حدثنا عاصم بن النضر التيمي ، حدثنا المعتمر ، حدثنا عبيد الله . ح، قال: وحدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث ، عن ابن عجلان كلاهما، عن سمي ، عن ابي صالح ، عن ابي هريرة ، وهذا حديث قتيبة، ان فقراء المهاجرين، اتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: ذهب اهل الدثور بالدرجات العلى، والنعيم المقيم، فقال: وما ذاك؟ قالوا: يصلون كما نصلي، ويصومون كما نصوم، ويتصدقون ولا نتصدق، ويعتقون ولا نعتق، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: افلا اعلمكم شيئا تدركون به من سبقكم، وتسبقون به من بعدكم، ولا يكون احد افضل منكم، إلا من صنع مثل ما صنعتم؟ " قالوا: بلى يا رسول الله. قال: " تسبحون، وتكبرون، وتحمدون، دبر كل صلاة، ثلاثا وثلاثين مرة "، قال ابو صالح: فرجع فقراء المهاجرين، إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: سمع إخواننا اهل الاموال بما فعلنا، ففعلوا مثله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ذلك فضل الله، يؤته من يشاء، وزاد غير قتيبة في هذا الحديث، عن الليث، عن ابن عجلان، قال: سمي، فحدثت بعض اهلي هذا الحديث، فقال: وهمت، إنما قال: " تسبح الله ثلاثا وثلاثين، وتحمد الله ثلاثا وثلاثين، وتكبر الله ثلاثا وثلاثين "، فرجعت إلى ابي صالح، فقلت له ذلك، فاخذ بيدي، فقال: الله اكبر، وسبحان الله، والحمد لله، الله اكبر، وسبحان الله، والحمد لله، حتى تبلغ من جميعهن ثلاثة وثلاثين، قال ابن عجلان : فحدثت بهذا الحديث، رجاء بن حيوة ، فحدثني بمثله، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ النَّضْرِ التَّيْمِيُّ ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ . ح، قَالَ: وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ كِلَاهُمَا، عَنْ سُمَيٍّ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، وَهَذَا حَدِيثُ قُتَيْبَةَ، أَنَّ فُقَرَاءَ الْمُهَاجِرِينَ، أَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: ذَهَبَ أَهْلُ الدُّثُورِ بِالدَّرَجَاتِ الْعُلَى، وَالنَّعِيمِ الْمُقِيمِ، فَقَالَ: وَمَا ذَاكَ؟ قَالُوا: يُصَلُّونَ كَمَا نُصَلِّي، وَيَصُومُونَ كَمَا نَصُومُ، وَيَتَصَدَّقُونَ وَلَا نَتَصَدَّقُ، وَيُعْتِقُونَ وَلَا نُعْتِقُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَفَلَا أُعَلِّمُكُمْ شَيْئًا تُدْرِكُونَ بِهِ مَنْ سَبَقَكُمْ، وَتَسْبِقُونَ بِهِ مَنْ بَعْدَكُمْ، وَلَا يَكُونُ أَحَدٌ أَفْضَلَ مِنْكُمْ، إِلَّا مَنْ صَنَعَ مِثْلَ مَا صَنَعْتُمْ؟ " قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ: " تُسَبِّحُونَ، وَتُكَبِّرُونَ، وَتَحْمَدُونَ، دُبُرَ كُلِّ صَلَاةٍ، ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ مَرَّةً "، قَالَ أَبُو صَالِحٍ: فَرَجَعَ فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِينَ، إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: سَمِعَ إِخْوَانُنَا أَهْلُ الأَمْوَالِ بِمَا فَعَلْنَا، فَفَعَلُوا مِثْلَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ، يُؤْتِهِ مَنْ يَشَاءُ، وَزَادَ غَيْرُ قُتَيْبَةَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، عَنِ اللَّيْثِ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، قَالَ: سُمَيٌّ، فَحَدَّثْتُ بَعْضَ أَهْلِي هَذَا الْحَدِيثَ، فَقَالَ: وَهِمْتَ، إِنَّمَا قَالَ: " تُسَبِّحُ اللَّهَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَتَحْمَدُ اللَّهَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَتُكَبِّرُ اللَّهَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ "، فَرَجَعْتُ إِلَى أَبِي صَالِحٍ، فَقُلْتُ لَهُ ذَلِكَ، فَأَخَذَ بِيَدِي، فَقَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، حَتَّى تَبْلُغَ مِنْ جَمِيعِهِنَّ ثَلَاثَةً وَثَلَاثِينَ، قَالَ ابْنُ عَجْلَانَ : فَحَدَّثْتُ بِهَذَا الْحَدِيثِ، رَجَاءَ بْنَ حَيْوَةَ ، فَحَدَّثَنِي بِمِثْلِهِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عاصم بن نضر تیمی نے کہا: ہمین معتمر نے حدیث سنائی، کہا: ہمین عبیداللہ نے حدیث سنائی نیز (ایک اور سند سے) قتیبہ بن سعید نے کہا: ہمیں لیث نے ابن عجلان سے حدیث سنائی، ان دونوں (عبیداللہ اور ابن عجلان) نے سًمَیّ سے، انھوں نے ابو صالح سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔۔یہ قتیبہ کی روایت کردہ حدیث ہے۔ کہ کچھ تنگدست مہاجر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گزارش کی: بلند درجے اور دائمی نعمت تو زیادہ مال والے لوگ لے گئے! آپ نے پوچھا: ” وہ کیسے؟“ انھوں نے کہا: وہ اسی طرح نمازیں پڑھتے ہیں جس طرح ہم پڑھتے ہیں، وہ اسی طرح روزے رکھتے ہیں جیسے ہم رکھتے ہیں اور وہ صدقہ کرتے ہیں جبکہ ہم صدقہ نہیں کر سکتے، وہ (بندھے ہوؤں اور غلاموں کو) آزاد کرتے ہیں جبکہ ہم آزاد نہیں کر سکتے تو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تو کیا پھر میں تمھیں اسی چیز نہ سکھاؤں جس سے تم ان لوگوں کو پالو گے جو تم سے سبقت لے گے ہیں اور اس کے ذریعے سے ان سے بھی سبقت لے جاؤ گے جو تم سے بعد (آنے والے) ہیں؟ اور تم سے وہی افضل ہو گا جو تمھاری طرح عمل کرے گا۔“ انھوں نے کہا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول! (ضرور بتائیں۔) آپ نے فرمایا: ”تم ہر نماز کے بعد تینتیس مرتبہ تسبیح: تکبیر اور تحمید (سبحان اللہ: اللہ اکبر، اور الحمد اللہ) کا ورد کیا کرو“ ابو صالح نےکہا: فقرائے مہاجرین دوبارہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے: ہمارے مالدار بھائیوں نے بھی جو ہم کرتے ہیں اس کے بارے میں سن لیا ہے اور اسی طرح عمل کرنا شروع کر دیا ہے (وہ بھی تسبیح، تکبیر اور تحمید کرنے لگے ہیں۔) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عنایت فرمادے۔“ قتیبہ کے علاوہ لیث سے ابن عجلان کے حوالے سے دیگر روایت کرنے والوں نے یہ اضافہ کیا کہ سمی نے کہا: میں نے یہ حدیث اپنے گھر کے ایک فرد کو سنائی تو انھوں نے کہا: تمھیں وہم ہوا ہے، انھوں (ابو صالح) نے تو کہا تھا: ”تینتیس مرتبہ سبحان اللہ کہو، تینتیس بار الحمد اللہ کہو اور تینتیس بار اللہ اکبر کہو۔“ میں دوبارہ ابو صالح کی خدمت میں حاضر ہوا اور انھیں یہ بتا یا تو انھوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا: اللہ اکبر، سبحان اللہ اور الحمد اللہ، اللہ اکبر، سبحان اللہ اور الحمد اللہ (اس طرح کہو) کہ سب کی تعداد تینتیس ہو جائے۔ ابن عجلان نے کہا: میں نے یہ حدیث رجاء بن حیوہ کو سنائی تو انھوں نے مجھے ابو صالح کے واسطے سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (روایت کرتے ہوئے) اسی کی مانند حدیث سنائی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ تنگدست مہاجرین، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گزارش کہ مالدار بلند درجات اور سدا بہار نعمتیں لے گئے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کیسے؟ انہوں نے کہا، وہ ہماری طرح نماز پڑھتے ہیں، وہ روزے رکھتے ہیں، جیسے ہم روزے رکھتے ہیں اور وہ صدقہ کرتے ہیں، ہم صدقہ نہیں کرسکتے، وہ آزادی دیتے ہیں، ہم آزاد نہیں کر سکتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ سکھاؤں جس سے تم اپنے سے سبقت لے جانے والوں کو پہنچ جاؤ اور اس کے سبب اپنے بعد والوں سے سبقت لے جاؤ؟ اور تم سے کوئی افضل نہ ہو مگر وہ جو تمہاری طرح کا عمل کرے۔“ انہوں نے کہا، کیوں نہیں (ضرور بتلائیں) اے اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم تینتیس مرتبہ ہر نماز کے بعد سُبْحَانَ اللّٰہ، اَللُّٰہُ اَکْبَر اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہو“، ابو صالح بیان کرتے ہیں، محتاج مہاجرین دوبارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا، ہمارے مالدار بھائیوں نے ہمارے عمل کو سن کر، ہماری طرح عمل شروع کر دیا ہے۔ (وہ بھی تسبیح، تکبیر تحمید کرنے لگے ہیں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یہ اللّٰہ کا فضل ہے جسے چاہے عنایت فرما دے) قتیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا کسی اور نے لیث سے ابن عجلان کے واسطہ سے سَمَیّ سے بیان کیا، میں نے یہ حدیث اپنے گھر کے کسی فرد کو سنائی تو اس نے کہا تم بھول گئے ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا تھا، تینتیس مرتبہ سُبْحَانَ اللّٰہ کہو تینتیس بار اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہو اور تینتیس بار اَللُّٰہ اَکْبَر کہو تو میں دوبارہ ابوصالح کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسے یہ بتایا تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا، اَللُّٰہ اَکْبَر، سُبْحَانَ اللِّٰہ اور اَلْحَمْدُ لِلِّٰہ، اَللّٰہُ اَکْبَر، سُبْحَانَ اللّٰہ اَلْحَمْد لِلّٰہ اس طرح کل تینتیس ہو جائے ابن عجلان کہتے ہیں، میں نے یہ حدیث رجاء بن حیوہ کو سنائی تو اس نے مجھے اس طرح ابو صالح کے واسطہ سے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث سنائی۔
ألا أحدثكم بأمر إن أخذتم به أدركتم من سبقكم ولم يدرككم أحد بعدكم وكنتم خير من أنتم بين ظهرانيه إلا من عمل مثله تسبحون وتحمدون وتكبرون خلف كل صلاة ثلاثا وثلاثين فاختلفنا بيننا فقال بعضنا نسبح ثلاثا وثلاثين ونحمد ثلاثا وثلاثين ونكبر أربعا وثلاثين فرجعت إليه
أفلا أعلمكم شيئا تدركون به من سبقكم وتسبقون به من بعدكم ولا يكون أحد أفضل منكم إلا من صنع مثل ما صنعتم قالوا بلى يا رسول الله قال تسبحون وتكبرون وتحمدون دبر كل صلاة ثلاثا وثلاثين مرة قال أبو صالح فرجع فقراء المهاجرين إلى رسول الله صلى الله عليه وس
من سبح الله في دبر كل صلاة ثلاثا وثلاثين وحمد الله ثلاثا وثلاثين وكبر الله ثلاثا وثلاثين فتلك تسعة وتسعون وقال تمام المائة لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير غفرت خطاياه وإن كانت مثل زبد البحر
أفلا أدلك على عمل إذا أنت قلته أدركت من قبلك وفت من بعدك، إلا من قال مثل قولك تسبح دبر كل صلاة ثلاثا وثلاثين، وتحمد الله ثلاثا وثلاثين، وتكبر أربعا وثلاثين
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1347
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) اَلدَّثُوْرُ: دثر کی جمع ہے، بہت مال۔ اَهْلُ الدَّثوْرُ: بہت مالدار(2) اَلدَّرَجَاتُ الْعُليٰ: درجات، درجة کی جمع ہے مرتبہ اور عُلي، اعلي کا مونث ہے۔ (3) اَلنَّعِيْمُ الْمُقِيْمُ: دائمی یا ہمیشہ کی نعمتیں، دبر، بعد میں یا آخر میں۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے اگر انسان کے پاس فرصت کم ہو یا اسے کسی وجہ سے جلدی ہو تو وہ ان کلمات کو گیارہ گیارہ دفعہ بھی کہہ سکتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1347
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 843
´ہر نماز کے بعد تسبیح تینتیس تینتیس مرتبہ ` «. . . إِلَّا مَنْ عَمِلَ مِثْلَهُ تُسَبِّحُونَ وَتَحْمَدُونَ وَتُكَبِّرُونَ خَلْفَ كُلِّ صَلَاةٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ . . .» ”... ہر نماز کے بعد تینتیس تینتیس مرتبہ تسبیح «سبحان الله»، تحمید «الحمد لله»، تکبیر «الله أكبر» کہا کرو ...“[صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 843]
فوائد: ایک دوسری روایت میں ”اللہ اکبر“ چونتیس مرتبہ کہنے کا بھی ذکر آیا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فرض نماز کے بعد پڑھے جانے والے کچھ کلمات ایسے ہیں کہ ان کو پڑھنے یا کرنے والا کبھی نامراد نہیں ہوتا 33 مرتبہ «سُبْحَانَ اللهِ» 33 مرتبہ «اَلْحَمْدُ لِلهِ» 34 مرتبہ «اَللهُ اَكْبَرُ» کہنا۔“[صحيح مسلم: 596، دارالسلام 1347] فرض نماز کے بعد اذکار کی فضیلت میں کافی احادیث ہیں۔ ❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ہر نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھے تو اس کو جنت میں داخل ہونے سے موت کے سوا کوئی چیز نہیں روک سکتی۔“[عمل اليوم و الليلة النسائي: 100 و سنده حسن، الترغيب و الترهيب للمنذري 448/2 ح 2273، طبع دار ابن كثير، بيروت]
ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث/صفحہ نمبر: 6
حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح مسلم 1352
´ہر نماز کے بعد تسبیح سے گناہوں کا بخشا جانا ` «. . . مَنْ سَبَّحَ اللَّهَ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَحَمِدَ اللَّهَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَكَبَّرَ اللَّهَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، فَتْلِكَ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ، وَقَالَ تَمَامَ الْمِائَةِ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، غُفِرَتْ خَطَايَاهُ وَإِنْ كَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ» ”۔۔۔ جو ہر نماز کے بعد «سبحان الله» تینتیس ۳۳ بار اور «الحمدلله» تینتیس ۳۳ بار اور «الله اكبر» تینتیس ۳۳ بار کہے تو یہ ننانوے کلمے ہوں گے اور پورا سینکڑا یوں کرے کہ ایک بار «لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ» پڑھے یعنی ”کوئی معبود عبادت کے لائق نہیں مگر اللہ، اکیلا ہے وہ، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کی ہے سلطنت اور اسی کے لئے سب تعریف اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔“ تو اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر (یعنی بے حد) ہوں۔“[صحيح مسلم/كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة: 1352]
فوائد: اس حدیث میں تسبیح، تحمید اور تکبیر کے ساتھ «لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ» کا اضافہ ہے اور اس کی خصوصی فضیلت بھی بیان فرمائی گئی ہے کہ اسے پڑھنے والے کے سارے (صغیرہ) گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ دوسرا ان تمام روایات سے معلوم ہوا کہ: 33 مرتبہ «سبحان الله»، 33 بار «الحمدلله» 34 بار «الله اكبر» ہو یا 25 مرتبہ «سبحان الله»، 25 بار «الحمدلله» 25 بار «الله اكبر» 25 بار «لا اله الا الله» ہو ۱؎ یا 33 مرتبہ «سبحان الله»، 33 بار «الحمدلله»، 33 بار «الله اكبر» ایک بار «لا الٰه الا الله وحده لا شريك له إلخ» ہو ۲؎، زیادہ سے زیادہ ذکر کا عدد سو ہی ہے۔ لہٰذا اس سے تجاوز بہتر نہیں ہے۔ ❀ مسیب بن نجبہ نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر کہا: میں نے مسجد میں ایسے لوگ دیکھے ہیں جو کہتے ہیں، تین سو ساٹھ مرتبہ ”سبحان اللہ“ کہو تو (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے) کہا: ”اے علقمہ! اٹھو اور مجھے ان سے ملاؤ“ وہ آئے اور ان (لوگوں)کے پاس کھڑے ہو گئے اور دیکھا کہ وہی کام کر رہے تھے (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) فرمانے لگے کہ ”تم نے گمراہی کی دُمیں پکڑ رکھی ہیں یا اپنے آپ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے زیادہ ہدایت پر سمجھتے ہو؟!“[البداع و النهي عنها لابن وضاح: 27 وسنده حسن] پتا چلا کہ اذکار میں جس تعداد کا ذکر سنت صحیحہ سے ثابت ہو اسی کے مطابق اذکار کئے جائیں۔ ------------------ ۱؎[سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: 3413] ۲؎[صحيح مسلم/كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة: 1352]
ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث/صفحہ نمبر: 6
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:133
133- سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مالدار لوگ اجر حاصل کرنے میں سبقت لے گئے ہیں، وہ اس طرح پڑھے ہیں جس طرح ہم پڑھتے ہیں، لیکن وہ خرچ کرتے ہیں اور خرچ نہیں کرتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کیا میں تمہاری رہمنائی ایسے عمل کی طرف نہ کروں کہ جب تم اس پڑھ لو گے تو تم اپنے سے آگے والے تک پہنچ جاؤ گے۔ اور اپنے پیچھے والے سے آگے نکل جاؤ گے، ماسوائے اس شخص کے، جو تمہارے اس پڑھنے کی مانند پڑھ لے۔ تم ہر نماز کے بعد 33 مرتبہ سبحان اللہ، 33 مرتبہ الحمدللہ، اور 34 مرتبہ اللہ اکبر پڑھو۔“ حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:133]
فائدہ: اس حدیث میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نیکیوں پر حریص ہونے کا واضح ثبوت ملتا ہے کہ وہ نیکیوں میں کس طرح طمع کرتے تھے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ غربت کی وجہ سے دین سے دور ہو جانا سراسر حماقت ہے۔ غربت میں رہ کر یہ جذبات ہونے چاہئیں کہ اے اللہ! جب تو مجھے دے گا، میں امیروں کی طرح خرچ کروں گا۔ نماز کے بعد مسنون اذکار کی زبردست فضیلت ہے۔ کسی بھی ذکر کی تعداد کو اپنی طرف سے متعین کرنا درست نہیں ہے، جو تعداد شریعت میں مقرر ہو، اس کی پاسداری کرنی چاہیے، اپنی طرف سے تعداد میں اضافہ یا کمی نہیں کرنی چاہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 133
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:843
843. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ کچھ نادار لوگ نبی ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ مال دار لوگ تو بڑے بڑے درجات اور دائمی عیش لے گئے کیونکہ ہماری طرح وہ نماز پڑھتے ہیں اور ہماری طرح وہ روزے بھی رکھتے ہیں لیکن ان کے پاس مال و دولت کی فراوانی ہے جس سے وہ حج، عمرہ،جہاد اور صدقہ و خیرات بھی کرتے ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں کہ اس پر عمل کر کے تم ان لوگوں تک پہنچ جاؤ گے جو تم سے سبقت لے گئے ہیں۔ اور تمہارے بعد تمہیں کوئی نہیں پا سکے گا۔ اور تم جن لوگوں میں ہو ان سے بہتر ہو جاؤ گے سوائے اس شخص کے جو اس کے مثل عمل کرے (وہ تمہارے برابر ہو سکے گا)۔ تم ہر نماز کے بعد 33 بار سبحان الله 33 بار الحمدلله اور 33 بار الله أكبر پڑھ لیا کرو۔“ راوی کہتا ہے کہ پھر ہمارا باہمی اختلاف ہو گیا۔ ہم میں سے بعض نے کہا کہ ہم 33۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:843]
حدیث حاشیہ: (1) بعض روایات میں نادار لوگوں کے نام بھی ذکر ہوئے ہیں: ٭ حضرت ابوذر غفاری ٭ حضرت ابوالدرداء ٭ حضرت ابو ہریرہ ٭ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم، لیکن صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ مہاجرین میں سے نادار لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے جبکہ حضرت زید بن ثابت ؓ انصار میں سے ہیں، ممکن ہے کہ اکثریت کی بنا پر انہیں مہاجرین کہا گیا ہو۔ ایک روایت میں ہے کہ فقراء مہاجرین دوبارہ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی کہ اللہ کے رسول! ہمارے صاحب ثروت بھائیوں نے جب سنا کہ ہم نے نماز کے بعد آپ کا بتایا ہوا وظیفہ پڑھنا شروع کر دیا ہے تو انہوں نے بھی اس پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ تو اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا کر دیتا ہے۔ “(فتح الباري: 2/422۔ 424)(2) حدیث میں مذکور وظیفے کو ”تسبیح فاطمہ“ کہا جاتا ہے۔ اصل تسبیح فاطمہ تو وہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے اپنی لخت جگر سیدہ فاطمہ ؓ کو اس وقت پڑھنے کی تعلیم دی تھی جب انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے گھر کی خدمت کے لیے ایک غلام کا مطالبہ کیا۔ مزید برآں وہ نماز کے بعد پڑھنے کے متعلق نہ تھی بلکہ سوتے وقت پڑھنے کی تلقین فرمائی تھی۔ (صحیح البخاري، الدعوات، حدیث: 6318) چونکہ ان دونوں کی نوعیت ایک جیسی ہے اس لیے یہ وظیفہ بھی تسبیح فاطمہ کے نام سے مشہور ہو گیا۔ اس کی تین صورتیں ماثور ہیں: ٭ (سبحان الله 33 بار، الحمدلله 33 بار، الله أكبر 33 بار اور ایک بار لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو علی كل شيئ قدير)(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1352(597) ٭ جو شخص الحمدلله 33 بار، سبحان الله 33 بار اور الله أكبر 34 بار کہے گا وہ کبھی نامراد نہیں ہو گا۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1349(596) ٭ سبحان الله 25 بار، الحمدلله 25 بار، الله أكبر 25 بار، لا إله إلا الله 25 بار۔ (صحیح ابن خزیمة: 1/370) اس کے علاوہ حضرت انس، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت علی بن ابی طالب اور ام مالک انصاریہ رضی اللہ عنہم سے سبحان الله 10 مرتبہ، الحمدلله 10 مرتبہ اور الله أكبر 10 مرتبہ پڑھنے کے متعلق روایات بھی کتب احادیث میں مروی ہیں۔ ان تمام روایات کو علامہ عینی نے ذکر کیا ہے۔ (عمدة القاري: 611/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 843