امام مالک نے ابن شہاب زہری سے روایت کی کہ ایک دن عمر بن عبدالعزیز نے نماز میں تاخیر کر دی تو عروہ بن زبیر ان کے پاس آئے اور انھیں بتایا کہ مغیر ہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ایک دن نماز دیر سے پڑھی اس وقت وہ کوفہ میں تھے ابو مسعود انصاری رحمۃ اللہ علیہ ان کے پاس آئے اور کہا: مغیرہ!یہ کیا ہے؟ کیا آپ کو پتہ نہیں کہ جبریل رضی اللہ عنہ اترے تھے، انھوں نے نماز پڑھائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کے ساتھ) نماز پڑھی، پھر انھوں نے نماز پڑھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، پھر انوں نے نماز پڑھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کے ساتھ) نماز پڑھی، پھر انھوں نے نماز پڑھی تو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کے ساتھ) نماز پڑھی، پھر (جبریل رضی اللہ عنہ نے) کہا: مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے۔ تو عمر نے عروہ سے کہا: عروہ! دیکھ لو، کیا کہہ رہے ہو؟ کیا جبریل رضی اللہ عنہ نے خود (آکر) رسول) اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے (ہر) نماز کا وقت متعین کیا تھا؟ تو عروہ نے کہا بشر بن ابی مسعود اپنے والد سے ایسے ہی بیان کرتے تھے۔
امام ابن شہاب رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن عمر بن عبدالعزیز نے نماز مؤخر کر دی (دیر سے پڑھی) تو ان کے پاس عروہ بن زبیر حاضر ہوئے اور انہیں بتایا، مغیرہ بن شعبہ نے ایک دن کوفہ میں نماز دیر سے پڑھی تو ان کے پاس ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے اور پوچھا یہ کیا کیا؟ اے مغیرہ! کیا تمہیں علم نہیں ہے جبریل اترے اور نماز پڑھائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز (اس کے ساتھ) پڑھی، پھر اس نے نماز پڑھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی پھر اس نے نماز پڑھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، پھر اس نے نماز پڑھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، پھر اس نے نماز پڑھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، پھر جبریل نے کہا، آپ کو اس کا حکم دیا گیا ہے۔ تو عمر نے عروہ سے کہا اے عروہ! سوچو کیا بیان کر رہے ہو، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے اوقات جبریل ؑ نے سکھائے تھے؟ تو عروہ نے کہا بشیر بن ابی مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باپ سے ایسے ہی بیان کرتے تھے۔