كتاب الصلاة کتاب: نماز کے احکام و مسائل 118. باب مَا جَاءَ فِي الْقِرَاءَةِ فِي الْمَغْرِبِ باب: مغرب کی قرأت کا بیان۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے: ان کی ماں ام الفضل رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ہماری طرف اس حال میں نکلے کہ آپ بیماری میں اپنے سر پر پٹی باندھے ہوئے تھے، مغرب پڑھائی تو سورۂ ”مرسلات“ پڑھی، پھر اس کے بعد آپ نے یہ سورت نہیں پڑھی یہاں تک کہ آپ اللہ سے جا ملے ۱؎۔
۱- ام الفضل کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں جبیر بن مطعم، ابن عمر، ابوایوب اور زید بن ثابت رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے مغرب میں دونوں رکعتوں میں سورۃ الاعراف پڑھی، اور آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے مغرب میں سورۃ الطور پڑھی، ۵- عمر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ابوموسیٰ رضی الله عنہ کو لکھا کہ تم مغرب میں «قصار مفصل» پڑھا کرو، ۶- اور ابوبکر صدیق رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ وہ مغرب میں «قصار مفصل» پڑھتے تھے، ۷- اہل علم کا عمل اسی پر ہے۔ ابن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں، ۸- امام شافعی کہتے ہیں کہ امام مالک کے سلسلہ میں ذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے مغرب میں طور اور مرسلات جیسی لمبی سورتیں پڑھنے کو مکروہ جانا ہے۔ شافعی کہتے ہیں: لیکن میں مکروہ نہیں سمجھتا، بلکہ مغرب میں ان سورتوں کے پڑھے جانے کو مستحب سمجھتا ہوں۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 98 (763)، والمغازی 83 (4429)، صحیح مسلم/الصلاة 35 (462)، سنن ابی داود/ الصلاة 132 (810)، سنن النسائی/الافتتاح 64 (986)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 9 (831)، (تحفة الأشراف: 18052)، مسند احمد (6/338، 340)، سنن الدارمی/الصلاة 64 (1331) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: صحیح بخاری میں ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے مروی ہے «إن آخر صلاة صلاّها النبي صلى الله عليه وسلم في مرض موته الظهر» بظاہر ان دونوں روایتوں میں تعارض ہے، تطبیق اس طرح سے دی جاتی ہے کہ جو نماز آپ نے مسجد میں پڑھی اس میں سب سے آخری نماز ظہر کی تھی، اور آپ نے جو نمازیں گھر میں پڑھیں ان میں آخری نماز مغرب تھی، لیکن اس توجیہ پر ایک اعتراض وارد ہوتا ہے کہ ام الفضل کی روایت میں ہے «خرج إلينا رسول الله وهو عاصب رأسه» ”رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ہماری طرف نکلے آپ سر پر پٹی باندھے ہوئے تھے“ جس سے لگتا ہے کہ یہ نماز بھی آپ نے مسجد میں پڑھی تھی، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ یہاں نکلنے سے مراد مسجد میں جانا نہیں ہے بلکہ جس جگہ آپ سوئے ہوئے تھے وہاں سے اٹھ کر گھر والوں کے پاس آنا مراد ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (831)
|