كتاب الصلاة کتاب: نماز کے احکام و مسائل 62. باب مَا جَاءَ مَنْ أَحَقُّ بِالإِمَامَةِ باب: امامت کا زیادہ حقدار کون ہے؟
ابومسعود انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کی امامت وہ کرے جو اللہ کی کتاب (قرآن) کا سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہو، اگر لوگ قرآن کے علم میں برابر ہوں تو جو سب سے زیادہ سنت کا جاننے والا ہو وہ امامت کرے، اور اگر وہ سنت کے علم میں بھی برابر ہوں تو جس نے سب سے پہلے ہجرت کی ہو وہ امامت کرے، اگر وہ ہجرت میں بھی برابر ہوں تو جو عمر میں سب سے بڑا ہو وہ امامت کرے، آدمی کے دائرہ اقتدار میں اس کی امامت نہ کی جائے اور نہ کسی آدمی کے گھر میں اس کی مخصوص جگہ پر اس کی اجازت کے بغیر بیٹھا جائے“۔
۱- ابومسعود رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوسعید، انس بن مالک، مالک بن حویرث اور عمرو بن سلمہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان کا کہنا ہے کہ لوگوں میں امامت کا حقدار وہ ہے جو اللہ کی کتاب (قرآن) اور سنت کا سب سے زیادہ علم رکھتا ہو۔ نیز وہ کہتے ہیں کہ گھر کا مالک خود امامت کا زیادہ مستحق ہے، اور بعض نے کہا ہے: جب گھر کا مالک کسی دوسرے کو اجازت دیدے تو اس کے نماز پڑھانے میں کوئی حرج نہیں، لیکن بعض لوگوں نے اسے بھی مکروہ جانا ہے، وہ کہتے ہیں کہ سنت یہی ہے کہ گھر کا مالک خود پڑھائے ۱؎، ۴- احمد بن حنبل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ”آدمی کے دائرہ اقتدار میں اس کی امامت نہ کی جائے اور نہ اس کے گھر میں اس کی مخصوص نشست پر اس کی اجازت کے بغیر بیٹھا جائے“ کے بارے میں کہتے ہیں کہ جب وہ اجازت دیدے تو میں امید رکھتا ہوں کہ یہ اجازت مسند پر بیٹھنے اور امامت کرنے دونوں سے متعلق ہو گی، انہوں نے اس کے نماز پڑھانے میں کوئی حرج نہیں جانا کہ جب وہ اجازت دیدے۔ تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 53 (673)، سنن ابی داود/ الصلاة 61 (582)، سنن النسائی/الإمامة 3 (781)، و6 (784)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 46 (980)، (تحفة الأشراف: 9976)، مسند احمد (4/118، 121، 122)، ویأتي في الأدب 24 (برقم: 2772) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ان لوگوں کی دلیل مالک بن حویرث رضی الله عنہ کی روایت «من زار قوما فلا يؤمهم وليؤمهم رجل منهم» ہے «إلا بإذنه» کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ اس کا تعلق صرف «لايجلس على تكرمته» سے ہے «لايؤم الرجل في سلطانه» سے نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (980)
|