كتاب الصلاة کتاب: نماز کے احکام و مسائل 68. باب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْجَهْرِ بِـ (بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ) باب: بسم اللہ الرحمن الرحیم زور سے نہ پڑھنے کا بیان۔
عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہ کے بیٹے کہتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے نماز میں «بسم اللہ الرحمن الرحیم» کہتے سنا تو انہوں نے مجھ سے کہا: بیٹے! یہ بدعت ہے، اور بدعت سے بچو۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی کو نہیں دیکھا جو ان سے زیادہ اسلام میں بدعت کا مخالف ہو، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ، ابوبکر کے ساتھ، عمر کے ساتھ اور عثمان رضی الله عنہم کے ساتھ نماز پڑھی ہے لیکن میں نے ان میں سے کسی کو اسے (اونچی آواز سے) کہتے نہیں سنا، تو تم بھی اسے نہ کہو ۱؎، جب تم نماز پڑھو تو قرأت «الحمد لله رب العالمين» سے شروع کرو۔
۱- عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- صحابہ جن میں ابوبکر، عمر، عثمان، علی رضی اللہ عنہم وغیرہ شامل ہیں اور ان کے بعد کے تابعین میں سے اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے، اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، یہ لوگ «بسم اللہ الرحمن الرحیم» زور سے کہنے کو درست نہیں سمجھتے (بلکہ) ان کا کہنا ہے کہ آدمی اسے اپنے دل میں کہے ۲؎۔ تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الإفتتاح 22 (909)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 4 (815)، (تحفة الأشراف: 9967)، مسند احمد (4/58)، و (5/54، 55) (ضعیف) (بعض ائمہ نے ”ابن عبداللہ بن مغفل“ کو مجہول قرار دے کر اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے، جبکہ حافظ مزی نے ان کا نام ”یزید“ بتایا ہے، اور حافظ ابن حجر نے ان کو ”صدوق“ قرار دیا ہے)»
وضاحت: ۱؎: ”تم بھی اسے نہ کہو“ سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے سرے سے «بسم اللہ» پڑھنے ہی سے منع کیا ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ اسے جہر (بلند آواز) سے پڑھنے سے روکنے پر محمول کیا جائے، اس لیے کہ اس سے پہلے جو یہ جملہ ہے کہ ”ان میں سے کسی کو میں نے اسے کہتے نہیں سنا“، اس جملے کا تعلق بلند آواز سے ہے کیونکہ وہی چیز سنی جاتی ہے جو جہر (زور) سے کہی جائے، مصنف کا ترجمۃ الباب میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (815) // ضعيف سنن ابن ماجة (174) //
|