سنن ترمذي
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
1. باب مَا جَاءَ فِي مَوَاقِيتِ الصَّلاَةِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے منقول اوقات نماز کا بیان۔
حدیث نمبر: 150
أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، أَخْبَرَنِي وَهْبُ بْنُ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَمَّنِي جِبْرِيلُ " فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ بِمَعْنَاهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ لِوَقْتِ الْعَصْرِ بِالْأَمْسِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وقَالَ مُحَمَّدٌ: أَصَحُّ شَيْءٍ فِي الْمَوَاقِيتِ حَدِيثُ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: وَحَدِيثُ جَابِرٍ فِي الْمَوَاقِيتِ قَدْ رَوَاهُ عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ , وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ , وَأَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ حَدِيثِ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”جبرائیل نے میری امامت کی
“، پھر انہوں نے ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث کی طرح اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔ البتہ انہوں نے اس میں
«لوقت العصر بالأمس» کا ٹکڑا ذکر نہیں کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے
۱؎، اور ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: اوقات نماز کے سلسلے میں سب سے صحیح جابر رضی الله عنہ والی حدیث ہے جسے انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/مواقیت الصلاة 17 (527)، (تحفة الأشراف: 3128)، مسند احمد (3/330، 331) (وذکرہ أبو داود تحت حدیث رقم: 394 تعلیقاً ومقتصرا علی وقت المغرب فقط) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: امام ترمذی یہ اصطلاح (حسن صحیح غریب) اس وقت استعمال کرتے ہیں جب کوئی حدیث کسی صحابی کی روایت سے معروف ہو اور اس کے مختلف طرق ہوں، یا ایک ہی طریق ہو پھر اسی صحابی سے کسی اور طریق سے روایت آئے اور اسے غریب جانا جائے، مطلب یہ ہے کہ لفظی طور پر غریب ہے اسنادی طور پر حسن صحیح ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (250) ، صحيح أبي داود (418)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 150 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 150
اردو حاشہ:
1؎:
امام ترمذی یہ اصطلاح (حسن صحیح غریب) اس وقت استعمال کرتے ہیں جب کوئی حدیث کسی صحابی کی روایت سے معروف ہو اور اس کے مختلف طرق ہوں،
یا ایک ہی طریق ہو پھر اسی صحابی سے کسی اور طریق سے روایت آئے اور اسے غریب جانا جائے،
مطلب یہ ہے کہ لفظی طور پر غریب ہے اسنادی طور پر حسن صحیح ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 150