عباس، قال ابو عيسى: وحديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، وهو قول اكثر اهل العلم اختاروا ان لا يطيل الإمام الصلاة مخافة المشقة على الضعيف والكبير والمريض. قال ابو عيسى: وابو الزناد اسمه عبد الله بن ذكوان، والاعرج هو عبد الرحمن بن هرمز المديني ويكنى ابا داود.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا أَمَّ أَحَدُكُمُ النَّاسَ فَلْيُخَفِّفْ فَإِنَّ فِيهِمُ الصَّغِيرَ وَالْكَبِيرَ وَالضَّعِيفَ وَالْمَرِيضَ، فَإِذَا صَلَّى وَحْدَهُ فَلْيُصَلِّ كَيْفَ شَاءَ "قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، وَأَنَسٍ، وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، وَمَالِكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَبِي وَاقِدٍ، وَعُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ، وَأَبِي مَسْعُودٍ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ اخْتَارُوا أَنْ لَا يُطِيلَ الْإِمَامُ الصَّلَاةَ مَخَافَةَ الْمَشَقَّةِ عَلَى الضَّعِيفِ وَالْكَبِيرِ وَالْمَرِيضِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبُو الزِّنَادِ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ذَكْوَانَ، وَالْأَعْرَجُ هُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ هُرْمُزَ الْمَدِينِيُّ وَيُكْنَى أَبَا دَاوُدَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی لوگوں کی امامت کرے تو چاہیئے کہ ہلکی نماز پڑھائے، کیونکہ ان میں چھوٹے، بڑے، کمزور اور بیمار سبھی ہوتے ہیں اور جب وہ تنہا نماز پڑھے تو جیسے چاہے پڑھے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عدی بن حاتم، انس، جابر بن سمرہ، مالک بن عبداللہ، ابوواقد، عثمان، ابومسعود، جابر بن عبداللہ اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- یہی اکثر اہل علم کا قول ہے، ان لوگوں نے اسی کو پسند کیا کہ امام نماز لمبی نہ پڑھائے تاکہ کمزور، بوڑھے اور بیمار لوگوں کو پریشانی نہ ہو۔
وضاحت: ۱؎: ہلکی نماز پڑھائے کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ارکان کی ادائیگی میں اطمینان و سکون اور خشوع و خضوع اور اعتدال نہ ہو، تعدیل ارکان فرض ہے، نیز اگلی حدیث سے واضح ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہلکی نماز پڑھاتے تھے تب بھی کامل نماز پڑھاتے حتیٰ کہ مغرب میں بھی سورۃ الطور یا سورۃ المرسلات پڑھتے تھے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابو عوانة، عن قتادة، عن انس بن مالك، قال: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم من اخف الناس صلاة في تمام ". قال ابو عيسى: وهذا حديث حسن صحيح، واسم ابي عوانة وضاح،. قال ابو عيسى: سالت قتيبة قلت: ابو عوانة ما اسمه؟ قال وضاح: قلت ابن من؟ قال: لا ادري كان عبدا لامراة بالبصرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَخَفِّ النَّاسِ صَلَاةً فِي تَمَامٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَاسْمُ أَبِي عَوَانَةَ وَضَّاحٌ،. قَالَ أَبُو عِيسَى: سَأَلْتُ قُتَيْبَةَ قُلْتُ: أَبُو عَوَانَةَ مَا اسْمُهُ؟ قَالَ وَضَّاحٌ: قُلْتُ ابْنُ مَنْ؟ قَالَ: لَا أَدْرِي كَانَ عَبْدًا لِامْرَأَةٍ بِالْبَصْرَةِ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ ہلکی اور سب زیادہ مکمل نماز پڑھنے والے تھے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: ”سب سے ہلکی نماز ہوتی تھی“ سے مراد یہ ہے کہ آپ لمبی قرأت نہیں کرتے تھے، اسی طرح لمبی دعاؤں سے بھی بچتے تھے، اور سب سے زیادہ مکمل نماز کا مطلب یہ ہے کہ آپ نماز کے جملہ ارکان و سنن اور مستحبات کو بحسن خوبی اطمینان سے ادا کرتے تھے۔