مُقَدِّمَةٌ مقدمہ Introduction 6ق. باب الْكَشْفِ عَنْ مَعَايِبِ رُوَاةِ الْحَدِيثِ وَنَقَلَةِ الأَخْبَارِ وَقَوْلِ الأَئِمَّةِ فِي ذَلِكَ باب: حدیث کے راویوں کا عیب بیان کرنا درست ہے اور وہ غیبت میں داخل نہیں۔ Chapter: …. وحدثني ابو بكر بن النضر بن ابي النضر، قال: حدثني ابو النضر هاشم بن القاسم، حدثنا ابو عقيل صاحب بهية، قال: كنت جالسا عند القاسم بن عبيد الله ويحيي بن سعيد، فقال يحيى للقاسم: يا ابا محمد، إنه قبيح على مثلك عظيم، ان تسال عن شيء من امر هذا الدين، فلا يوجد عندك منه علم، ولا فرج او علم، ولا مخرج، فقال له القاسم: وعم ذاك؟ قال: لانك ابن إمامي هدى ابن ابي بكر وعمر قال: يقول له القاسم: اقبح من ذاك عند من عقل، عن الله، ان اقول بغير علم او آخذ، عن غير ثقة، قال: فسكت فما اجابهوحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ النَّضْرِ بْنِ أَبِي النَّضْرِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو النَّضْرِ هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ صَاحِبُ بُهَيَّةَ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ الْقَاسِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ وَيَحْيَي بْنِ سَعِيدٍ، فَقَالَ يَحْيَى لِلْقَاسِمِ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ، إِنَّهُ قَبِيحٌ عَلَى مِثْلِكَ عَظِيمٌ، أَنْ تُسْأَلَ عَنْ شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ هَذَا الدِّينِ، فَلَا يُوجَدَ عِنْدَكَ مِنْهُ عِلْمٌ، وَلَا فَرَجٌ أَوْ عِلْمٌ، وَلَا مَخْرَجٌ، فَقَالَ لَهُ الْقَاسِمُ: وَعَمَّ ذَاكَ؟ قَالَ: لِأَنَّكَ ابْنُ إِمَامَيْ هُدًى ابْنُ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَر قَالَ: يَقُولُ لَهُ الْقَاسِمُ: أَقْبَحُ مِنْ ذَاكَ عِنْدَ مَنْ عَقَلَ، عَنِ اللَّهِ، أَنْ أَقُولَ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَوْ آخُذَ، عَنْ غَيْرِ ثِقَةٍ، قَالَ: فَسَكَتَ فَمَا أَجَابَهُ ۔ ابو نضر ہاشم بن قاسم نے حدیث بیان کی، کہا: ہم نے بہیہ کے مولیٰ ابو عقیل (یحییٰ بن متوکل) نے حدیث بیان کی، کہا: میں قاسم بن عبید اللہ (بن عبد اللہ بن بن عمر جن کی والدہ ام عبد اللہ بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر تھیں) اور یحییٰ بن سعید کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ یحییٰ نے قاسم بن عبید اللہ سے کہا: جناب ابو محمد! آپ جیسی شخصیت کے لیے یہ عیب ہے، بہت بڑی بات ہے کہ آپ سے اس دین کے کسی معاملے کے بارے میں (کچھ) پوچھا جائے اور آپ کے پاس اس کے حوالے سے نہ علم ہو نہ کوئی حل یا (یہ الفاظ کہے) نہ علم ہو نہ نکلنے کی کوئی راہ۔ تو قاسم نے ان سے کہا: کس وجہ سے؟ (یحییٰ نے) کہا: کیونکہ آپ ہدایت کے دو اماموں ابو بکر اور عمرؓ کے فرزند ہیں۔ کہا: قاسم اس سے کہنے لگے: جس شخص کو اللہ کی طرف سے عقل ملی ہو، اس کے نزدیک اس سے بھی بد تر بات یہ ہے کہ میں علم کے بغیر کچھ کہہ دوں یا اس سے روایت کروں جو ثقہ نہ ہو۔ (یہ سن کر یحییٰ) خاموش ہو گئے اور انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔ ابو عقیلؒ جو بہیہ نامی عورت کے شاگرد ہیں بیان کرتے ہیں: کہ میں قاسم بن عبید اللہؒ اور یحییٰ بن سعیدؒ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، تو یحییٰؒ نے قاسمؒ سے کہا: اے ابو محمد! آپ جیسے بلند شان انسان کے لیے انتہائی بری بات ہے کہ تم سے اس دین کے کسی مسئلہ (معاملہ) کے بارے میں دریافت کیا جائے اور آپ کے پاس اس کے بارے میں معلومات موجود نہ ہوں، اور آپ اس کو حل نہ کر سکیں، یا اس کے بارے میں علم اور نکلنے کی راہ نہ ہو۔ قاسم ؒ نے یحییٰؒ سے پوچھا یہ کیوں؟ اس نے کہا؟ کیونکہ آپ ہدایت و رہنمائی کے دو ائمہ ابو بکرؓ اور عمرؓ کے بیٹے ہیں۔ قاسم ؒ جواب دیتے ہیں: ”جو اللہ کے دین کی عقل و دانش رکھتا ہے، اس کے نزدیک اس سے زیادہ قبیح اور بری بات یہ ہے، کہ میں بلا سند و حجّت (بلا علم) بات کہوں (جواب دوں) یا غیرثقہ ناقابلِ اعتبار آدمی سےروایت لوں۔“ تو یحییٰ خاموش ہو گئے اور کچھ جواب نہ دے سکے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم كما في ((التحفة)) برقم (18487 و 18924 و 18925)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني بشر بن الحكم العبدي، قال: سمعت سفيان بن عيينة، يقول: اخبروني، عن ابي عقيل صاحب بهية، ان ابناء لعبد الله بن عمر، سالوه عن شيء، لم يكن عنده فيه علم، فقال له يحيي بن سعيد: والله إني لاعظم ان يكون مثلك وانت ابن إمامي الهدى يعني عمر وابن عمر، تسال عن امر ليس عندك فيه علم، فقال: اعظم من ذلك، والله عند الله، وعند من عقل عن الله، ان اقول بغير علم، او اخبر، عن غير ثقة، قال: وشهدهما ابو عقيل يحيى بن المتوكل، حين قالا ذلكوحَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ الْعَبْدِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ، يَقُولُ: أَخْبَرُونِي، عَنْ أَبِي عَقِيلٍ صَاحِبِ بُهَيَّةَ، أَنَّ أَبْنَاءً لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، سَأَلُوهُ عَنْ شَيْءٍ، لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ فِيهِ عِلْمٌ، فَقَالَ لَهُ يَحْيَي بْنُ سَعِيدٍ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأُعْظِمُ أَنْ يَكُونَ مِثْلُكَ وَأَنْتَ ابْنُ إِمَامَيِ الْهُدَى يَعْنِي عُمَرَ وَابْنَ عُمَرَ، تُسْأَلُ عَنْ أَمْرٍ لَيْسَ عِنْدَكَ فِيهِ عِلْمٌ، فَقَالَ: أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ، وَاللَّهِ عِنْدَ اللَّهِ، وَعِنْدَ مَنْ عَقَلَ عَنِ اللَّهِ، أَنْ أَقُولَ بِغَيْرِ عِلْمٍ، أَوْ أُخْبِرَ، عَنْ غَيْرِ ثِقَةٍ، قَالَ: وَشَهِدَهُمَا أَبُو عَقِيلٍ يَحْيَى بْنُ الْمُتَوَكِّلِ، حِينَ قَالَا ذَلِك بشر بن حکم عبدی نے مجھ سے بیان کیا، کہا: میں نے سفیان بن عیینہ سے سنا، کہہ رہے تھے: مجھے سے بہت سے لوگوں نے بہیہ کے مولیٰ ابو عقیل سے (سن کر) روایت کی کہ (کچھ) لوگوں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ایک بیٹے سے کوئی بات پوچھی جس کے بارے میں ان کے علم میں کچھ نہ تھا تو یحییٰ بن سعید نے ان سے کہا: میں اس کو بہت بڑی بات سمجھتا ہوں کہ آپ جیسے انسان سے (جبکہ آپ ہدایت کے وو اماموں یعنی عمر اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں، کوئی بات پوچھی جائے (اور) اس کےب ارے میں آپ کو کچھ علم نہ ہو۔ انہوں نے کہا: بخدا! اللہ کے نزدیک اور اس شخص کے نزدیک جسے اللہ نے عقل دی اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ میں علم کے بغیر کچھ کہوں یا کسی ایسے شخص سے روایت کروں جو ثقہ نہیں۔ (سفیان نے) کہا: ابو عقیل یحییٰ بن متوکل (بھی) ان کے پاس موجود تھے جب انہوں نے یہ بات کی۔ بہیہ نامی عورت کے شاگرد اور غلام ابوعقیلؒ بیان کرتے ہیں: کہ لوگوں نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے بیٹے (پوتے) سے ایک ایسا مسئلہ دریافت کیا، جس کے بارے میں وہ علم نہیں رکھتے تھے، تو انھیں یحییٰ بن سعیدؒ نے کہا: اللہ کی قسم! میں اس کو انتہائی ناگوار سمجھتا ہوں کہ آپ جیسے مرتبہ کا مالک، جو ہدایت کے دو راہنماؤں کا، یعنی: عمرؓ اور ابنِ عمر ؓ کا بیٹا ہے، اس سے کوئی مسئلہ دریافت کیا جائے اور وہ اس کے بارے میں علم نہ رکھتے ہوں۔ تو انھوں نے جواب دیا: ”اس سے زیادہ ناگوار اور گراں اللہ کے ہاں اور ان لوگوں کے ہاں جو اللہ کے بارے میں عقل و شعور رکھتے ہیں، اللہ کی قسم! یہ بات ہے، کہ میں علم (دلیل وسند) کے بغیر بات کہہ دوں (رائے پیش کردوں) یا نا قابلِ اعتبار روایت سے پیش کردوں۔“ سفیان بن عیینہؒ کہتے ہیں: ان دونوں (یحییٰؒ اور قاسمؒ) کی گفتگو کے وقت ابوعقیل یحییٰ بن متوکّلؒ موجود تھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم كما في ((التحفة)) برقم (19201 و 19533)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا عمرو بن علي ابو حفص، قال: سمعت يحيى بن سعيد، قال: سالت سفيان الثوري، وشعبة، ومالكا، وابن عيينة، عن الرجل، لا يكون ثبتا في الحديث، فياتيني الرجل فيسالني عنه، قالوا: اخبر عنه، انه ليس بثبتوحَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ أَبُو حَفْصٍ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ، قَالَ: سَأَلْتُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ، وَشُعْبَةَ، وَمَالِكًا، وَابْنَ عُيَيْنَةَ، عَنِ الرَّجُلِ، لَا يَكُونُ ثَبْتًا فِي الْحَدِيثِ، فَيَأْتِينِي الرَّجُلُ فَيَسْأَلُنِي عَنْهُ، قَالُوا: أَخْبِرْ عَنْهُ، أَنَّهُ لَيْسَ بِثَبْتٍ یحییٰ بن سعید نے کہا: میں نے سفیان ثوری، شعبہ، مالک اور ابن عیینہ سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جو حدیث میں پور ی طرح قابل اعتماد (ثقہ) نہ ہو، پھر کوئی آدمی آئے اور مجھ سے اس کے بارے میں سوال کرے؟ تو ان سب نے کہا: اس کے بارے میں بتا دو کہ وہ پوری طرح قابل اعتماد نہیں ہے یحییٰ بن سعیدؒ بیان کرتے ہیں میں نے سفیان ثوریؒ، شعبہؒ، مالکؒ اور ابنِ عیینہؒ (ائمہ دین اور ائمہ جرح و تعدیل) سے پوچھا: ایک آدمی حدیث میں معتبر اور ثقہ نہیں ہے، کوئی دوسرا آدمی میرے پاس آتا ہے اور اس کے بارے میں دریافت کرتا ہے (کہ یہ ثقہ اور معتبر ہے یا نہیں) سب نے کہا: ”اس کے بارے میں بتا دوکہ یہ ثقہ اور معتبر نہیں ہے۔“ (کیونکہ اگر اس کی اصلیت اور حقیقت سے آگاہ نہیں کیا جائے گا، تو لوگ اس پر اعتماد کر کے اس کی غلط اور ضعیف روایات کو مان لیں گے اور وہ دین بن جائیں گی)۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم كما في ((التحفة)) برقم (18762 و 18775 و 18803 و 19248)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا عبيد الله بن سعيد، قال: سمعت النضر، يقول: سئل ابن عون، عن حديث لشهر، وهو قائم على اسكفة الباب، فقال: إن شهرا نزكوه، إن شهرا نزكوه، قال مسلم: رحمه الله، يقول: اخذته السنة الناس تكلموا فيهوحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّضْرَ، يَقُولُ: سُئِلَ ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ حَدِيثٍ لِشَهْرٍ، وَهُوَ قَائِمٌ عَلَى أُسْكُفَّةِ الْبَابِ، فَقَالَ: إِنَّ شَهْرًا نَزَكُوهُ، إِنَّ شَهْرًا نَزَكُوهُ، قَالَ مٌسْلِمٌ: رَحِمَهُ اللَّهُ، يَقُولُ: أَخَذَتْهُ أَلْسِنَةُ النَّاسِ تَكَلَّمُوا فِيهِ ۔ نضر کہتے ہیں کہ ابن عون سے شہر (بن حوشب) کی حدیث کے بارے میں سوال کیا گیا، (اس وقت) وہ (اپنی) دہلیز پر کھڑے تھے، وہ کہنے لگے: انہوں (محدثین) نے یقینا شہر کو مطعون ٹھہرایا ہے، انہوں نے شہر کو مطعون ٹھہرایا ہے۔ امام مسلم رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگوں کی زبانوں نے انہیں نشانہ بنایا، ان کے بارے میں باتیں کیں۔ نضر بن شمیلؒ کہتے ہیں، ابنِ عونؒ سے جب کہ وہ دروازے کی دہلیز پر کھڑے تھے شہر (راوی کا نام ہے) کی حدیثوں کے بارے میں پوچھا گیا، تو انھوں نے جواب دیا: ”شہر بن حوشب نے پر محدثینؒ نے جرح کی ہے، شہر پرلوگوں نے طعن کیا ہے۔“ امام مسلمؒ فرماتے ہیں: ”ان کا مقصد ہے، لوگوں کی زبانوں نے اس پر گرفت کی ہے، اس کو جرح اور نقد کا نشانہ بنایا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه الترمذي في ((جامعه)) في الاستئذان، باب ماجاء في التسليم علي النساء بعد حديث (2697) انظر ((التحفة)) (18921)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني حجاج بن الشاعر، حدثنا شبابة، قال: قال شعبة: وقد لقيت شهرا، فلم اعتد بهوحَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِر، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، قَالَ: قَال شُعْبَةُ: وَقَدْ لَقِيتُ شَهْرًا، فَلَمْ أَعْتَدَّ بِهِ ہمیں شبابہ نے بتایا، کہا: شعبہ نے کہا: میں شہر سے ملا لیکن (روایت حدیث کے حوالے سے) میں نے انہیں اہمیت نہ دی۔ امام شعبہؒ کہتے ہیں: ”میں نے شہر سے ملاقات کی، تو میں نے اسے قابلِ اعتماد نہیں سمجھا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18804)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني محمد بن عبد الله بن قهزاذ من اهل مرو، قال: اخبرني علي بن حسين بن واقد، قال: قال عبد الله بن المبارك: قلت لسفيان الثوري: إن عباد بن كثير، من تعرف حاله، وإذا حدث، جاء بامر عظيم، فترى ان اقول للناس: لا تاخذوا عنه؟ قال سفيان: بلى، قال عبد الله: فكنت إذا كنت في مجلس، ذكر فيه عباد، اثنيت عليه في دينه، واقول: لا تاخذوا عنه وقال محمد: حدثنا عبد الله بن عثمان، قال: قال ابي: قال عبد الله بن المبارك: انتهيت إلى شعبة، فقال: هذا عباد بن كثير فاحذروهوحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُهْزَاذَ مِنْ أَهْلِ مَرْوَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: قُلْتُ لِسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ: إِنَّ عَبَّادَ بْنَ كَثِيرٍ، مَنْ تَعْرِفُ حَالَهُ، وَإِذَا حَدَّثَ، جَاءَ بِأَمْرٍ عَظِيمٍ، فَتَرَى أَنْ أَقُولَ لِلنَّاسِ: لَا تَأْخُذُوا عَنْهُ؟ قَالَ سُفْيَانُ: بَلَى، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَكُنْتُ إِذَا كُنْتُ فِي مَجْلِسٍ، ذُكِرَ فِيهِ عَبَّادٌ، أَثْنَيْتُ عَلَيْهِ فِي دِينِهِ، وَأَقُولُ: لَا تَأْخُذُوا عَنْهُ وَقَالَ مُحَمَّدٌ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ: قَالَ أَبِي: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: انْتَهَيْتُ إِلَى شُعْبَةَ، فَقَالَ: هَذَا عَبَّادُ بْنُ كَثِيرٍ فَاحْذَرُوهُ عبد اللہ بن مبارک نے کہا: میں نے سفیان ثوری سے عرض کی: بلاشبہ عباد بن کثیر ایسا ہے جس کا حال آپ کو معلوم ہے۔ جب وہ حدیث بیان کرتا ہے تو بڑی بات کرتا ہے، کیا آپ کی رائے ہے کہ میں لوگوں سے کہہ دیا کروں: اس سے (حدیث) نہ لو؟ سفیان کہنےلگے: کیوں نہیں! عبد اللہ نے کہا: پھر یہ (میرا معمول) ہو گیا کہ جب میں کسی (علمی) مجلس میں ہوتا جہاں عباد کا ذکر ہوتا تو میں دین کے حوالے سے اس کی تعریف کرتا اور (ساتھ یہ بھی) کہتا: اس سے (حدیث) نہ لو۔ ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا: ہم سے عبد اللہ بن عثمان نے بیان کیا، کہا: میرے والد نے کہا: عبد اللہ بن مبارک نے کہا: میں شعبہ تک پہنچا تو انہوں نے (بھی) کہا: یہ عباد بن کثیر ہے تم لوگ اس سے (حدیث بیان کرنے میں) احتیاط کرو امام عبداللہ بن مبارک ؒ کہتے ہیں: میں نے سفیان ثوری ؒ سے پوچھا: عباد بن کثیر کے حالات سے تو آپ آگاہ ہیں۔ وہ جب حدیث بیان کرتا ہے، تو انتہائی ناگوار یا سنگین حرکت کرتا ہے (غلط اور موضوع روایات بیان کرتا ہے) تو آپ کا کیا خیال ہے، میں لوگوں کو کہہ دوں: کہ اس سے روایت نہ لو؟ سفیانؒ نے کہا: ”ضرور کہو۔“ عبداللہ ؒ کہتے ہیں: جب میں کسی ایسی مجلس میں ہوتا، جس میں عباد کا تذکرہ ہوتا، تو میں اس کی دیانت و امانت، زہد و درع کی تعریف کرتا اور کہہ دیتا: ”کہ اس سے روایت نہ لو۔“ (کیونکہ روایت بیان کرنے میں قابلِ اعتماد نہیں، کمزور اور موضوع روایات بیان کردیتا ہے) یہ بات دوسری سند سے بیان کی گئی ہے کہ عبد اللہ بن مبارک ؒ بیان کرتے ہیں: میں شعبہؒ کے پاس پہنچا تو انھوں نے کہا: ”یہ عباد بن کثیر(موجود) ہے، اس سے بچ کر رہو۔“ (اس سے روایت نہ لو)۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18763 و 18805 و 18926)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني الفضل بن سهل، قال: سالت معلى الرازي، عن محمد بن سعيد، الذي روى عنه عباد، فاخبرني، عن عيسى بن يونس، قال: كنت على بابه، وسفيان عنده، فلما خرج سالته عنه، فاخبرني انه كذابوحَدَّثَنِي الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ، قَالَ: سَأَلْتُ مُعَلًّى الرَّازِيَّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِيدٍ، الَّذِي رَوَى عَنْهُ عَبَّادٌ، فَأَخْبَرَنِي، عَنْ عِيسَى بْنِ يُونُسَ، قَالَ: كُنْتُ عَلَى بَابِهِ، وَسُفْيَانُ عِنْدَهُ، فَلَمَّا خَرَجَ سَأَلْتُهُ عَنْهُ، فَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ كَذَّابٌ فضل بن سہل نے بتایا، کہا: میں نے معلیٰ رازی سے محمد بن سعید کے بارے میں، جس سے عباد بن کثیر نے روایت کی، پوچھا تو انہوں نے مجھے عیسیٰ بن یونس کے حوالے سے بیان کیا، کہا: میں اس کے دروزاے پر تھا، سفیان اس کے پاس موجود تھے جب وہ باہر نکل گیا تو میں نے ان (سفیان) سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ کذاب ہے۔ فضل بن سہیلؒ بیان کرتے ہیں: میں نے معلیٰ رازیؒ سے محمد بن سعید کے بارے میں پوچھا، جس سے عباد بن کثیر روایت بیان کرتا ہے، تو انھوں نے مجھےعیسیٰ بن یونسؒ سے نقل کیا۔ میں اس کے دروازے پر تھا اور سفیانؒ اس کے پاس حاضر تھے، جب وہ نکلے تو میں نے ان سے (سفیانؒ سے) اس (محمد بن سعید) کے بارے میں دریافت کیا، تو انھوں نے بتایا: ”وہ جھوٹا ہے۔“ (مولانا عبد السّلام بستوی نے اس سے مراد عبادبن کثیر لیا ہے، کہ وہ جھوٹا ہے)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18764)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني محمد بن ابي عتاب، قال: حدثني عفان، عن محمد بن يحيى بن سعيد القطان، عن ابيه، قال: لم نر الصالحين في شيء، اكذب منهم في الحديث، قال ابن ابي عتاب: فلقيت انا محمد بن يحيى بن سعيد القطان، فسالته عنه، فقال عن ابيه: لم تر اهل الخير في شيء، اكذب منهم في الحديث، قال مسلم: يقول: يجري الكذب على لسانهم، ولا يتعمدون الكذبوحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَتَّابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَفَّانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: لَمْ نَرَ الصَّالِحِينَ فِي شَيْءٍ، أَكْذَبَ مِنْهُمْ فِي الْحَدِيثِ، قَالَ ابْنُ أَبِي عَتَّابٍ: فَلَقِيتُ أَنَا مُحَمَّدَ بْنَ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ، فَسَأَلْتُهُ عَنْهُ، فَقَالَ عَنْ أَبِيهِ: لَمْ تَرَ أَهْلَ الْخَيْرِ فِي شَيْءٍ، أَكْذَبَ مِنْهُمْ فِي الْحَدِيثِ، قَالَ مُسْلِم: يَقُولُ: يَجْرِي الْكَذِبُ عَلَى لِسَانِهِمْ، وَلَا يَتَعَمَّدُونَ الْكَذِبَ محمد بن ابی عتاب نے کہا: مجھ سے عفان نے محمد بن یحییٰ بن سعید قطان سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی، کہا: ہم نے نیک لوگوں (صوفیا) کو حدیث سے بڑھ کر کسی اور چیز میں جھوٹ بولنے والا نہیں پایا۔ ابن ابی عتاب نے کہا: میں محمد بن یحییٰ بن سعید قطان سے ملا تو اس (بات کے) بارے میں پوچھا، انہوں نے اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے کہا: تم اہل خیر (زہد و ورع والوں) کو حدیث سے زیادہ کسی اور چیز میں جھوٹا نہیں پاؤ گے۔ امام مسلم نے کہا کہ یحییٰ بن سعید نے فرمایا: ان کی زبان پر جھوٹ جاری ہو جاتا ہے، وہ جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتے۔ امام یحییٰ بن سعید القطانؒ کہتے ہیں: ”ہم نے بعض نیک لوگوں کو حدیث میں سب باتوں سے زیادہ جھوٹ بولتے دیکھا ہے۔“ ابنِ ابی عتابؒ کہتے ہیں: میں یحییٰ بن سعید القطانؒ کے بیٹے محمدؒ کو ملا اور ان سے اس قول کے بارے میں پوچھا، تو اس نے اپنے باپ سے نقل کیا: ”کہ ہم نے اہلِ خیر کو کسی چیز میں حدیث سے زیادہ جھوٹ بولتے نہیں دیکھا۔“ یعنی: جتنا جھوٹ وہ حدیثوں کے بیان میں بولتے ہیں اتنا جھوٹ عام گفتگو میں نہیں بولتے۔ امام مسلمؒ فرماتے ہیں: ان کا مقصد یہ ہے، کہ جھوٹ ان کی زبانوں پر جاری ہو جاتا ہے (کیونکہ وہ بِلا تحقیق اور تنقیح ہر ایک پر اعتماد کر لیتے ہیں) وہ قصداً (جان بوجھ کر) جھوٹ نہیں بولتے (کیونکہ عمداً جھوٹ بولنے والا صالح یا اہلِ خیر نہیں ہو سکتا)۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (19527)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني الفضل بن سهل، قال: حدثنا يزيد بن هارون، قال: اخبرني خليفة بن موسى، قال: دخلت على غالب بن عبيد الله، فجعل يملي علي، حدثني مكحول، حدثني مكحول، فاخذه البول، فقام، فنظرت في الكراسة، فإذا فيها، حدثني ابان، عن انس وابان، عن فلان، فتركته، وقمت، قال: وسمعت الحسن بن علي الحلواني، يقول: رايت في كتاب عفان، حديث هشام ابي المقدام، حديث عمر بن عبد العزيز، قال هشام: حدثني جل، يقال له: يحيي بن فلان، عن محمد بن كعب، قال: قلت لعفان: إنهم يقولون هشام سمعه من محمد بن كعب، فقال: إنما ابتلي من قبل هذا الحديث، كان يقول: حدثني يحيي، عن محمد، ثم ادعى بعد، انه سمعه من محمدحَدَّثَنِي الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي خَلِيفَةُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى غَالِبِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، فَجَعَلَ يُمْلِي عَلَيَّ، حَدَّثَنِي مَكْحُولٌ، حَدَّثَنِي مَكْحُولٌ، فَأَخَذَهُ الْبَوْلُ، فَقَامَ، فَنَظَرْتُ فِي الْكُرَّاسَةِ، فَإِذَا فِيهَا، حَدَّثَنِي أَبَانٌ، عَنْ أَنَسٍ وَأَبَانٌ، عَنْ فُلَانٍ، فَتَرَكْتُهُ، وَقُمْتُ، قَالَ: وَسَمِعْتُ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيَّ، يَقُولُ: رَأَيْتُ فِي كِتَابِ عَفَّانَ، حَدِيثُ هِشَامٍ أَبِي الْمِقْدَامِ، حَدِيثَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيز، قَالَ هِشَامٌ: حَدَّثَنِي جُلٌ، يُقَالُ لَهُ: يَحْيَي بْنُ فُلَانٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَفَّانَ: إِنَّهُمْ يَقُولُونَ هِشَامٌ سَمِعَهُ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ، فَقَالَ: إِنَّمَا ابْتُلِيَ مِنْ قِبَلِ هَذَا الْحَدِيثِ، كَانَ يَقُولُ: حَدَّثَنِي يَحْيَي، عَنْ مُحَمَّدٍ، ثُمَّ ادَّعَى بَعْدُ، أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنْ مُحَمَّدٍ خلیفہ بن موسیٰ نے خبر دی، کہا: میں غالب بن عبید اللہ کے ہاں آیا تو اس نے مجھے لکھوانا شروع کیا: مکحول نے مجھ سے حدیث بیان کی، مکحول نے مجھ سے حدیث بیان کی۔ اسی اثنا میں پیشاب نے اسے مجبور کیا تو وہ اٹھ گیا، میں نے (جو) اس کی کاپی دیکھی تو اس میں اس طرح تھا: مجھے ابان نے انس سے یہ حدیث سنائی، ابان نے فلاں سے حدیث روایت کی۔ اس پر میں نے اسے چھوڑ دیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ (امام مسلم نے کہا:) اور میں نے حسن بن علی حلوانی سے سنا، کہہ رہے تھے: میں نے عفان کی کتاب میں ابو مقدام ہشام کی (وہ) روایت دیکھی (جو عمر بن عبد العزیز کی حدیث ہے) (اس میں تھا:) ہشام نے کہا: مجھ سے ایک شخص نے جسے یحییٰ بن فلاں کہا جاتا تھا، محمد بن کعب سے حدیث بیان بیان کی، کہا: میں نے عفان سے کہا: (اہل علم) کہتے ہیں: ہشام نے یہ (حدیث) محمد بن کعب سے سنی تھی۔ تو وہ کہنے لگے: وہ (ہشام) اسی حدیث کی وجہ سے فتنے میں پڑے۔ (پہلے) وہ کہا کرتے تھے: مجھے یحییٰ نے محمد (بن کعب) سے روایت کی، بعد ازاں یہ دعویٰ کر دیا کہ انہوں نے یہ (حدیث براہ راست) محمد سے سنی ہے۔ خلیفہ بن موسیٰؒ بیان کرتے ہیں: میں غالب بن عبیداللہ کی خدمت میں حاضر ہوا، تو وہ مجھے حدیثیں املا کروانے (لکھوانے) لگے، کہ مجھے مکحولؒ نے بتایا، تو انھیں پیشاب آگیا جس سے وہ اٹھ کھڑے ہوئے، سو میں نے ان کی کاپی (کاغذات) پر نظر دوڑائی تو اس میں لکھا تھا: ”مجھے ابانؒ نے حضرت انسؓ سے حدیث بیان کی اور ابان سے فلاں نے روایت کی، تو میں انھیں چھوڑ کر چلا آیا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18616 و 19098)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني محمد بن عبد الله بن قهزاذ، قال: سمعت عبد الله بن عثمان بن جبلة، يقول: قلت لعبد الله بن المبارك: من هذا الرجل الذي رويت عنه حديث عبد الله بن عمرو، يوم الفطر، يوم الجوائز؟ قال سليمان بن الحجاج: انظر ما وضعت في يدك منه، قال ابن قهزاذ: وسمعت وهب بن زمعة يذكر، عن سفيان بن عبد الملك، قال: قال عبد الله يعني ابن المبارك: رايت روح بن غطيف صاحب الدم، قدر الدرهم وجلست إليه مجلسا، فجعلت استحيي من اصحابي، ان يروني جالسا معه، كره حديثه.حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُهْزَاذَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُثْمَانَ بْنِ جَبَلَةَ، يَقُولُ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ: مَنْ هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي رَوَيْتَ عَنْهُ حَدِيثَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، يَوْمُ الْفِطْرِ، يَوْمُ الْجَوَائِزِ؟ قَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ الْحَجَّاجِ: انْظُرْ مَا وَضَعْتَ فِي يَدِكَ مِنْهُ، قَالَ ابْنُ قُهْزَاذَ: وَسَمِعْتُ وَهْبَ بْنَ زَمْعَةَ يَذْكُرُ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ الْمُبَارَكِ: رَأَيْتُ رَوْحَ بْنَ غُطَيْفٍ صَاحِبَ الدَّمِ، قَدْرِ الدِّرْهَمِ وَجَلَسْتُ إِلَيْهِ مَجْلِسًا، فَجَعَلْتُ أَسْتَحْيِي مِنْ أَصْحَابِي، أَنْ يَرَوْنِي جَالِسًا مَعَهُ، كُرْهَ حَدِيثِه. مجھے محمد بن عبد اللہ قہزاذ نے حدیث سنائی، کہا: میں نے عبد اللہ بن عثمان بن جبلہ سے سنا، کہہ رہے تھے: میں نے عبد اللہ بن مبارک سے کہا: یہ کون ہے جس سے آپ نے عبد اللہ بن عمرو کی حدیث: ” عید الفطر کا دن انعامات کا دن ہے۔“ روایت کی؟ کہا: سلیمان بن حجاج، ان میں سے جو (احادیث) تم نے اپنے پاس (لکھ) رکھی ہیں (یا میں نے تمہیں اس کی جو حدیثیں دی ہیں) ان میں (اچھی طرح) نظر کرنا (غور کر لینا۔) ابن قہزاذ نے کہا: میں نے وہب بن زمعہ سے سنا، وہ سفیان بن عبد الملک سے روایت کر رہے تھے، کہا: عبد اللہ، یعنی ابن مبارک نے کہا: میں نے ایک درہم کے برابر خون والی حدیث کے راوی روح بن غطیف کو دیکھا ہے۔ میں اس کے ساتھ ایک مجلس میں بیٹھا تو میں اپنے ساتھیوں سے شرم محسوس کر رہا تھا کہ وہ مجھے اس سے حدیث بیان کرنے کے ناپسندیدہ ہونے کے باوجود اس کے ساتھ بیٹھا دیکھیں اس کی حدیث ناپسندیدگی کی وجہ سے اور اس کی روایت میں نہ مقبولی کی وجہ سے- عبداللہ بن عثمان بن جبلہؒ کہتے ہیں، میں نے امام عبداللہ بن مبارکؒ سے پوچھا: یہ انسان کون ہے، جس سے آپ حضرت عبداللہ بن عمروؓ کی یہ حدیث بیان کرتے ہیں؟: ”عید الفطر کا دن انعامات کا دن ہے۔“ انھوں نے کہا: ”وہ سلیمان بن حجاج ہے، دیکھو میں نے اس سے تیرے ہاتھ میں کیسی چیز رکھ دی ہے! یعنی وہ ثقہ ہے، اور اس نے بہت عمدہ حدیث سنائی ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18927 و 18928)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني ابن قهزاذ، قال: سمعت وهبا، يقول: عن سفيان، عن ابن المبارك، قال: بقية صدوق اللسان ولكنه ياخذ عمن اقبل وادبرحَدَّثَنِي ابْنُ قُهْزَاذَ، قَالَ: سَمِعْتُ وَهْبًا، يَقُولُ: عَنِ سُفْيَانَ، عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: بَقِيَّةُ صَدُوقُ اللِّسَانِ وَلَكِنَّهُ يَأْخُذُ عَمَّنْ أَقْبَلَ وَأَدْبَرَ ابن قہزاذ نے کہا، میں نے وہب سے سنا، انہوں نے سفیان سے اور انہوں نے عبد اللہ بن مبارک سے روایت کی، کہا: بقیہ زبان کے سچے ہیں لیکن وہ ہر آنے جانے والے (علم حدیث میں مہارت رکھنے والے اور نہ رکھنے والے ہر شخص) سے حدیث لے لیتے ہیں۔ سفیانؒ کہتے ہیں ابنِ مبارک ؒ نے کہا: ”بقیہ بذاتِ خود زبان کا سچا ہے، لیکن وہ ہر آنے جانے والے سے روایات لے لیتا ہے۔“ یعنی: وہ ہر ثقہ اور ضعیف سے روایت بیان کرتا ہے۔ جانچ پڑتال اور امتیاز کی قوت سے محروم ہے، اس لیے محدثین اس کی روایت قبول نہیں کرتے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18929)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا جرير، عن مغيرة، عن الشعبي، قال: حدثني الحارث الاعور الهمداني وكان كذابا،حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَارِثُ الأَعْوَرُ الْهَمْدَانِيُّ وَكَانَ كَذَّابًا، قتیبہ بن سعید، جریر نے مغیرہ سے، انہوں نے شعبی سے روایت کی، کہا: مجھے حارث اعور ہمدانی نے حدیث سنائی اور وہ کذاب تھا۔ امام شعبیؒ کہتے ہیں: ”مجھے حارث اَعوَر ہمدانی نے حدیث سنائی اور وہ جھوٹا تھا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18870)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا ابو عامر عبد الله بن براد الاشعري، حدثنا ابو اسامة، عن مفضل، عن مغيرة، قال: سمعت الشعبي، يقول: حدثني الحارث الاعور، وهو يشهد انه احد الكاذبين،حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَرَّادٍ الأَشْعَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ مُفَضَّلٍ، عَنْ مُغِيرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي الْحَارِثُ الأَعْوَرُ، وَهُوَ يَشْهَدُ أَنَّهُ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ، ابو عامر عبداللہ بن براداشعری، ابو اسامہ، مفضل بن مغیرہ سے روایت کی، کہا: میں نے شعبی کو کہتے ہوئے سنا: مجھ سے حارث اعور نے روایت کی بیان کی اور (یہ کہ) وہ گواہی دیتے ہیں کہ وہ (حارث) جھوٹوں میں سے ایک تھا۔ امام شعبیؒ کہتے ہیں: ”مجھے حارث اعور نے حدیث سنائی اور وہ گواہی دیتے ہیں کہ وہ (اعور) جھوٹوں میں سے ایک ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18870)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا جرير، عن مغيرة، عن إبراهيم، قال: قال علقمة: قرات القرآن في سنتين، فقال الحارث: القرآن هين، الوحي اشد،حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: قَالَ عَلْقَمَةُ: قَرَأْتُ الْقُرْآنَ فِي سَنَتَيْنِ، فَقَالَ الْحَارِثُ: الْقُرْآنُ هَيِّنٌ، الْوَحْيُ أَشَدُّ، قتیبہ بن سعید، جریر، مغیرہ نے ابراہیم سے روایت کی، کہا: علقمہ نے کہا: میں نے دو سال میں قرآن پڑھا (تدبر کرتے ہوئے ختم کیا۔) تو حارث نے کہا: قرآن آسان ہے، وحی اس سے زیادہ مشکل ہے۔ ابراہیم نخعیؒ کہتے ہیں: حضرت علقمہ ؒ نے کہا: ”میں نے قرآن دو سال پڑھا، تو حارث نے کہا: قرآن آسان ہے، وحی بہت مشکل اور بھاری ہے۔“ یعنی: وہ راز کی باتیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حضرت علی رضی الله عنه کو بتائیں اور انھیں اپنا وصی بنایا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (000)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني حجاج بن الشاعر، حدثنا احمد يعني ابن يونس، حدثنا زائدة، عن الاعمش، عن إبراهيم، ان الحارث، قال: تعلمت القرآن في ثلاث سنين، والوحي في سنتين، او قال: الوحي في ثلاث سنين والقرآن في سنتين،وحَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ يَعْنِي ابْنَ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّ الْحَارِثَ، قَالَ: تَعَلَّمْتُ الْقُرْآنَ فِي ثَلَاثِ سِنِينَ، وَالْوَحْيَ فِي سَنَتَيْنِ، أَوَ قَالَ: الْوَحْيَ فِي ثَلَاثِ سِنِينَ وَالْقُرْآنَ فِي سَنَتَيْنِ، حجاج بن شاعر، احمد بن یونس نے ابراہیم نخعی سے روایت کی کہ حارث (اعور) نے کہا: میں نے قرآن تین سال میں سیکھا اور وحی دو سال میں (یا کہا): وحی تین سال میں اور قرآن دو سال میں۔لغت میں وحی کے کئی معانی ہیں، مثلاً: اشارہ کرنا، کتابت، الہام اور خفیہ کلام وغیرہ، مگر اسلامی اصطلاح میں وحی اللہ کی طرف سے مقررہ طریقوں میں سے کسی طریقے سے، اپنے رسول کی طرف کلام، پیغام وغیرہ بھجوانا ہے۔ حارث کی اس بات سے اسلامی اصطلاحات کے معاملے میں اس کی جہالت کا پتہ چلتا ہے۔ ابراہیم نخعیؒ کہتے ہیں: حارث نے کہا: ”میں نے قرآن مجید تین سال میں سیکھا اور وحی دو سال میں، یا کہا کہ وحی تین سال میں سیکھی اور قرآن دو سال میں۔“ (یہی قول حضرت علقمہؒ کو کہی ہوئی بات کے مطابق ہے۔)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18399)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني حجاج، قال: حدثني احمد وهو ابن يونس، حدثنا زائدة، عن منصور والمغيرة، عن إبراهيم، ان الحارث، اتهم.وحَدَّثَنِي حَجَّاجٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَحْمَدُ وَهُوَ ابْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ وَالْمُغِيرَةِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّ الْحَارِثَ، اتُّهِمَ. ۔ منصور اور مغیرہ نے ابراہیم سے روایت کی کہ حارث متہم راوی ہے ابراہیم نخعیؒ کہتے ہیں: ”حارث پر جھوٹ بولنے کا الزام ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18397)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا جرير، عن حمزة الزيات، قال: سمع مرة الهمداني، من الحارث شيئا، فقال له: اقعد بالباب، قال: فدخل مرة، واخذ سيفه، قال: واحس الحارث بالشر فذهب،وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ حَمْزَةَ الزَّيَّاتِ، قَالَ: سَمِعَ مُرَّةُ الْهَمْدَانِيُّ، مِنَ الْحَارِثِ شَيْئًا، فَقَالَ لَهُ: اقْعُدْ بِالْبَابِ، قَالَ: فَدَخَلَ مُرَّةُ، وَأَخَذَ سَيْفَهُ، قَالَ: وَأَحَسَّ الْحَارِثُ بِالشَّرِّ فَذَهَبَ، ۔ حمزہ زیات سے روایت ہے، کہا: مرہ ہمدانی نے حارث سے کوئی بات سنی تو اس سے کہا: تم دروازے ہی پر بیٹھو (اندر نہ آؤ)۔ پھر وہ (گھر میں) داخل ہوئے اور اپنی تلوار اٹھا لی تو حارث نے برا انجام محسوس کر لیا اور چل دیا۔ حمزہ زیاتؒ کہتے ہیں: مرہ ہمدانیؒ نے حارث سے کوئی بات سنی، تو اسے کہا: ”دروازے پر بیٹھو (میں ابھی اندر ہو کر آتا ہوں)“ چنانچہ وہ اپنے گھر میں داخل ہوئے اور اپنی تلوار اٹھا لی (تاکہ حارث کی گردن اڑا دیں)، حارث نے برائی کو بھانپ لیا، (سمجھ گیا کہ وہ اچھے ارادے سےاندر نہیں گئے) تو بھاگ گیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18597 و 19429)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني عبيد الله بن سعيد، حدثنا عبد الرحمن يعني ابن مهدي، حدثنا حماد بن زيد، عن ابن عون، قال: قال لنا إبراهيم إياكم والمغيرة بن سعيد، وابا عبد الرحيم، فإنهما كذابان،وحَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيد، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، قَالَ: قَالَ لَنَا إِبْرَاهِيمُ إِيَّاكُمْ وَالْمُغِيرَةَ بْنَ سَعِيدٍ، وَأَبَا عَبْدِ الرَّحِيمِ، فَإِنَّهُمَا كَذَّابَانِ، ۔ (عبد اللہ) بن عون سے روایت ہے، کہا: ابراہیم (نخعی) نے ہم سے کہا: تم لوگ مغیرہ بن سعید اور ابو عبد الرحیم سے بچ کر رہو، وہ کذاب ہیں ابنِ عون ؒ کہتے ہیں ہم سے ابراہیمؒ نے کہا: ”اپنے آپ کو مغیرہ بن سعید اور ابو عبدالرحیم سے دور رکھو! کیونکہ یہ دونوں جھوٹے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18398)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا ابو كامل الجحدري، حدثنا حماد وهو ابن زيد، قال: حدثنا عاصم، قال: كنا ناتي ابا عبد الرحمن السلمي، ونحن غلمة ايفاع، فكان يقول لنا لا تجالسوا القصاص، غير ابي الاحوص: وإياكم وشقيقا، قال: وكان شقيق هذا، يرى راي الخوارج، وليس بابي وائل،حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ وَهُوَ ابْنُ زَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، قَالَ: كُنَّا نَأْتِي أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيَّ، وَنَحْنُ غِلْمَةٌ أَيْفَاعٌ، فَكَانَ يَقُولُ لَنَا لَا تُجَالِسُوا الْقُصَّاصَ، غَيْرَ أَبِي الأَحْوَصِ: وَإِيَّاكُمْ وَشَقِيقًا، قَالَ: وَكَانَ شَقِيقٌ هَذَا، يَرَى رَأْيَ الْخَوَارِجِ، وَلَيْسَ بِأَبِي وَائِلٍ، ہمیں عاصم نے حدیث بیان کی، کہا: ہم بالکل نو عمر لڑکے تھے جو ابو عبد الرحمن سلمی کے پاس حاضر ہوتے تھے، وہ ہم سے کہا کرتے تھے: ابو احوص کے سوا دوسرے قصہ گوؤں (واعظوں) کی مجالس میں مت بیٹھو اور شقیق سے بچ کر رہو۔ شقیق خوارج کا نقطہ نظر رکھتا تھا، یہ ابو وائل نہیں (بلکہ شقیق ضبی ہے۔) عاصمؒ بیان کرتے ہیں: ہم ابو عبدالرحمٰن سلمیٰ ؒ کے پاس آتے تھے جب کہ ہم بالغ نو جوان تھے، تو وہ ہمیں کہا کرتے تھے: ”ابو الاحوصؒ کے سوا قصّہ خوانوں کے پاس نہ بیٹھا کرو! اور اپنے آپ کو شقیق سے بچاؤ اوراس شقیق کے نظریات خارجیوں والے تھے اور یہ شقیق ابو وائل شقیق بن سلمہ اسدی نہیں ہے (کیونکہ وہ تو کبار تابعین میں سے ہے)۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18897)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا ابو غسان محمد بن عمرو الرازي، قال: سمعت جريرا، يقول:" لقيت جابر بن يزيد الجعفي، فلم اكتب عنه، كان يؤمن بالرجعة.حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّازِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ جَرِيرًا، يَقُولُ:" لَقِيتُ جَابِرَ بْنَ يَزِيدَ الْجُعْفِيَّ، فَلَمْ أَكْتُبْ عَنْهُ، كَانَ يُؤْمِنُ بِالرَّجْعَةِ. جریر کہتے ہیں: میں جابر بن یزید جعفی سے ملا تو میں نے اس سے حدیث نہ لکھی، وہ رجعت پر ایمان رکھتا تھا۔ جریرؒ کہتے ہیں: ”میں جابر بن یزید جعفی سے ملا، لیکن میں نے اس سے حدیثیں نہیں لکھیں، کیونکہ وہ رجعت پر ایمان رکھتا تھا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18476)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا الحسن الحلواني، حدثنا يحيي بن آدم، حدثنا مسعر، قال: حدثنا جابر بن يزيد، قبل ان يحدث ما احدث.حَدَّثَنَا الْحَسَنُ الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ يَزِيدَ، قَبْلَ أَنْ يُحْدِثَ مَا أَحْدَثَ. ۔ مسعر نے کہا: ہم سے جابر بن یزید (جعفی) نے ان بدعتوں سے پہلے، جو اس نے گھڑیں، حدیث بیان کی۔ مسعرؒ کہتے ہیں: ”جابر بن یزید نے ہمیں احادیث سنائیں، ان بدعات سے پہلے جو اس نے ایجاد کر لی ہیں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسل - انظر ((التحفة)) برقم (19437)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني سلمة بن شبيب، حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، قال: كان الناس يحملون، عن جابر، قبل ان يظهر ما اظهر، فلما اظهر ما اظهر، اتهمه الناس في حديثه، وتركه بعض الناس، فقيل له: وما اظهر؟ قال: الإيمان بالرجعة،وحَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: كَانَ النَّاسُ يَحْمِلُونَ، عَنْ جَابِر، قَبْلَ أَنْ يُظْهِرَ مَا أَظْهَرَ، فَلَمَّا أَظْهَرَ مَا أَظْهَرَ، اتَّهَمَهُ النَّاسُ فِي حَدِيثِهِ، وَتَرَكَهُ بَعْضُ النَّاسِ، فَقِيلَ لَهُ: وَمَا أَظْهَرَ؟ قَالَ: الإِيمَانَ بِالرَّجْعَةِ، سفیان نے کہا: جابر نے جس (عقیدے) کا اظہار کیا اس کے اظہار سے پہلے لوگ اس سے حدیث لیتے تھے، جب اس نے اس کا اظہار کر دیا تو لوگوں نے اسے اس کی (بیان کردہ) حدیث کے بارے میں مطعون کیا اور بعض نے اسے چھوڑ دیا۔ ان سے پوچھا گیا: اس نے کس چیز کا سفیانؒ کہتے ہیں: ”لوگ جابر سے احادیث لے لیتے تھے، جب کہ ابھی اس نے اپنی بدعت کا اظہار نہیں کیا تھا، تو جب اس نے اپنی بدعت (بد اعتقادی) نمایاں کر دی، لوگوں نے اس پر حدیث میں جھوٹ بولنے کا الزام لگایا، اور بعض لوگوں نے اسے چھوڑ دیا۔“ سفیانؒ سے پوچھا گیا: اس نے کس چیز کا اظہار کیا تھا؟ انھوں نے جواب دیا: ”وہ رجعت پر ایمان لے آیا تھا۔ (اور اس کی حمایت میں حدیثیں وضع کرنا شروع کر دی تھیں)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18774)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا حسن الحلواني، حدثنا ابو يحيى الحماني، حدثنا قبيصة، واخوه، انهما سمعا الجراح بن مليح، يقول: سمعت جابرا، يقول: عندي سبعون الف حديث، عن ابي جعفر، عن النبي صلى الله عليه وسلم كلها.وحَدَّثَنَا حَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَى الْحِمَّانِيُّ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، وَأَخُوهُ، أنهما سمعا الجراح بن مليح، يَقُولُ: سَمِعْتُ جَابِرًا، يَقُولُ: عِنْدِي سَبْعُونَ أَلْفَ حَدِيثٍ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلُّهَا. ۔ جراح بن ملیح کہتے ہیں: میں نے جابر بن یزید (جعفی) کو یہ کہتے سنا: میرے ابو جعفر (محمد باقر بن علی بن حسین بن علی رضی اللہ عنہ) کی ستر ہزار حدیثیں ہیں جو سب کی سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (روایت کی گئی) ہیں۔ جراح بن ملیحؒ کہتے ہیں: میں نے جابر کو یہ کہتے ہوئے سنا: ”مجھے ابو جعفرؒ (امام محمد باقر) سے ستر ہزار احادیث یاد ہیں۔ وہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18475)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني حجاج بن الشاعر، حدثنا احمد بن يونس، قال: سمعت زهيرا، يقول: قال جابر او سمعت جابرا، يقول: إن عندي لخمسين الف حديث، ما حدثت منها بشيء.قال ثم حدث يوما بحديث، فقال: هذا من الخمسين الفا.وحَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: سَمِعْتُ زُهَيْرًا، يَقُولُ: قَالَ جَابِرٌ أَوْ سَمِعْتُ جَابِرًا، يَقُولُ: إِنَّ عِنْدِي لَخَمْسِينَ أَلْفَ حَدِيثٍ، مَا حَدَّثْتُ مِنْهَا بِشَيْءٍ.قَالَ ثُمَّ حَدَّثَ يَوْمًا بِحَدِيثٍ، فَقَالَ: هَذَا مِنَ الْخَمْسِينَ أَلْفًا. ۔ زہیر کہتے ہیں: جابر نے کہا یا میں نے جابر (بن یزید) کو یہ کہتے سنا: بلاشبہ میرے پاس پچاس ہزار حدیثیں (ایسی) ہیں جن میں سے میں نے کوئی حدیث بیان نہیں کی، پھر ایک دن اس نے ایک حدیث بیان کی اور کہا: یہ (ان) پچاس ہزار حدیثوں میں سے (ایک) ہے۔ زہیرؒ کہتے ہیں: جابر نے کہا: ”میرے پاس پچاس ہزار احادیث ایسی ہیں کہ میں نے ان میں سے کوئی حدیث نہیں سنائی۔“ پھر ایک دن ایک حدیث بیان کی اور کہا، ”یہ ان ہی پچاس ہزار میں سے ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني إبراهيم بن خالد اليشكري، قال: سمعت ابا الوليد، يقول: سمعت سلام بن ابي مطيع، يقول: سمعت جابرا الجعفي، يقول: عندي خمسون الف حديث، عن النبي صلى الله عليه وسلم.وحَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ الْيَشْكُرِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْوَلِيدِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ سَلَّامَ بْنَ أَبِي مُطِيعٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ جَابِرًا الْجُعْفِيَّ، يَقُولُ: عِنْدِي خَمْسُونَ أَلْفَ حَدِيثٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. سلام بن ابی مطیع کہتے ہیں: میں نے جابر جعفی کو یہ کہتے سنا: میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (روایت کردہ) پچاس ہزار احادیث ہیں۔ سلام بن ابی مطیعؒ کہتے ہیں: میں نے جابر جعفی کو یہ کہتے ہوئے سنا: ”میرے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پچاس ہزار احادیث ہیں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18797)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني سلمة بن شبيب، حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، قال: سمعت رجلا سال جابرا، عن قوله عز وجل فلن ابرح الارض حتى ياذن لي ابي او يحكم الله لي وهو خير الحاكمين سورة يوسف آية 80، فقال جابر: لم يجئ تاويل هذه، قال سفيان: وكذب.فقلنا لسفيان: وما اراد بهذا، فقال: إن الرافضة، تقول: إن عليا في السحاب، فلا نخرج مع من خرج من ولده، حتى ينادي مناد من السماء، يريد عليا انه ينادي، اخرجوا مع فلان. يقول جابر: فذا تاويل هذه الآية، وكذب، كانت في إخوة يوسف عليه السلام"وحَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا سَأَلَ جَابِرًا، عَنْ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ فَلَنْ أَبْرَحَ الأَرْضَ حَتَّى يَأْذَنَ لِي أَبِي أَوْ يَحْكُمَ اللَّهُ لِي وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ سورة يوسف آية 80، فَقَالَ جَابِرٌ: لَمْ يَجِئْ تَأْوِيلُ هَذِهِ، قَالَ سُفْيَانُ: وَكَذَبَ.فَقُلْنَا لِسُفْيَانَ: وَمَا أَرَادَ بِهَذَا، فَقَالَ: إِنَّ الرَّافِضَةَ، تَقُولُ: إِنَّ عَلِيًّا فِي السَّحَابِ، فَلَا نَخْرُجُ مَعَ مَنْ خَرَجَ مِنْ وَلَدِهِ، حَتَّى يُنَادِيَ مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ، يُرِيدُ عَلِيًّا أَنَّهُ يُنَادِي، اخْرُجُوا مَعَ فُلَانٍ. يَقُولُ جَابِرٌ: فَذَا تَأْوِيلُ هَذِهِ الآيَةِ، وَكَذَبَ، كَانَتْ فِي إِخْوَةِ يُوسُفَ عَلَيْهِ السَّلامُ" سفیان (بن عیینہ) نے کہا: میں نے ایک آدمی سے سنا، اس نے جابر سے ارشاد ربانی: ﴿فلن أبرح الأرض حتی یأذن لی أبی أو یحکم اللہ لی وہو خیر الحاکمین﴾ ”اب میں اس زمین سے ہرگز نہ ہلوں گا یہاں تک کہ میرا باپ مجھے اجازت دے یا اللہ میرے لیے فیصلہ کر دے اور وہ سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔“ کے بارے میں سوال، تو جابر نے کہا: اس کی تفسیر ابھی ظاہر نہیں ہوئی۔ سفیان نے کہا: اور اس نے یہ جھوٹ بولا۔ تو ہم نے سفیان سے کہا: اس سے مراد اس کی کیا تھی؟ انہوں نے کہا: روافض کہتے ہیں: حضرت علی رضی اللہ عنہ بادلوں میں ہیں۔ ان کی اولاد میں سے جو کوئی خروج کرے گا ہم اس کے ساتھ خروج نہیں کریں گے حتیٰ کہ آسمان کی طرف سے پکارنے والا (اس کی مراد علی سے ہے) پکارے۔ یقیناً وہی پکارے گا کہ فلاں کے ساتھ (مل کر) خروج کرو۔ جابر کہتا تھا: یہ اس آیت کی تفسیر ہے اور اس نے جھوٹ کہا۔ یہ آیت حضرت یوسف رضی اللہ عنہ کے بھائیوں کے بارے میں (نازل ہوئی) تھی۔ سفیانؒ کہتے ہیں: میں نے ایک آدمی سے سنا، اس نے جابر سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا معنی پوچھا: ”میں تو اس سر زمین سے کبھی نہ جاؤں گا حتٰی کہ میرا باپ مجھے اجازت دے، یا اللہ میرے حق میں فیصلہ فرما دے اور وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔“ تو جابر نے کہا: ”اس کی حقیقت یا اس کا مصداق ابھی تک ظاہر نہیں ہوا۔“ سفیانؒ کہتے ہیں: ”اس نے جھوٹ بولا ہے (کیونکہ اس واقعہ کا تعلق تو حضرت یوسفؑ کے بھائی کے ساتھ ہے)“ ہم نے سفیانؒ سے پوچھا: یہ کہنے سے اس کا مقصد کیا تھا؟ تو انھوں نے کہا: ”رافضیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت علیؓ بادل میں ہیں، ہم ان کی اولاد میں سے کسی کے ساتھ نہیں نکلیں گے، یہاں تک کہ آسمان سے ایک منادی کرنے والا آواز دے گا، یعنی: حضرت علیؓ آواز دیں گے: فلاں کے ساتھ نکلو (اس کے ساتھ ہم نکلیں گے)۔“ جابر کہتے ہیں: اس آیت کی حقیقت یا مصداق یہی ہے، اور اس نے جھوٹ بولا ہے، ”یہ آیت تو حضرت یوسف ؑ کے بھائیوں کے بارے میں ہے (یہ بات ان کے بڑے بھائی نے کہی تھی، جس کی تفصیل اور پس منظر قرآن مجید میں موجود ہے)۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18774)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني سلمة، حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، قال: سمعت جابرا، يحدث بنحو من ثلاثين الف حديث، ما استحل ان اذكر منها شيئا وان لي كذا وكذا، قال مسلم: وسمعت ابا غسان محمد بن عمرو الرازي، قال: سالت جرير بن عبد الحميد، فقلت: الحارث بن حصيرة لقيته؟ قال: نعم، شيخ طويل السكوت، يصر على امر عظيم.وحَدَّثَنِي سَلَمَةُ، حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرًا، يُحَدِّثُ بِنَحْوٍ مِنْ ثَلَاثِينَ أَلْفَ حَدِيثٍ، مَا أَسْتَحِلُّ أَنْ أَذْكُرَ مِنْهَا شَيْئًا وَأَنَّ لِي كَذَا وَكَذَا، قَالَ مُسْلِم: وَسَمِعْتُ أَبَا غَسَّانَ مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرٍو الرَّازِيَّ، قَالَ: سَأَلْتُ جَرِيرَ بْنَ عَبْدِ الْحَمِيدِ، فَقُلْتُ: الْحَارِثُ بْنُ حَصِيرَةَ لَقِيتَهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، شَيْخٌ طَوِيلُ السُّكُوتِ، يُصِرُّ عَلَى أَمْرٍ عَظِيمٍ. سفیان سے روایت ہے، کہا: میں نے جابر کو تقریباً تیس ہزار احادیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے۔ میں ان میں سے ایک حدیث بیان کرنا بھی حلال نہیں سمجھتا، چاہے (اس کے بدلے) میرے لیے اتنا اور اتنا ہو۔ (امام) مسلم نے کہا: میں نے ابو غسان محمد بن عمرو رازی سے سنا، کہا: میں نے جریر بن عبد الحمید سے پوچھا، میں نے کہا: (یہ جو) حارث بن حصیرہ ہے، آپ اس سے ملے ہیں؟ کہا: ہاں، لمبی خاموشی والا بوڑھا ہے۔ ایک بہت بڑی بات پر اصرار کرتا ہے۔ سفیانؒ کہتے ہیں: ”میں نے جابر کو تقریباً تیس ہزار احادیث بیان کرتے سنا، اور میں اتنی اتنی دولت لے کر بھی ان میں سے کسی ایک کو بیان کرنا حلال نہیں سمجھتا (کیونکہ وہ سب موضوع اور جعلی ہیں)۔“ ابو غسان محمد بن عمرو رازیؒ کہتے ہیں: ”میں نے جریر بن عبدالحمیدؒ سے پوچھا: آپ حارث بن حصیرہ کو ملے ہیں؟ انھوں نے کہا: ہاں! وہ بوڑھا ہے، بہت خاموش (چپ چپ) رہتا ہے۔ ایک انتہائی ناگوار عقیدہ پر اصرار کرتا ہے۔ یعنی رجعت پر ایمان رکھتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18477 و 18774)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني احمد بن إبراهيم الدورقي، قال: حدثني عبد الرحمن بن مهدي، عن حماد بن زيد، قال: ذكر ايوب رجلا يوما، فقال: لم يكن بمستقيم اللسان، وذكر آخر، فقال: هو يزيد في الرقمحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: ذَكَرَ أَيُّوبُ رَجُلًا يَوْمًا، فَقَالَ: لَمْ يَكُنْ بِمُسْتَقِيمِ اللِّسَانِ، وَذَكَرَ آخَرَ، فَقَالَ: هُوَ يَزِيدُ فِي الرَّقْمِ عبد الرحمان بن مہدی نے حماد بن زید سے روایت کی، کہا: ایوب نے ایک دن ایک شخص کا ذکر کیا اور کہا: وہ کج زبان (جھوٹا، تہمت تراش اور بد زبان) تھا اور دوسرے کا ذکر کیا تو کہا: وہ رقم (اشیاء پر لکھی ہوئی قیمت) میں اضافہ کر دیتا تھا۔ حماد بن زیدؒ کہتے ہیں: ایّوبؒ نےایک دن ایک آدمی کا تذکرہ کیا، چنانچہ کہا: ”اس کی زبان درست نہیں ہے، یعنی: جھوٹا ہے۔“ ایک اور آدمی کا تذکرہ کیا، تو کہا: ”وہ تحریر میں اضافہ کرتا ہے، یعنی حدیث میں اضافہ کرتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18443)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني حجاج بن الشاعر، حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، قال: قال ايوب: إن لي جارا، ثم ذكر من فضله، ولو شهد عندي على تمرتين، ما رايت شهادته جائزة،حَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: قَالَ أَيُّوبُ: إِنَّ لِي جَارًا، ثُمَّ ذَكَرَ مِنْ فَضْلِهِ، وَلَوْ شَهِدَ عِنْدِي عَلَى تَمْرَتَيْنِ، مَا رَأَيْتُ شَهَادَتَهُ جَائِزَةً، سلیمان بن حرب نے کہا: ہمیں حماد بن زید نے بیان کیا، کہا: ایوب نے کہا: میرا ایک ہمسایہ ہے، پھر (زہد وورع میں) اس کی فضیلت کا ذکر کیا، اگر وہ میرے سامنے دو کجھوروں کے بارے میں گواہی دے تو میں (اس میں بھی) اس کی شہادت قابل قبول نہ سمجھوں گا۔ حماد بن زیدؒ کہتے ہیں: ایوبؒ نے کہا: ”میرا ایک پڑوسی ہے، پھر اس کے فضائل اورخوبیاں بیان کیں، اور اگر وہ میرے سامنے دو کھجوروں کے بارے میں گواہی دے تو میں اس کی گواہی کو معتبر قرار نہیں دوں گا۔“ (کیونکہ وہ جھوٹا ہے)۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18444)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني محمد بن رافع وحجاج بن الشاعر، قالا: حدثنا عبد الرزاق، قال: قال معمر: ما رايت ايوب اغتاب احدا قط، إلا عبد الكريم يعني ابا امية، فإنه ذكره، فقال رحمه الله: كان غير ثقة، لقد سالني، عن حديث لعكرمة، ثم قال: سمعت عكرمة،وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ وَحَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: قَالَ مَعْمَرٌ: مَا رَأَيْتُ أَيُّوبَ اغْتَابَ أَحَدًا قَطُّ، إِلَّا عَبْدَ الْكَرِيمِ يَعْنِي أَبَا أُمَيَّةَ، فَإِنَّهُ ذَكَرَهُ، فَقَالَ رَحِمَهُ اللَّهُ: كَانَ غَيْرَ ثِقَةٍ، لَقَدْ سَأَلَنِي، عَنْ حَدِيثٍ لِعِكْرِمَةَ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ، معمر نے کہا .’میں نے ایورب کو کبھی کسی کی پیٹھ پیچھے اسے برا کہتے نہیں سنا، سوائے عبدالکریم، یعنی ابو امیہ کے۔انھوں نے اس کا ذکر کیا تو کہا .’اللہ اس پر رحم کرے، غیر ثقہ ہے، اس نے مجھ سے عکرمہ سے روایت کی گئی ایک حدیث کے بارے میں سوال کیا، پھر (لوگوں سے) کہا: میں نے عکرمہ سے سنا ہے۔ معمرؒ کہتے ہیں: ”میں نے ایوبؒ کو کسی کی غیبت کرتے نہیں دیکھا سوائے عبدالکریم، یعنی: ابو امیّہ کے، کیونکہ ایوبؒ نے اس کا تذکرہ کرنے کے بعد کہا: ”اللہ اس پر رحم فرمائے! وہ ثقہ نہیں تھا، اس نے مجھ سے عکرمہؒ کی ایک حدیث دریافت کی، پھر کہنے لگا: میں نے عکرمہؒ سے سنا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (18445)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني الفضل بن سهل، قال: حدثنا عفان بن مسلم، حدثنا همام، قال: قدم علينا ابو داود الاعمى فجعل، يقول: حدثنا البراء، قال: وحدثنا زيد بن ارقم، فذكرنا ذلك لقتادة، فقال: كذب ما سمع منهم إنما كان ذلك سائلا، يتكفف الناس زمن طاعون الجارف،حَدَّثَنِي الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، قَالَ: قَدِمَ عَلَيْنَا أَبُو دَاوُدَ الأَعْمَى فَجَعَلَ، يَقُولُ: حَدَّثَنَا الْبَرَاءُ، قَالَ: وَحَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ، فَذَكَرْنَا ذَلِكَ لِقَتَادَةَ، فَقَالَ: كَذَبَ مَا سَمِعَ مِنْهُمْ إِنَّمَا كَانَ ذَلِكَ سَائِلًا، يَتَكَفَّفُ النَّاسَ زَمَنَ طَاعُونِ الْجَارِفِ، عفان بن مسلم نے کہا: ہمام نے ہم سے بیان کیا، کہا: ابو داود اعمیٰ ہمارے ہاں آیا اور یہ کہنا شروع کر دیا: ہمیں براء رضی اللہ عنہ نے حدیث سنائی اور ہمیں زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی۔ ہم نے یہ بات قتادہ کو بتائی، انہوں نے کہا: اس نے جھوٹ بولا۔ اس نے ان سے نہیں سنا، وہ تو ایک منگتا تھا، انسانوں کی بیخ کنی کرنے والے طاعون (کے دوران) میں لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا پھرتا تھا ہمامؓ کہتے ہیں: ہمارے پاس ابو داؤد اعمیٰ آیا اور کہنے لگا: ہمیں براءؓ نے حدیث سنائی ہمیں زید بن ارقمؓ نے حدیث سنائی۔ چنانچہ اس واقعہ کا تذکرہ ہم نے قتادہؒ سے کیا، تو اس نے کہا: ”جھوٹ بولتا ہے، اس نے کسی صحابی سے نہیں سنا۔ یہ تو مانگت (سوالی) تھا۔ تباہ کن طاعون کے وقت لوگوں کے سامنے بھیک مانگنے کے لیے ہاتھ پھیلاتا تھا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة الاشراف)) برقم (19213)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني حسن بن علي الحلواني، قال: حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا همام، قال: دخل ابو داود الاعمى، على قتادة، فلما قام، قالوا: إن هذا يزعم انه لقي ثمانية عشر بدريا، فقال قتادة: هذا كان سائلا قبل الجارف، لا يعرض في شيء من هذا، ولا يتكلم فيه، فوالله ما حدثنا الحسن، عن بدري مشافهة، ولا حدثنا سعيد بن المسيب، عن بدري مشافهة، إلا عن سعد بن مالك،وحَدَّثَنِي حَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ، قَالَ: دَخَلَ أَبُو دَاوُدَ الأَعْمَى، عَلَى قَتَادَةَ، فَلَمَّا قَامَ، قَالُوا: إِنَّ هَذَا يَزْعُمُ أَنَّهُ لَقِيَ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ بَدْرِيًّا، فَقَالَ قَتَادَةُ: هَذَا كَانَ سَائِلًا قَبْلَ الْجَارِفِ، لَا يَعْرِضُ فِي شَيْءٍ مِنْ هَذَا، وَلَا يَتَكَلَّمُ فِيهِ، فَوَاللَّهِ مَا حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، عَنْ بَدْرِيٍّ مُشَافَهَةً، وَلَا حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، عَنْ بَدْرِيٍّ مُشَافَهَةً، إِلَّا عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ، یزید بن ہارون نے کہا: ہمیں ہمام نے خبر دی کہ ابو داود اعمیٰ قتادہ کے ہاں آیا، جب وہ کھڑا ہوا (اور چلا گیا) تو لوگوں نے کہا: اسے یہ زعم ہے کہ اس نے اٹھارہ بدری صحابہ سے ملاقات کی۔ اس پر قتادہ کہنے لگے: (طاعون کی) وبائے عام سے پہلے یہ ایک منگتا تھا، اس کا (علم حدیث) ایسی کسی چیز سے کوئی سروکار نہ تھا، وہ اس بارے میں بات تک نہ کرتا تھا۔ بخدا نہ حسن (بصری) نے (کبھی) کسی بدری سے بلاواسطہ حدیث ہمیں سنائی نہ سعید بن مسیب نے ایک سعد بن مالک رضی اللہ عنہ کے سوا کسی اور بدری سے براہ راست سنی ہوئی کوئی حدیث سنائی ہمامؒ کہتے ہیں: ابو داؤد اعمیٰ، قتادہؒ کے ہاں آیا، پھر جب وہ چلا گیا، تو حاضرین نے کہا: اس کا دعویٰ ہے کہ میں اٹھارہ بدری صحابیوں کو ملا ہوں، تو قتادہؒ نے کہا: ”یہ تو طاعون سے پہلے مانگتا تھا، ان احادیث سے اس کو کچھ دلچسپی یا واسطہ نہ تھا، اور نہ ان کے بارے میں گفتگو کرتا تھا۔ اللہ کی قسم! ہمیں حسن بصریؒ نے کسی بدری صحابی سے براہِ راست سن کر حدیث نہیں سنائی، اور نہ ہی سعید بن المسیبؒ نے ہمیں کسی بدری سے روبرو سن کر حدیث سنائی، سوائے حضرت سعد بن مالکؓ (ابی وقاص) کے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة الاشراف)) برقم (18720 و 19212)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا جرير، عن رقبة، ان ابا جعفر الهاشمي المدني، كان يضع احاديث كلام حق، وليست من احاديث النبي صلى الله عليه وسلم، وكان يرويها عن النبي صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ رَقَبَةَ، أَنَّ أَبَا جَعْفَرٍ الْهَاشِمِيَّ الْمَدَنِيَّ، كَانَ يَضَعُ أَحَادِيثَ كَلَامَ حَقٍّ، وَلَيْسَتْ مِنْ أَحَادِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ يَرْوِيهَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. جریر نے رقبہ (بن مسقلہ بن عبد اللہ عبدی کوفی رضی اللہ عنہ جلیل القدر تابعی) سے روایت کی کہ ابو جعفر (عبد اللہ بن مسعود بن عون بن جعفر بن ابی طالب) ہاشمی مدائنی احادیث گھڑا کرتا تھا، سچائی (یا حکمت) پر مبنی کلام (پیش کرتا) وہ کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین میں سے نہ ہوتا تھا لیکن اسے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتا تھا۔ رقبہؒ کہتے ہیں: ”ابو جعفر ہاشمی مدنی حق اور سچی باتوں کو احادیث بنا کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتا تھا، جبکہ وہ احادیث نبوی نہیں ہیں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18650)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا الحسن الحلواني، قال: حدثنا نعيم بن حماد، قال ابو إسحاق إبراهيم بن محمد بن سفيان وحدثنا محمد بن يحيى، قال: حدثنا نعيم بن حماد، حدثنا ابو داود الطيالسي، عن شعبة، عن يونس بن عبيد، قال: كان عمرو بن عبيد يكذب في الحديث.حَدَّثَنَا الْحَسَنُ الْحُلْوَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ أَبُو إِسْحَاق إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سُفْيَانَ وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، قَالَ: كَانَ عَمْرُو بْنُ عُبَيْدٍ يَكْذِبُ فِي الْحَدِيثِ. ابو داود طیالسی نے شعبہ سے، انہوں نے یونس بن عبید سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا، (یونس نے) کہا: عمرو بن عبید (معروف معتزلی جو پہلے حضرت حسن بصری کی مجلس میں حاضر رہا کرتا تھا) حدیث (کی روایت) میں جھوٹ بولا کرتا تھا۔ یونس بن عبیدہؒ کہتے ہیں: ”عمرو بن عبید (معتزلی) حدیث میں جھوٹ بولتا تھا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (19559)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني عمرو بن علي ابو حفص، قال: سمعت معاذ بن معاذ، يقول: قلت لعوف بن ابي جميلة: إن عمرو بن عبيد، حدثنا، عن الحسن، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: من حمل علينا السلاح فليس منا، قال: كذب والله عمرو ولكنه اراد، ان يحوزها إلى قوله الخبيثحَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ أَبُو حَفْصٍ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاذَ بْنَ مُعَاذٍ، يَقُولُ: قُلْتُ لِعَوْفِ بْنِ أَبِي جَمِيلَةَ: إِنَّ عَمْرَو بْنَ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا، عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلَاحَ فَلَيْسَ مِنَّا، قَالَ: كَذَبَ وَاللَّهِ عَمْرٌو وَلَكِنَّهُ أَرَادَ، أَنْ يَحُوزَهَا إِلَى قَوْلِهِ الْخَبِيثِ معاذ بن معاذ کہتے ہیں: میں نے عوف بن ابی جمیلہ سے کہا: عمرو بن عبید نے حضرت حسن بصری سے (روایت کرتے ہوئے) یہ حدیث سنائی: ”جس نے ہم پر ہتھیار اٹھایا تو وہ ہم میں سے نہیں۔“ انہوں نے کہا: بخدا! عمرو نے (اس حدیث کی روایت حسن بصری کی طرف منسوب کرنے میں) جھوٹ بولا لیکن وہ چاہتا ہے کہ اس (صحیح حدیث) کو اپنی جھوٹی بات سے ملا دے۔ معاذ بن معاذؒ کہتے ہیں: میں نے عوف بن ابی جمیلہؒ سے پوچھا: عمرو بن عبید ہمیں حسن بصریؒ سے یہ حدیث بیان کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ہم پر ہتھیار اٹھائے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“ عوفؒ نے قسم اٹھا کر کہا: ”عمرو جھوٹا ہے، لیکن اس کا مقصد یہ ہے کہ اس حدیث سے اپنے خبیث نظریہ کو تقویت پہنچائے، اور اس کو ثابت کرے۔“ (حَوَزَ کا معنی ہے جمع کرنا، اکٹھا کرنا)-
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (19182)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا عبيد الله بن عمر القواريري، حدثنا حماد بن زيد، قال: كان رجل، قد لزم ايوب وسمع منه، ففقده ايوب، فقالوا: يا ابا بكر، إنه قد لزم عمرو بن عبيد، قال حماد: فبينا انا يوما مع ايوب، وقد بكرنا إلى السوق، فاستقبله الرجل فسلم عليه ايوب، وساله، ثم قال له ايوب: بلغني انك لزمت ذاك الرجل.قال حماد: سماه يعني عمرا؟ قال: نعم يا ابا بكر، إنه يجيئنا باشياء غرائب، قال: يقول له ايوب: إنما نفر او نفرق من تلك الغرائب،وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: كَانَ رَجُلٌ، قَدْ لَزِمَ أَيُّوبَ وَسَمِعَ مِنْهُ، فَفَقَدَهُ أَيُّوبُ، فَقَالُوا: يَا أَبَا بَكْرٍ، إِنَّهُ قَدْ لَزِمَ عَمْرَو بْنَ عُبَيْدٍ، قَالَ حَمَّادٌ: فَبَيْنَا أَنَا يَوْمًا مَعَ أَيُّوبَ، وَقَدْ بَكَّرْنَا إِلَى السُّوقِ، فَاسْتَقْبَلَهُ الرَّجُلُ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ أَيُّوبُ، وَسَأَلَهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُ أَيُّوبُ: بَلَغَنِي أَنَّكَ لَزِمْتَ ذَاكَ الرَّجُلَ.قَالَ حَمَّادٌ: سَمَّاهُ يَعْنِي عَمْرًا؟ قَالَ: نَعَمْ يَا أَبَا بَكْرٍ، إِنَّهُ يَجِيئُنَا بِأَشْيَاءَ غَرَائِبَ، قَالَ: يَقُولُ لَهُ أَيُّوبُ: إِنَّمَا نَفِرُّ أَوْ نَفْرَقُ مِنْ تِلْكَ الْغَرَائِبِ، ۔ عبید اللہ بن عمر قواریری نے کہا: ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، کہا: ایک آدمی تھا، وہ ایوب (سختیانی کی علمی مجلس میں حاضری) کا التزام کرتا تھا اور اس نے ان سے (حدیث کا) سماع کیا تھا۔ ایوب نے اسے غیر حاضر پا کر اس کے بارے میں پوچھا تو لوگوں نے بتایا: جناب ابو بکر (ایوب کی کنیت)! وہ عمرو بن عبید سے منسلک ہو گیا ہے۔ حماد نے کہا: ایک دن میں ایوب کے ساتھ تھا، ہم صبح سویرے بازار کی طرف گئے تو اس آدمی نے ایوب کا استقبال کیا۔ ایوب نے اسے سلام کہا اور (حال احوال) پوچھا، پھر ایوب کہنے لگے: مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تم اس آدمی کے ساتھ منسلک ہو گئے ہو۔ حماد نے کہا: انہوں نے اس کا، یعنی عمرو کا نام لیا۔ وہ کہنےلگا: ہاں، جناب ابو بکر! وہ غرائب (ایسی باتیں جنہیں کوئی نہیں جانتا) ہمارے سامنے لاتا ہے۔ کہا: ایوب اس سے کہنے لگے: ہم انہی (عجیب و) غریب باتوں سے بھاگتے ہیں یا ڈرتے ہیں (کہ یہ جھوٹی اور من گھڑت ہوتی ہیں۔) حماد بن زیدؒ کہتے ہیں: ایک آدمی ہمیشہ ایوبؒ کے ساتھ رہتا اور ان سے حدیث سنتا تھا۔ چنانچہ ایوب ؒ نے اسے گم پایا (تو ساتھیوں سے پوچھا) تو حاضرین ِ مجلس نے کہا: اے ابو بکر! وہ تو عمرو بن عبید کے ساتھ چپک گیا ہے، یعنی اس کا ہم نشیں بن گیا ہے، ہم علم ہوگیا ہے۔ حمادؒ کہتے ہیں: جب کہ ایک دن میں صبح سویرے ایوبؒ کے ساتھ بازار کی طرف جا رہا تھا، تو سامنے سے وہ شخص آ گیا، چنانچہ ایوبؒ نے اسے سلام کہا اور حال احوال پوچھا، پھر ایوبؒ نے اس سے کہا: ”مجھ تک یہ بات پہنچی ہے، تو اس آدمی کا ہم نشین ہو گیا ہے؟“ حمادؒ کہتے ہیں: ایوبؒ نے عمرو کانام لیا، اس نے کہا: ہاں اے ابو بکر! کیونکہ وہ ہمیں عجیب و غریب باتیں سناتا ہے۔ ایوبؒ نے اس سے کہا: ”ان ہی عجائب سے تو ہم بھاگتے، یا ڈرتے ہیں۔“ (کیونکہ ان غرائب کو احادیث بتانا جھوٹ ہے، اور اگر یہ آراء یا اقوال ہیں تو بد عت ہیں۔)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (18446)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني حجاج بن الشاعر، حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا ابن زيد يعني حمادا، قال: قيل لايوب: إن عمرو بن عبيد روى، عن الحسن، قال: لا يجلد السكران من النبيذ، فقال: كذب، انا سمعت الحسن، يقول: يجلد السكران من النبيذ،وحَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ زَيْدٍ يَعْنِي حَمَّادًا، قَالَ: قِيلَ لِأَيُّوبَ: إِنَّ عَمْرَو بْنَ عُبَيْدٍ رَوَى، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: لَا يُجْلَدُ السَّكْرَانُ مِنَ النَّبِيذِ، فَقَالَ: كَذَبَ، أَنَا سَمِعْتُ الْحَسَنَ، يَقُولُ: يُجْلَدُ السَّكْرَانُ مِنَ النَّبِيذِ، سلیمان بن حرب نے کہا: ہم سے ابن زید، یعنی حماد نے بیان کیا، کہا: ایوب سے عرض کی گئی: عمرو بن عبید نے حضرت حسن بصری سے روایت بیان کی کہے (کہ انہوں نے) کہا: جسے نبیذ (شراب) سے نشہ ہو جائے اسے کوڑے نہ مارے جائں۔ تو انہوں نے (ایوب سختیانی) نے کہا: اس نے جھوٹ بولا، میں نے (خود) حسن سے سنا، وہ کہتےتھے: جسے نبیذ سے نشہ ہو جائے اسے کوڑے مارے جائیں۔ حماد بن زیدؒ کہتے ہیں: ایوبؒ کو بتایا گیا: کہ عمرو بن عبید، حسن بصریؒ سے نقل کرتا ہے ”کہ نبیذ سے نشہ آنے پر نشئی کو حد (کوڑے) نہیں لگائیں گے۔“ تو انھوں نے کہا: اس نے جھوٹ بولا ہے، میں نے خود حضرت حسنؒ کو یہ کہتے سنا ہے: ”نبیذ سے نشہ آنے پر نشئی کو حد لگائی جائے گی۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (18447 و 18501)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني حجاج، حدثنا سليمان بن حرب، قال: سمعت سلام بن ابي مطيع، يقول: بلغ ايوب، اني آتي عمرا، فاقبل علي يوما، فقال: ارايت رجلا لا تامنه على دينه، كيف تامنه على الحديث؟،وحَدَّثَنِي حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَلَّامَ بْنَ أَبِي مُطِيعٍ، يَقُولُ: بَلَغَ أَيُّوبَ، أَنِّي آتِي عَمْرًا، فَأَقْبَلَ عَلَيَّ يَوْمًا، فَقَالَ: أَرَأَيْتَ رَجُلًا لَا تَأْمَنُهُ عَلَى دِينِهِ، كَيْفَ تَأْمَنُهُ عَلَى الْحَدِيثِ؟، سلام بن ابی مطیع کہتے ہیں.’جناب ایوب سختیانی کو یہ خبر پہنچی کہ میں عمرو (بن عبید) کے ہاں (درس میں) جاتا ہوں تو ایک دن وہ میرے پاس آئے اور کہا .’تم نے غور کیا ایک ایسا آدمی آیا جس کے دین پرتمہیں اعتبار نہ ہو، تم اس کی حدیث پر اعتماد نہ کرو گے! سلام بن ابنِ مطیعؒ کہتے ہیں: ایوبؒ کو پتہ چلا کہ میں عمرو کے پاس جاتا ہوں، تو ایک دن وہ میری طرف متوجّہ ہو کر کہنے لگے: ”بتاؤ! ایک شخص کے دین پر تمہیں اعتماد نہیں ہے اس پر حدیث کے سلسلے میں کیسے اعتماد کرو گے؟ یعنی: اس کی حدیث پر اعتماد نہیں ہو سکتا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18448)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني سلمة بن شبيب، حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، قال: سمعت ابا موسى، يقول: حدثنا عمرو بن عبيد، قبل ان يحدث،وحَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مُوسَى، يَقُولُ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُبَيْدٍ، قَبْلَ أَنْ يُحْدِثَ، ۔ سفیان نے بیان کیا، کہا: میں نے ابو موسیٰ (اسرائیل بن موسیٰ بصری، نزیل ہند) سے سنا، کہہ رہے تھے: ہمیں عمرو بن عبید نے بدعت کا شکار ہونے سے پہلے حدیث سنائی۔ ابو موسیٰ ؒ کہتے ہیں: ”بدعتی (معتزلی، قدری) ہونے سے پہلے عمرو بن عبید نے ہمیں احادیث سنائیں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (19600)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني عبيد الله بن معاذ العنبري، حدثنا ابي، قال: كتبت إلى شعبة، اساله عن ابي شيبة قاضي واسط، فكتب إلي لا تكتب عنه شيئا ومزق كتابي.حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: كَتَبْتُ إِلَى شُعْبَةَ، أَسْأَلُهُ عَنْ أَبِي شَيْبَةَ قَاضِي وَاسِطٍ، فَكَتَبَ إِلَيَّ لَا تَكْتُبْ عَنْهُ شَيْئًا وَمَزِّقْ كِتَابِي. ۔ معاذ عنبری نے کہا: میں نے واسط کے قاضی ابو شیبہ کے بارے میں دریافت کرنے کے لیے شعبہ کی طرف لکھا تو انہوں نے جواب میں میری طرف لکھ بھیجا، اس سے کوئی چیز روایت نہ کرو اور میرا خط پھاڑ دو۔ معاذ عنبریؒ کہتے ہیں: میں نے قاضی واسط ابو شعبہ کے بارے میں شعبہؒ کو خط لکھ کر پوچھا، انھوں نے مجھے جواب لکھ کر بھیجا: ”اس سے کوئی حدیث نہ لکھو اور میرا خط چاک کردو۔“ (تاکہ وہ اس خط کے سبب مجھے نشانہ نہ بنائے۔)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18806)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا الحلواني، قال: سمعت عفان، قال: حدثت حماد بن سلمة، عن صالح المري بحديث، عن ثابت، فقال: كذب، وحدثت هماما، عن صالح المري بحديث، فقال: كذب،وحَدَّثَنَا الْحُلْوَانِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَفَّانَ، قَالَ: حَدَّثْتُ حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ، عَنْ صَالِحٍ الْمُرِّيِّ بِحَدِيثٍ، عَنْ ثَابِتٍ، فَقَالَ: كَذَبَ، وَحَدَّثْتُ هَمَّامًا، عَنْ صَالِحٍ الْمُرِّيِّ بِحَدِيثٍ، فَقَالَ: كَذَبَ، ۔ عفان (بن مسلم) نے کہا: میں نے حماد بن سلمہ کو صالح مری کے واسطے سے ایک حدیث سنائی جو اس نے ثابت سے روایت کی تو انہوں نے (حماد) نے کہا: اس نے جھوٹ بولا۔ (اسی طرح) میں نے ہمام کو صالح مری سے ایک حدیث سنائی تو انہوں نے بھی کہا: اس نے جھوٹ بولا۔ عفانؒ کہتے ہیں: میں نے حماد بن سلمہؒ کو صالح مریؒ کی ثابتؒ سے ایک حدیث سنائی، تو انھوں نے کہا: ”وہ جھوٹا ہے۔“ اور میں نے ہمامؒ کو صالح مری کی ایک حدیث سنائی، تو انھوں نے بھی کہا: ”اس نے جھوٹ بولا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18590 و 19514)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، قال: قال لي شعبة: ايت جرير بن حازم، فقل له: لا يحل لك ان تروي، عن الحسن بن عمارة، فإنه يكذب، قال ابو داود: قلت لشعبة: وكيف ذاك؟ فقال: حدثنا عن الحكم باشياء لم اجد لها اصلا، قال: قلت له: باي شيء؟ قال: قلت للحكم: اصلى النبي صلى الله عليه وسلم على قتلى احد؟ فقال: لم يصل عليهم، فقال الحسن بن عمارة، عن الحكم، عن مقسم، عن ابن عباس، إن النبي صلى الله عليه وسلم صلى عليهم، ودفنهم، قلت للحكم: ما تقول في اولاد الزنا؟ قال: يصلى عليهم، قلت: من حديث من يروى؟ قال: يروى عن الحسن البصري، فقال الحسن بن عمارة: حدثنا الحكم، عن يحيى بن الجزار، عن عليوحَدَّثَنِي مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: قَالَ لِي شُعْبَةُ: ايتِ جَرِيرَ بْنَ حَازِمٍ، فَقُلْ لَهُ: لَا يَحِلُّ لَكَ أَنْ تَرْوِيَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُمَارَةَ، فَإِنَّهُ يَكْذِب، قَالَ أَبُو دَاوُد: قُلْتُ لِشُعْبَةَ: وَكَيْفَ ذَاكَ؟ فَقَالَ: حَدَّثَنَا عَنِ الْحَكَمِ بِأَشْيَاءَ لَمْ أَجِدْ لَهَا أَصْلًا، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: بِأَيِّ شَيْءٍ؟ قَالَ: قُلْتُ لِلْحَكَمِ: أَصَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَتْلَى أُحُدٍ؟ فَقَالَ: لَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ الْحَسَنُ بْنُ عُمَارَةَ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَيْهِمْ، وَدَفَنَهُمْ، قُلْتُ لِلْحَكَمِ: مَا تَقُولُ فِي أَوْلَادِ الزِّنَا؟ قَالَ: يُصَلَّى عَلَيْهِمْ، قُلْتُ: مِنْ حَدِيثِ مَنْ يُرْوَى؟ قَالَ: يُرْوَى عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ، فَقَالَ الْحَسَنُ بْنُ عُمَارَةَ: حَدَّثَنَا الْحَكَمُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ، عَنْ عَلِيٍّ ابو داود نے بیان کیا، کہا: شعبہ نے مجھ سے کہا: جریر بن حازم کے پاس جاؤ اور اس سے کہو: تمہارے لیے حلال نہیں کہ تم حسن بن عمارہ سے (حدیث) روایت کرو کیونکہ وہ جھوٹ بولتا ہے۔ ابو داود نے کہا: میں نے شعبہ سے عرض کی: وہ کیسے؟ تو انہوں نے کہا: اس نے ہمیں حَکم سے (روایت کردہ) احادیث سنائیں جن کی ہم نے اصل نہ پائی۔ (کہا) میں نے عرض کی: کیا چیز روایت کی؟ کہا: میں نے حَکم سے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدائے احد کی نماز جنازہ ادا فرمائی؟ تو انہوں نے ج واب دیا: آپ نے ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی (جبکہ) حسن بن عمارہ نے حَکم ہی سے مِقسم کے حوالے سے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھی اور انہیں دفن کیا۔ (اسی طرح) میں نے حَکم سے پوچھا: آپ اولاد زنا کے بار ے میں کیا کہتے ہیں؟ کہا: ان کا جنازہ پڑھا جائے گا۔ میں نے پوچھا: یہ روایت کس حوالے سے بیان کی جاتی ہے، کہا: حضرت حسن بصری سے (جبکہ) حسن بن عمارہ نے کہا: ہم سے حَکم نے یحییٰ بن جزار کے حوالے سے یہ روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیان کی۔ ابو داؤد ؒ کہتے ہیں مجھے شعبہؒ نے کہا: ”تم جریر بن حازمؓ کے پاس جاؤ اور ان سے کہو: آپ کے لیے حسن بن عمارہ سے روایت بیان کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ وہ جھوٹ بولتا ہے۔“ ابو داؤدؒ کہتے ہیں میں نے شعبہؒ سے پوچھا: یہ کیسے ہے؟ (آپ کو کیسے پتہ چلا ہے) اس نے جواب دیا: ”کہ حسن نے ہمیں حکمؒ سے چند احادیث سنائیں، جن کی مجھے کوئی اصل یا بنیاد نہیں ملی۔“ میں نے کہا: وہ کون سی حدیثیں ہیں؟ شعبہؒ نے کہا: ”میں نے حکم سے سوال کیا: کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے شہداء کی نمازِ جنازہ پڑھی ہے؟ حکم نے کہا: نہیں پڑھی۔ جب کہ حسن بن عمارہ، ابنِ عباسؓ کی حدیث بیان کرتا ہے، کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھی اوران کو دفن کیا۔ میں نے حکم سے دریافت کیا: آپ کا زنا کی اولاد کے بارے میں کیا نظریہ ہے؟ اس نے کہا: ان کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے۔ میں نے پوچھا: کس کی روایت ہے؟ اس نے کہا: حسن بصریؒ سے روایت ہے۔ جب کہ حسن بن عمارہ محدثینؒ کے نزدیک بالاتفاق ضعیف ہے، اور حسن بن عمارہ یہ روایت حکمؒ کی سند سے حضرت علیؓ سے بیان کرتا ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (6469 و 10316 و 18782 و 18807)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا الحسن الحلواني، قال: سمعت يزيد بن هارون، وذكر زياد بن ميمون، فقال: حلفت، الا اروي عنه شيئا ولا عن خالد بن محدوج، وقال: لقيت زياد بن ميمون، فسالته عن حديث، فحدثني به، عن بكر المزني، ثم عدت إليه، فحدثني به، عن مورق، ثم عدت إليه، فحدثني به، عن الحسن، وكان ينسبهما إلى الكذب، قال الحلواني، سمعت عبد الصمد، وذكرت عنده زياد بن ميمون فنسبه إلى الكذب،وحَدَّثَنَا الْحَسَنُ الْحُلْوَانِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ يَزِيدَ بْنَ هَارُونَ، وَذَكَرَ زِيَادَ بْنَ مَيْمُونٍ، فَقَالَ: حَلَفْتُ، أَلَّا أروي عنه شيئا ولا عَنْ خَالِدِ بْنِ مَحْدُوجٍ، وَقَالَ: لَقِيتُ زِيَادَ بْنَ مَيْمُونٍ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ حَدِيثٍ، فَحَدَّثَنِي بِهِ، عَنْ بَكْرٍ الْمُزَنِيِّ، ثُمَّ عُدْتُ إِلَيْهِ، فَحَدَّثَنِي بِهِ، عَنْ مُوَرِّقٍ، ثُمَّ عُدْتُ إِلَيْهِ، فَحَدَّثَنِي بِهِ، عَنِ الْحَسَنِ، وَكَانَ يَنْسُبُهُمَا إِلَى الْكَذِبِ، قَالَ الْحُلْوَانِيُّ، سَمِعْتُ عَبْدَ الصَّمَدِ، وَذَكَرْتُ عِنْدَهُ زِيَادَ بْنَ مَيْمُونٍ فَنَسَبَهُ إِلَى الْكَذِبِ، ۔ حسن حلوانی نے کہا: میں نے یزید بن ہارون سے سنا، انہوں نے زیاد بن میمون کا ذکر کرتے ہوئے کہا: میں نے حلف اٹھایا ہے کہ میں اس سے اور خالد بن محدوجد سے کبھی روایت نہ کروں گا (اور کہا:) میں زیاد بن میمون سے ملا، اس سے ایک حدیث سنانے کا کہا تو اس نے مجھے وہ حدیث بکرمزنی سے روایت کر کے سنائی، پھر (کچھ عرصے بعد) میں دوبارہ اس کے پاس گیا تو اس نے وہی حدیث مُوَرِّق سے بیان کی، پھر ایک بار اور اس کے پاس گیا تو اس نے وہی حدیث حسن (بصری) سے سنائی۔ وہ (یزید بن ہارون) ان دونوں (زیاد بن میمون اور خالد بن محدوج) کو جھوٹ کی طرف منسوب کرتے تھے۔ حلوانی نے کہا: میں نے عبد الصمد سے حدیث سنی اور ان کے سامنے زیاد بن میمون کا ذکر کیا تو انہوں نے اس کی نسبت جھوٹ کی طرف کی حسن حلوانیؒ کہتے ہیں، میں نے یزید بن ہارونؒ سے سنا، انہوں نے زیاد بن میمون کا ذکر کر کے کہا: ”میں نے قسم اٹھائی ہے کہ میں اس سے اور خالد بن محدوج سے کوئی روایت بیان نہیں کروں گا، کیونکہ میں زیاد بن میمون کو ملا، اور اس سے ایک حدیث کے بارے میں پوچھا، تو اس نے مجھے وہ بکر مزنیؒ سے سنائی، پھر میں نے اس کی طرف دوبارہ رجوع کیا، تو اس نے مجھے وہ مورق سے سنا دی، پھر میں اسے سہ بارہ ملا تو، اس نے مجھے وہ حسنؒ سے سنا دی، اور یزید بن ہارونؒ ان دونوں (زیاد، خالد) کو جھوٹا قرار دیتا تھا۔“ حلوانیؒ کہتے ہیں: میں نے عبدالصمدؒ کے پاس زیاد بن میمون کا ذکر کیا، تو اس نے کہا: وہ جھوٹا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18980 و 19553)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا محمود بن غيلان، قال: قلت لابي داود الطيالسي: قد اكثرت، عن عباد بن منصور، فما لك لم تسمع منه حديث العطارة، الذي روى لنا النضر بن شميل، قال لي: اسكت، فانا لقيت زياد بن ميمون، وعبد الرحمن بن مهدي، فسالناه، فقلنا له: هذه الاحاديث التي ترويها، عن انس؟ فقال: ارايتما رجلا يذنب فيتوب، اليس يتوب الله عليه؟ قال: قلنا: نعم. قال: ما سمعت من انس، من ذا قليلا ولا كثيرا، إن كان لا يعلم الناس، فانتما لا تعلمان، اني لم الق انسا، قال ابو داود: فبلغنا بعد انه يروي، فاتيناه انا وعبد الرحمن، فقال: اتوب، ثم كان بعد يحدث، فتركناه،وحَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي دَاوُدَ الطَّيَالِسِيِّ: قَدْ أَكْثَرْتَ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ مَنْصُورٍ، فَمَا لَكَ لَمْ تَسْمَعْ مِنْهُ حَدِيثَ الْعَطَّارَةِ، الَّذِي رَوَى لَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، قَالَ لِيَ: اسْكُتْ، فَأَنَا لَقِيتُ زِيَادَ بْنَ مَيْمُونٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، فَسَأَلْنَاهُ، فَقُلْنَا لَهُ: هَذِهِ الأَحَادِيثُ الَّتِي تَرْوِيهَا، عَنْ أَنَسٍ؟ فَقَالَ: أَرَأَيْتُمَا رَجُلًا يُذْنِبُ فَيَتُوبُ، أَلَيْسَ يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِ؟ قَالَ: قُلْنَا: نَعَمْ. قَالَ: مَا سَمِعْتُ مِنْ أَنَسٍ، مِنْ ذَا قَلِيلًا وَلَا كَثِيرًا، إِنْ كَانَ لَا يَعْلَمُ النَّاسُ، فَأَنْتُمَا لَا تَعْلَمَانِ، أَنِّي لَمْ أَلْقَ أَنَسًا، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: فَبَلَغَنَا بَعْدُ أَنَّهُ يَرْوِي، فَأَتَيْنَاهُ أَنَا وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ، فَقَالَ: أَتُوبُ، ثُمَّ كَانَ بَعْدُ يُحَدِّثُ، فَتَرَكْنَاهُ، ۔ محمود بن غیلان نے کہا: میں نے ابوداود طیالسی سے کہا: آپ نے عباد بن منصور سے بہت زیادہ روایتیں لی ہیں، پھر کیا ہوا کہ آپ نے عطارہ والی روایت جو نضر بن شمیل نے ہمارے سامنے بیان کی، ان سے نہیں سنی؟ انہوں نے مجھ سے کہا: خاموش رہو، میں اور عبد الرحمن بن مہدی زیاد بن میمون سے ملے اور اس سے پوچھتے ہوئے کہا: یہ احادیث جو تم حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہو (کیا ہیں؟) تو وہ کہنے لگا: تم دونوں دیکھو کہ ایک آدمی گناہ کرتا ہے، پھر توبہ کر لیتا ہے تو کیا اللہ اس کی توبہ قبول نہیں کرتا! کہا: ہم نے کہا: ہاں۔ اس نے کہا: میں نے ان (احادیث) میں سے انس رضی اللہ عنہ سے کچھ نہیں سنا، نہ کم نہ زیادہ، اگر لوگ نہیں جانتے تو (کیا) تم دونوں بھی نہیں جانتے کہ میں انس رضی اللہ عنہ سے نہیں ملا!۔ ابوداود نے کہا: پھر ہمیں یہ خبر پہنچی کہ وہ (وہی) روایتیں بیان کرتا ہے تو میں اور عبد الرحمن اس کے پاس آئے تو وہ کہنے لگا: میں توبہ کرتا ہوں، پھر اس کے بعد بھی وہ وہی حدیثیں بیان کرتا تھا تو ہم نے اسے (اس کے حال پر) چھوڑ دیا۔ محمود بن غیلان ؒ کہتے ہیں: میں نے ابوداؤد طیالسیؒ سے کہا: آپ نے عباد بن منصور سے بہت سی روایات بیان کی ہیں، تو کیا وجہ ہے؟ آپ نے اس سے عطارہ کی حدیث نہیں سنی، جو ہمیں نضر بن شمیل ؒنے سنائی ہے؟ انھوں نے مجھ سے کہا: ”خاموش ہو جا! کیونکہ میں اور عبدالرحمٰن بن مہدیؒ دونوں زیاد بن میمون کو ملے، تو ہم نے اس سے پوچھا: یہ احادیث جو تم حضرت انسؓ سے بیان کرتے ہو؟ (ان کی کیا حقیقت ہے) تو اس نے کہا: بتاؤ ایک آدمی گناہ کرتا ہے، پھر توبہ کر لیتا ہے، تو کیا اللہ اس کی توبہ قبول نہیں کرلیتا؟ ہم نے کہا معاف کر دیتا ہے۔ اس نے کہا میں نے ان احادیث میں سے کم یا زیادہ حضرت انسؓ سے کچھ نہیں سنا، اگر عام لوگوں کو علم نہیں ہے تو کیا آپ دونوں کو بھی علم نہیں ہے؟ میری حضرت انسؓ سے ملاقات ہی نہیں ہوئی۔ ابو داؤد ؒ کہتے ہیں: ہمیں بعد میں خبر پہنچی، کہ وہ پھر حضرت انسؓ سے روایت کرتا ہے، تو میں اور عبدالرحمٰن بن مہدیؒ اس کے پاس آئے، تو اس نے کہا: میں توبہ کرتا ہوں، بعد میں وہ پھر بیان کرنے لگا، تو ہم نے اس کو چھوڑ دیا (کہ یہ تو جھوٹا آدمی ہے)۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18782 و 18807)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا حسن الحلواني، قال: سمعت شبابة، قال: كان عبد القدوس يحدثنا، فيقول: سويد بن عقلة: قال شبابة: وسمعت عبد القدوس، يقول: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يتخذ الروح عرضا، قال: فقيل له: اي شيء هذا! قال: يعني تتخذ كوة في حائط، ليدخل عليه الروح، قال مسلم: وسمعت عبيد الله بن عمر القواريري، يقول: سمعت حماد بن زيد، يقول لرجل بعد ما جلس مهدي بن هلال بايام: ما هذه العين المالحة التي نبعت قبلكم؟ قال: نعم يا ابا إسماعيل،حَدَّثَنَا حَسَنٌ الْحُلْوَانِي، قَالَ: سَمِعْتُ شَبَابَةَ، قَالَ: كَانَ عَبْدُ الْقُدُّوسِ يُحَدِّثُنَا، فَيَقُولُ: سُوَيْدُ بْنُ عَقَلَةَ: قَالَ شَبَابَةُ: وَسَمِعْتُ عَبْدَ الْقُدُّوسِ، يَقُولُ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ يُتَّخَذَ الرَّوْحُ عَرْضًا، قَالَ: فَقِيلَ لَهُ: أَيُّ شَيْءٍ هَذَا! قَالَ: يَعْنِي تُتَّخَذُ كُوَّةٌ فِي حَائِطٍ، لِيَدْخُلَ عَلَيْهِ الرَّوْحُ، قَال مُسْلِمٌ: وسَمِعْتُ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ زَيْدٍ، يَقُولُ لِرَجُلٍ بَعْدَ مَا جَلَسَ مَهْدِيُّ بْنُ هِلَالٍ بِأَيَّامٍ: مَا هَذِهِ الْعَيْنُ الْمَالِحَةُ الَّتِي نَبَعَتْ قِبَلَكُمْ؟ قَالَ: نَعَمْ يَا أَبَا إِسْمَاعِيل، حسن حلوانی نے بیان کیا، کہا: میں نے شبابہ سے سنا (کہا: عبد القدوس ہمارے سامنے حدیث بیان کرتا تھا اور کہتا تھا: سوید بن عقلہ) شبابہ نے کہا: میں نے بعد القدوس سے سنا، کہتا تھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”رَوح کو عَرض“ بنانے سے منع فرمایا ہے (کہا) اس سے کہا گیا: اس کا کیا مطلب ہے؟ تو اس نے کہا: مطلب یہ ہے کہ دیوار میں سوراخ رکھا جائے تاکہ اس میں ہوا داخل ہو۔ (امام) مسلم نے کہا: میں نے عبید اللہ بن عمر قواریری سے سنا، کہہ رہے تھے: میں نے حماد بن زید سے سنا، وہ (مہدی بن ہلال کے علمی مجلس منعقد کرنے سے چند دن بعد) ایک آدمی سے کہہ رہے تھے: یہ نمکین چشمہ کیا ہے جو آپ کی طرف سے پھوٹا ہے؟ اس نے کہا: ہاں، اے ابواسماعیل! (آپ کی بات ٹھیک ہے شبابہؒ کہتے ہیں: عبدالقدوس ہمیں حدیث سناتا اور راوی کا نام سوید بن عقلہ لیتا، اور متن یوں سناتا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روح کو عرض بنانے سے منع فرمایا۔ اس سے پوچھا گیا: کہ یہ کیا ہوا؟ یعنی: اس کا مطلب کیا ہے؟ تو اس نے کہا: ہوا کے داخل ہونے کے لیے دیوار میں سوراخ یا کھڑکی رکھنا منع فرمایا۔ عبید اللہ بن عمیر قواریریؒ کہتے ہیں، میں نے سنا حماد بن زیدؒ کسی آدمی کو کہہ رہے تھے، جب کہ وہ شخص مہدی بن ہلال کے پاس چند روز بیٹھ چکا تھا: ”یہ تمھاری طرف پھوٹنے والا نمکین چشمہ کیسا ہے؟“ اس نے کہا: ہاں اے ابو اسماعیل! (یہ حماد بن زیدؒ کی کنیت ہے) وہ ایسا ہی ہے۔ یعنی واقعی ضعیف ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (18589 و 18798)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا الحسن الحلواني، قال: سمعت عفان، قال: سمعت ابا عوانة، قال: ما بلغني عن الحسن حديث، إلا اتيت به ابان بن ابي عياش، فقراه علي.وحَدَّثَنَا الْحَسَنُ الْحُلْوَانِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَفَّانَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَوَانَةَ، قَالَ: مَا بَلَغَنِي عَنِ الْحَسَنِ حَدِيثٌ، إِلَّا أَتَيْتُ بِهِ أَبَانَ بْنَ أَبِي عَيَّاشٍ، فَقَرَأَهُ عَلَيَّ. عفان نے کہا: میں نے ابو عوانہ سے سنا، کہا: مجھے حسن (بصری) سے کوئی حدیث نہ پہنچی مگر میں اسے ابان بن ابی عیاش کے پاس لے گیا تو اس نے اسے میرے سامنے پڑھا ابو عوانہؒ کہتےہیں مجھے حسنؒ سے جو روایت بھی پہنچی میں وہ لے کر ابان بن عیاشؒ کے پاس آگیا، تو اس نے وہ مجھے (جھوٹ کے طور پر) سنادی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (19518)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا سويد بن سعيد، حدثنا علي بن مسهر، قال: سمعت انا وحمزة الزيات من ابان بن ابي عياش، نحوا من الف حديث، قال علي:" فلقيت حمزة فاخبرني، انه راى النبي صلى الله عليه وسلم في المنام، فعرض عليه ما سمع من ابان، فما عرف منها إلا شيئا يسيرا، خمسة او ستة،وحَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَا وَحَمْزَةُ الزَّيَّاتُ مِنْ أَبَانَ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ، نَحْوًا مِنْ أَلْفِ حَدِيثٍ، قَالَ عَلِيٌّ:" فَلَقِيتُ حَمْزَةَ فَأَخْبَرَنِي، أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنَامِ، فَعَرَضَ عَلَيْهِ مَا سَمِعَ مِنْ أَبَانَ، فَمَا عَرَفَ مِنْهَا إِلَّا شَيْئًا يَسِيرًا، خَمْسَةً أَوْ سِتَّةً، علی بن مسہر نے بیان کیا، کہا: میں نے اور حمزہ زیات نے ابان بن ابی عیاش سے تقریباً ایک ہزار احادیث سنیں۔ علی نے کہا: پھر (کچہ عرصے بعد) میں حمزہ سے ملا تو اس نے مجھے بتایا کہ ا سنے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو وہ احادیث جو ابان سے سنی تھیں آپ کی خدمت میں پیش کیں۔ آپ نے ان میں بہت معمولی حصے، پانچ یا چھ حدیثوں کے سوا کسی چیز کو نہ پہچانا۔ علی بن مسہرؒ کہتے ہیں: میں نے اور حمزہ زیاتؒ نے ابان بن ابی عیاش سے تقریباً ایک ہزار روایات سنیں۔ علی بن مسہرؒ کہتے ہیں: بعد میں، میں حمزہؒ سے ملا، تو اس نے مجھے بتایا: ”کہ میں نے خواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ابان سے سنی ہوئی احادیث پیش کیں، تو آپ نے ان میں سے چند ایک، پانچ یا چھے کے سوا کسی حدیث کو نہ پہچانا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18596)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي، اخبرنا زكرياء بن عدي، قال: قال لي ابو إسحاق الفزاري: اكتب عن بقية ما روى عن المعروفين، ولا تكتب عنه ما روى عن غير المعروفين، ولا تكتب عن إسماعيل بن عياش، ما روى عن المعروفين، ولا عن غيرهم،حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ، أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ عَدِيٍّ، قَالَ: قَالَ لِي أَبُو إِسْحَاق الْفَزَارِيُّ: اكْتُبْ عَنْ بَقِيَّةَ مَا رَوَى عَنِ الْمَعْرُوفِينَ، وَلَا تَكْتُبْ عَنْهُ مَا رَوَى عَنْ غَيْرِ الْمَعْرُوفِينَ، وَلَا تَكْتُبْ عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ عَيَّاشٍ، مَا رَوَى عَنِ الْمَعْرُوفِينَ، وَلَا عَنْ غَيْرِهِمْ، زکریا بن عدی نے کہا: مجھ سے ابو اسحاق فزاری نے کہا: بقیہ سے وہی احادیث لکھو جو اس نے معروف لوگوں سے روایت کی ہیں، وہ نہ لکھو جو اس نے غیر معروف لوگوں سے روایت کی ہیں اور اسماعیل بن عیاش سے، جو اس نے معروف لوگوں سے روایت کیں یا غیر معروف سے، کچھ نہ لکھو۔ زکریا ابنِ عدی کہتے ہیں مجھ سے ابو اسحاق فزاری نے کہا، بقیہ سے صرف وہ احادیث لکھوجو وہ معروف اور مشہور راویوں سے بیان کرتا ہے اور جو روایات وہ غیر معروف راویوں سے بیان کرتا ہے وہ نہ لکھو، اور اسماعیل بن عیاش سے کسی قسم کی روایت نہ لکھو چاہے وہ معروف راویوں سے بیان کرتا ہو یا غیر معروف سے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه الترمذي في ((جامعه)) في الامثال، باب: ما جاء في مثل الله علباده بعد حديث (2859) انظر ((التحفة)) برقم (18391)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي، قال: سمعت بعض اصحاب عبد الله، قال: قال ابن المبارك: نعم الرجل بقية، لولا انه كان يكني الاسامي ويسمي الكنى، كان دهرا يحدثنا، عن ابي سعيد الوحاظي، فنظرنا فإذا هو وعبد القدوس،وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ بَعْضَ أَصْحَابِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: نِعْمَ الرَّجُلُ بَقِيَّةُ، لَوْلَا أَنَّهُ كَانَ يَكْنِي الْأَسَامِيَ وَيُسَمِّي الْكُنَى، كَانَ دَهْرًا يُحَدِّثُنَا، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْوُحَاظِيِّ، فَنَظَرْنَا فَإِذَا هُوَ وَعَبْدُ الْقُدُّوسِ، اسحاق بن ابراہیم حنظلی نے بیان کیا، کہا: میں نے عبد اللہ کے اصحاب (شاگردوں) میں سے ایک سے سنا، کہا: ابن مبارک نے فرمایا: بقیہ اچھا آدمی ہے اگر یہ نہ ہوتا کہ وہ ناموں کو کنیتوں سے بدل دیتا ہے اور کنیتوں کو ناموں سے۔ وہ ایک زمانے تک ہمیں ابو سعید وحاظی سے روایتیں سناتا رہا، ہم نے اچھی طرح غور کیا تو وہ عبد القدوس نکلا۔ عبداللہ بن مبارکؒ فرماتے ہیں: ”بقیہؒ اچھا آدمی تھا، اگر وہ ناموں کی جگہ کنیت اور کنیت کی جگہ نام نہ لیتا۔ ایک عرصہ تک وہ ہمیں ابو سعید وحاظی سے روایت سناتا رہا، جب ہم نے غور و فکر کیا تو معلوم ہوا وہ عبدالقدوس ہے (جو ضعیف راوی ہے)۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18930)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني احمد بن يوسف الازدي، قال: سمعت عبد الرزاق، يقول: ما رايت ابن المبارك يفصح بقوله كذاب، إلا لعبد القدوس، فإني سمعته يقول له: كذاب،وحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ يُوسُفَ الأَزْدِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّزَّاقِ، يَقُولُ: مَا رَأَيْتُ ابْنَ الْمُبَارَكِ يُفْصِحُ بِقَوْلِهِ كَذَّابٌ، إِلَّا لِعَبْدِ الْقُدُّوسِ، فَإِنِّي سَمِعْتُهُ يَقُولُ لَهُ: كَذَّابٌ، عبد الرزاق کہتے ہیں: میں نے ابن مبارک کو (ایسا کرتے) نہیں دیکھا کہ وہ کھل کر اپنی یہ بات (رائے) کہہ دیں کہ فلاں جھوٹا ہے، سوائے عبد القدوس کے۔ میں نے انہیں خود یہ کہتے سنا کہ وہ جھوٹا ہے۔ عبدالرزاقؒ بیان کرتے ہیں: ”میں نے عبداللہ بن مبارکؒ کو کبھی عبدالقدوس کے سوا کسی کو صاف طور پر جھوٹا کہتے نہیں سنا۔ میں نے ان سے اس کو کذّاب کہتے سنا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18931)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي، قال: سمعت ابا نعيم، وذكر المعلى بن عرفان، فقال: قال: حدثنا ابو وائل، قال: خرج علينا ابن مسعود بصفين، فقال ابو نعيم: اتراه بعث بعد الموت؟.حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا نُعَيْمٍ، وَذَكَرَ الْمُعَلَّى بْنَ عُرْفَانَ، فَقَال: قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو وَائِلٍ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا ابْنُ مَسْعُودٍ بِصِفِّينَ، فَقَالَ أَبُو نُعَيْمٍ: أَتُرَاهُ بُعِثَ بَعْدَ الْمَوْتِ؟. ۔ عبد اللہ بن عبد الرحمن دارمی نے مجھ سے بیان کیا، کہا: میں نے ابو نعیم سے سنا (اور انہوں نے معلی بن عرفان کا ذکر کیا) اور کہا: اس نے کہا: ہم سے ابو وائل نے بیان کیا، کہا: صفین میں ابن مسعود ہمارے سامنے نکلے تو ابو نعیم نے کہا: ان کے بارے میں تمہاری رائے ہے کہ وہ موت کے بعد دوبارہ زندہ ہو گئے تھے؟ ابو نعیمؒ کہتے ہیں: معلیٰ بن عرفانؒ نے کہا، ہمیں ابو وائلؒ نے بتایا: کہ جنگِ صفین کے موقع پر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ہمارے سامنے آئے۔ تو ابو نعیمؒ نے کہا: ”کیا تمھارے خیال کے مطابق وہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو گئے تھے؟“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني عمرو بن علي وحسن الحلواني كلاهما، عن عفان بن مسلم، قال: كنا عند إسماعيل ابن علية، فحدث رجل عن رجل، فقلت: إن هذا ليس بثبت، قال: فقال الرجل: اغتبته؟ قال إسماعيل: ما اغتابه، ولكنه حكم انه ليس بثبت.حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ وَحَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ كِلَاهُمَا، عَنْ عَفَّانَ بْنِ مُسْلِمٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ إِسْمَاعِيل ابْنِ عُلَيَّةَ، فَحَدَّثَ رَجُلٌ عَنْ رَجُلٍ، فَقُلْتُ: إِنَّ هَذَا لَيْسَ بِثَبْتٍ، قَالَ: فَقَالَ الرَّجُلُ: اغْتَبْتَهُ؟ قَالَ إِسْمَاعِيل: مَا اغْتَابَهُ، وَلَكِنَّهُ حَكَمَ أَنَّهُ لَيْسَ بِثَبْتٍ. ۔ عفان بن مسلم سے روایت ہے، کہا: ہم اسماعیل بن عُلیہ کے ہاں تھے تو ایک آدمی نے ایک دوسرے آدمی سے روایت (بیان) کی۔ میں نے کہا: ہ مضبوط (ثقہ کا ہم پلہ) نہیں۔ تو اس آدمی نے کہا: تم نے اس کی غیبت کی ہے۔ اسماعیل کہنے لگے: انہوں نے اس کی غیبت نہیں کی بلکہ حَکم (فیصلہ) بیان کیا ہے وہ ثبت نہیں ہے۔ عفان بن مسلمؒ کہتے ہیں: ہم اسماعیل بن علیہؒ کی مجلس میں حاضر تھے، کہ ایک شخص نے دوسرے شخص سے حدیث بیان کی تو میں نے کہا یہ تو ثقہ اور قابلِ اعتماد نہیں ہے۔ اس نے کہا: تم نے اس کی غیبت کی ہے۔ اسماعیلؒ نے کہا: ”اس نے غیبت نہیں کی، لیکن حقیقت بتائی ہے کہ وہ ثقہ نہیں ہے (اور راوی کی اصلیت ظاہر کرنا غیبت نہیں ہے)۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18437)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا ابو جعفر الدارمي، حدثنا بشر بن عمر، قال: سالت مالك بن انس، عن محمد بن عبد الرحمن الذي يروي، عن سعيد بن المسيب، فقال: ليس بثقة، وسالته عن صالح مولى التوامة، فقال: ليس بثقة، وسالته عن ابي الحويرث، فقال: ليس بثقة، وسالته عن شعبة الذي روى عنه ابن ابي ذئب، فقال: ليس بثقة، وسالته عن حرام بن عثمان، فقال: ليس بثقة، وسالت مالكا، عن هؤلاء الخمسة، فقال: ليسوا بثقة، في حديثهم وسالته عن رجل آخر نسيت اسمه، فقال: هل رايته في كتبي؟ قلت: لا، قال: لو كان ثقة، لرايته في كتبيوحَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الدَّارِمِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: سَأَلْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الَّذِي يَرْوِي، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، فَقَالَ: لَيْسَ بِثِقَةٍ، وَسَأَلْتُهُ عَنْ صَالِحٍ مَوْلَى التَّوْأَمَةِ، فَقَالَ: لَيْسَ بِثِقَةٍ، وَسَأَلْتُهُ عَنْ أَبِي الْحُوَيْرِثِ، فَقَالَ: لَيْسَ بِثِقَةٍ، وَسَأَلْتُهُ عَنْ شُعْبَةَ الَّذِي رَوَى عَنْهُ ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، فَقَالَ: لَيْسَ بِثِقَةٍ، وَسَأَلْتُهُ عَنْ حَرَامِ بْنِ عُثْمَانَ، فَقَالَ: لَيْسَ بِثِقَةٍ، وَسَأَلْتُ مَالِكًا، عَنْ هَؤُلَاءِ الْخَمْسَةِ، فَقَالَ: لَيْسُوا بِثِقَةٍ، فِي حَدِيثِهِمْ وَسَأَلْتُهُ عَنْ رَجُلٍ آخَرَ نَسِيتُ اسْمَهُ، فَقَالَ: هَلْ رَأَيْتَهُ فِي كُتُبِي؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: لَوْ كَانَ ثِقَةً، لَرَأَيْتَهُ فِي كُتُبِي بشر بن عمر بنے ہم سے بیان کیا، کہا: میں نے امام مالک بن انس سے محمد بن عبد الرحمن کے بارے میں پوچھا جو سعید بن مسیب سے احادیث روایت کرتا ہے تو انہوں نے کہا: وہ ثقہ نہیں۔ میں نے مالک بن انس سے ابو حویرث کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: وہ ثقہ نہیں۔ (پھر) میں نے ان سے اس شعبہ کے بارے میں سوال کیا جس سے ابن ابی ذئب روایت کرتے ہیں تو فرمایا: وہ ثقہ نہیں۔ میں نے ان سے صالح مولیٰ تَواَمَہ کے بارے میں سوال کیا تو کہا: ثقہ نہیں۔ میں نے ان سے حرام بن عثمان کے بارے میں پوچھا تو فرمایا: ثقہ نہیں۔ میں نے امام مالک سے ان پانچوں کے بارے میں پوچھا، انہوں نے فرمایا: یہ سب حدیث کے بیان کرنے میں ثقہ نہیں۔ میں نے ان سے ایک اور شخص کے بارے میں پوچھا جس کا (اب) میں نام بھول گیا ہوں تو انہوں نے کہا: کیا تم نے میری کتابوں میں اس کا نام دیکھا ہے۔ میں نے عرض کی: نہیں۔ فرمایا: اگر ثقہ ہوتا تو تم اس کا ذکر میری کتابوں میں دیکھتے بشر بن عمرؒ کہتے ہیں: کہ میں نے امام مالک بن انس ؒ سے محمد بن عبدالرحمٰن جو حضرت سعید بن مسیّب ؒ سے روایت کرتا ہے، کے بارے میں پوچھا تو انھوں نےجواب دیا: ”وہ قابلِ اعتماد نہیں ہے۔“ اور میں نے ان سے توامہ کے آزاد کردہ غلام صالح کے بارے میں پوچھا، تو انھوں نے فرمایا: ”وہ ثقہ نہیں ہے۔“ میں نے ان سے ابو الحویرث (عبدالرحمٰن بن معاویہ) کے بارے میں پوچھا، تو انھوں نے کہا: ”وہ معتبر نہیں ہے۔“ میں نے ان سے اس شعبہ کے بارے میں پوچھا، جس سے ابن ابی ذئب (محمد بن عبدالرحمٰن بن مغیرہ القرشی) روایت کرتے ہیں، تو انھوں نے جواب دیا: ”وہ قابلِ اعتماد نہیں ہے۔“ اور میں نے ان سے حرام بن عثمان کے بارے میں پوچھا، تو انھوں نے فرمایا: ”وہ قابلِ اعتماد نہیں۔“ میں نے امام مالکؒ سے ان پانچ کے بارے میں دریافت کیا، چنانچہ انھوں نے ان سب کے بارے میں فرمایا: ”وہ حدیث بیان کرنے میں معتبر نہیں ہیں۔“ اور میں نے ان سے ایک اور آدمی کے بارے میں پوچھا جس کا نام مجھے یاد نہیں رہا، تو انھوں نے جواب دیا: ”کیا تم نے اس سے میری کتابوں میں روایت دیکھی ہے؟“ میں نے کہا: نہیں! فرمایا: ”اگر وہ ثقہ ہوتا تو اس سے میری کتابوں میں روایت دیکھ لیتے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (19249)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني الفضل بن سهل، قال: حدثني يحيى بن معين، حدثنا حجاج، حدثنا ابن ابي ذئب، عن شرحبيل بن سعد، وكان متهما،وحَدَّثَنِي الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ سَعْدٍ، وَكَانَ مُتَّهَمًا، ہم حجاج نے بیان کیا، کہا: ہم سے ابن ابی ذئب نے شرحبیل بن سعد کے حوالے سے حدیث بیان کی اور وہ متہم تھا حجاجؒ کہتے ہیں: ”ہمیں ابنِ ابی ذئبؒ نے شرحبیل بن سعد سے روایات سنائیں، لیکن وہ حدیث میں متہم تھا، یعنی اس پر کذب بیانی کا الزام ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (19316)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني محمد بن عبد الله بن قهزاذ، قال: سمعت ابا إسحاق الطالقاني ، يقول: سمعت ابن المبارك، يقول: لو خيرت بين ان ادخل الجنة، وبين ان القى عبد الله بن محرر، لاخترت ان القاه، ثم ادخل الجنة، فلما رايته كانت بعرة احب إلي منه،وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُهْزَاذَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاق الطَّالَقَانِيّ َ، يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ الْمُبَارَكِ، يَقُولُ: لَوْ خُيِّرْتُ بَيْنَ أَنْ أَدْخُلَ الْجَنَّةَ، وَبَيْنَ أَنْ أَلْقَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُحَرَّرٍ، لَاخْتَرْتُ أَنْ أَلْقَاهُ، ثُمَّ أَدْخُلَ الْجَنَّةَ، فَلَمَّا رَأَيْتُهُ كَانَتْ بَعْرَةٌ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْهُ، ابو اسحاق طالقانی کہتے ہیں: میں نے عبد اللہ بن مبارک سے سنا، کہہ رہے تھے: (ایک وقت تھا) اگر مجھے اختیار دیا جاتا کہ جنت میں داخل ہوں یا عبد اللہ بن محرر سے ملوں تو میں اس کا انتخاب کرتا کہ پہلے میں اس سے مل لوں پھر جنت میں جاؤں گا، پھر جب میں نے اسے دیکھ لیا تو اس کے مقابلے میں ایک مینگنی بھی مجھے زیادہ محبوب تھی۔ طالقانی کہتے ہیں: میں نے عبد اللہ بن مبارک سے سنا، کہہ رہے تھے: (ایک وقت تھا) اگر مجھے اختیار دیا جاتا کہ جنت میں داخل ہوں یا عبد اللہ بن محرر سے ملوں تو میں اس کا انتخاب کرتا کہ پہلے میں اس سے مل لوں پھر جنت میں جاؤں گا، پھر جب میں نے اسے دیکھ لیا تو اس کے مقابلے میں ایک مینگنی بھی مجھے زیادہ محبوب تھی۔ حضرت ابنِ مبارکؒ کہتے ہیں: ”مجھے عبداللہ بن محرر سے ملنے کا اس قدر اشتیاق تھا، کہ اگر مجھے یہ اختیار دیا جاتا کہ جنت میں داخل ہو جاؤ یا عبداللہ بن محرر سے مل لو، تو میں یہ پسند کرتا کہ پہلے اس سے ملوں پھر جنت میں داخل ہوں۔ لیکن جب میں نے اس کو دیکھا تو میرے نزدیک مینگنی کی اس سے زیادہ قدر تھی۔“ (یعنی جب اس قدر شوق اور عقیدت کے بعد ملاقات کا موقع ملا، تو وہ انتہائی نکمّا نکلا)۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18932)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني الفضل بن سهل، حدثنا وليد بن صالح، قال: قال عبيد الله بن عمرو، قال زيد يعني ابن ابي انيسة: لا تاخذوا عن اخي،حَدَّثَنِي الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ، حَدَّثَنَا وَلِيدُ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ زَيْدٌ يَعْنِي ابْنَ أَبِي أُنَيْسَةَ: لَا تَأْخُذُوا عَنْ أَخِي، ۔ ولید بن صالح نے بیان کیا ابواسحاق، کہا: عبید اللہ بن عمرو نے کہا: زید، یعنی ابن ابی انیسہ نے کہا: میرے بھائی (یحییٰ بن ابی انیسہ) سے روایت نہ لو۔ عبید اللہ بن عمروؒ بیان کرتے ہیں، زیدؒ یعنی ابنِ ابی انیسہ نے کہا: ”میرے بھائی سے روایت نہ لو۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18667)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني احمد بن إبراهيم الدورقي، قال: حدثني عبد السلام الوابصي، قال: حدثني عبد الله بن جعفر الرقي، عن عبيد الله بن عمرو، قال: كان يحيي بن ابي انيسة كذابا.حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ السَّلَامِ الْوَابِصِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: كَانَ يَحْيَي بْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ كَذَّابًا. عبد اللہ بن جعفر رقی نے عبید اللہ بن عمرو کے حوالے سے بیان کیا، کہا: یحییٰ بن ابی انیسہ جھوٹا تھا۔ عبید اللہ بن عمرو ؒ کہتے ہیں: ”یحییٰ بن اُنیسہ جھوٹا تھا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18994)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني احمد بن إبراهيم، قال: حدثني سليمان بن حرب، عن حماد بن زيد، قال: ذكر فرقد عند ايوب، فقال: إن فرقدا، ليس صاحب حديث،حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: ذُكِرَ فَرْقَد عِنْدَ أَيُّوبَ، فَقَالَ: إِنَّ فَرْقَدًا، لَيْسَ صَاحِبَ حَدِيثٍ، حماد بن زید سے روایت ہے، کہا: ایوب سختیانی کے سامنے فرقد کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے کہا: فرقد حدیث (کی مہارت رکھنے) والا نہیں۔ حماد بن زیدؒ بیان کرتے ہیں: ایوبؒ کے سامنے فرقد (سخی، عابد، زاہد) کا ذکر کیا گیا تو انھوں نے کہا: ”وہ حدیث کا اہل نہیں ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18449)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني عبد الرحمن بن بشر العبدي، قال: سمعت يحيى بن سعيد القطان، ذكر عنده محمد بن عبد الله بن عبيد بن عمير الليثي، فضعفه جدا، فقيل ليحيى: اضعف من يعقوب بن عطاء؟ قال: نعم، ثم قال: ما كنت ارى ان احدا يروي عن محمد بن عبد الله بن عبيد بن عمير ،وحَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ الْقَطَّانَ، ذُكِرَ عِنْدَهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ اللَّيْثِيُّ، فَضَعَّفَهُ جِدًّا، فَقِيلَ لِيَحْيَى: أَضْعَفُ مِنْ يَعْقُوبَ بْنِ عَطَاءٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، ثُمَّ قَالَ: مَا كُنْتُ أَرَى أَنَّ أَحَدًا يَرْوِي عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْر ٍ، ۔ مجھ سے عبد الرحمان بن بشر عبدی نے بیان کیا، کہا: میں نے یحییٰ بن سعیدقطان سے سنا، جب ان کے سامنے محمد بن عبد اللہ بن عبید بن عمیر لیثی کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے اسے انتہائی ضعیف قرار دیا۔ (امام) یحییٰ سے کہا گیا: ہاں۔ پھر کہا: میں نہیں سمجھتا کہ کوئی ایک انسان بھی محمد بن عبد اللہ بن عبید بن عمیر سے روایت کر سکتا ہے۔ عبدالرحمٰن بن بشر عبدیؒ بیان کرتے ہیں: یحییٰ بن سعید القطانؒ کے سامنے محمد بن عبد اللہ بن عبید بن عمیر لیثی کا ذکر کیا گیا، تو انھوں نے اسے بہت ضعیف قرار دیا۔ یحییٰؒ سے پوچھا گیا: کیا وہ یعقوب بن عطاء سے بھی زیادہ ضعیف ہے؟ انھوں نے کہا: ”ہاں!“ پھر کہا: ”میں نہیں سمجھتا کہ کوئی محمد بن عبداللہ بن عبید بن عمیرسے روایت کرتا ہوگا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (19539)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني بشر بن الحكم، قال: سمعت يحيى بن سعيد القطان، ضعف حكيم بن جبير وعبد الاعلى وضعف يحيى موسى بن دينار، قال: حديثه ريح وضعف موسى بن دهقان وعيسى بن ابي عيسى المدني،حَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ الْقَطَّانَ، ضَعَّفَ حَكِيمَ بْنَ جُبَيْرٍ وَعَبْدَ الأَعْلَى وَضَعَّفَ يَحْيَى مُوسَى بْنَ دِينَارٍ، قَالَ: حَدِيثُهُ رِيحٌ وَضَعَّفَ مُوسَى بْنَ دِهْقَانَ وَعِيسَى بْنَ أَبِي عِيسَى الْمَدَنِيّ، بشر بن حکم نے بیان کیا، کہا: میں نے یحییٰ بن سعید قطان سے سنا، انہوں نے حکیم بن جبیر اور عبد الاعلیٰ کو ضعیف قرار دیا اور (اسی طرح) یحییٰ نے موسیٰ بن دینار کو بھی ضعیف قرار دیا (اور) کہا: اس کی (بیان کردہ) حدیث ہوا (جیسی) ہے اور موسیٰ بن دہقان اور عیسیٰ ابی عیسیٰ مدنی کو (بھی) ضعیف قرار دیا۔ کہا: اور میں نے حسن بن عیسیٰ سے سنا، کہہ رہے تھے: مجھ سے ابن مبارک نے فرمایا: تم جب جریر کے پاس پہنچو تو تین (راویوں) کی احادیث کے سوا اس کا سارا علم لکھ لینا۔ عبیدہ بن معتب، سری بن اسماعیل اور محمد بن سالم کی احادیث اس سے نہ لکھنا۔ بشر بن حکمؒ بیان کرتے ہیں، میں نے یحییٰ بن سعید القطانؒ سے سنا، انھوں نے حکیم بن جبیراور عبدالاعلیٰ کو ضعیف قرار دیا، اور یحییٰ بن موسیٰ کی تضعیف کی اور فرمایا: ”اس کی حدیث ریح (ہوا) ہے۔“ یعنی اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اور انھوں نے موسیٰ بن دہقان اور عیسیٰ ابی عیسیٰ مدنی کو بھی ضعیف قرار دیا۔
قال: وسمعت الحسن بن عيسى، يقول: قال لي ابن المبارك: إذا قدمت على جرير، فاكتب علمه كله، إلا حديث ثلاثة لا تكتب، حديث عبيدة بن معتب، والسري بن إسماعيل، ومحمد بن سالم،قََالَ: وَسَمِعْتُ الْحَسَنَ بْنَ عِيسَى، يَقُولُ: قَالَ لِي ابْنُ الْمُبَارَكِ: إِذَا قَدِمْتَ عَلَى جَرِيرٍ، فَاكْتُبْ عِلْمَهُ كُلَّهُ، إِلَّا حَدِيثَ ثَلَاثَةٍ لَا تَكْتُبْ، حَدِيثَ عُبَيْدَةَ بْنِ مُعَتِّبٍ، وَالسَّرِيِّ بْنِ إِسْمَاعِيل، وَمُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ، اور حسن بن عیسیٰؒ کہتے ہیں: مجھے عبداللہ بن مبارکؒ نے کہا: ”جب تم جریرؒ کی خدمت میں حاضر ہو، تو اس کا تمام علم (احادیث) لکھ لینا، مگر تین راویوں کی روایات عبیدہ بن معتب، سری بن اسماعیل اور محمد بن سالم کی روایات نہ لکھنا (کیونکہ یہ تینوں ضعیف اور متروک راوی ہیں)۔“
قال مسلم واشباه: ما ذكرنا من كلام اهل العلم في متهمي رواة الحديث وإخبارهم، عن معايبهم كثير يطول الكتاب بذكره، على استقصائه، وفيما ذكرنا كفاية لمن تفهم، وعقل مذهب القوم، فيما قالوا من ذلك، وبينواقَالَ مُسْلِم وَأَشْبَاهُ: مَا ذَكَرْنَا مِنْ كَلَامِ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي مُتَّهَمِي رُوَاةِ الْحَدِيثِ وَإِخْبَارِهِمْ، عَنْ مَعَايِبِهِمْ كَثِيرٌ يَطُولُ الْكِتَابُ بِذِكْرِهِ، عَلَى اسْتِقْصَائِهِ، وَفِيمَا ذَكَرْنَا كِفَايَةٌ لِمَنْ تَفَهَّمَ، وَعَقَلَ مَذْهَبَ الْقَوْمِ، فِيمَا قَالُوا مِنْ ذَلِكَ، وَبَيَّنُوا امام مسلم رحمہ اللہ نے کہا: اور اس کے مانند جو ہم نے ذکر کیا اہل حدیث کا کلام متہم راویوں میں اور ان کے عیوب بہت ہیں جس کے بیان کرنے سے کتاب لمبی ہو جائے گی اور جس قدر ہم نے بیان کیا وہ کافی ہے اس شخص کے لئے جو قوم کا مذہب سمجھ بوجھ جائے۔
وإنما الزموا انفسهم الكشف عن معايب رواة الحديث، وناقلي الاخبار، وافتوا بذلك حين سئلوا لما فيه من عظيم الخطر، إذ الاخبار في امر الدين، إنما تاتي بتحليل، او تحريم، او امر، او نهي، او ترغيب، او ترهيب، فإذا كان الراوي لها ليس بمعدن للصدق والامانة، ثم اقدم على الرواية عنه من قد عرفه، ولم يبين ما فيه لغيره ممن جهل معرفته، كان آثما بفعله ذلك غاشا لعوام المسلمين، إذ لا يؤمن على بعض من سمع تلك الاخبار، ان يستعملها، او يستعمل بعضها، ولعلها، او اكثرها اكاذيب لا اصل لها، مع ان الاخبار الصحاح من رواية الثقات واهل القناعة، اكثر من ان يضطر إلى نقل من ليس بثقة، ولا مقنع،وَإِنَّمَا أَلْزَمُوا أَنْفُسَهُمُ الْكَشْفَ عَنْ مَعَايِبِ رُوَاةِ الْحَدِيثِ، وَنَاقِلِي الأَخْبَارِ، وَأَفْتَوْا بِذَلِكَ حِينَ سُئِلُوا لِمَا فِيهِ مِنْ عَظِيمِ الْخَطَرِ، إِذْ الأَخْبَارُ فِي أَمْرِ الدِّينِ، إِنَّمَا تَأْتِي بِتَحْلِيلٍ، أَوْ تَحْرِيمٍ، أَوْ أَمْرٍ، أَوْ نَهْيٍ، أَوْ تَرْغِيبٍ، أَوْ تَرْهِيبٍ، فَإِذَا كَانَ الرَّاوِي لَهَا لَيْسَ بِمَعْدِنٍ لِلصِّدْقِ وَالأَمَانَةِ، ثُمَّ أَقْدَمَ عَلَى الرِّوَايَةِ عَنْهُ مَنْ قَدْ عَرَفَهُ، وَلَمْ يُبَيِّنْ مَا فِيهِ لِغَيْرِهِ مِمَّنْ جَهِلَ مَعْرِفَتَهُ، كَانَ آثِمًا بِفِعْلِهِ ذَلِكَ غَاشًّا لِعَوَامِّ الْمُسْلِمِينَ، إِذْ لَا يُؤْمَنُ عَلَى بَعْضِ مَنْ سَمِعَ تِلْكَ الأَخْبَارَ، أَنْ يَسْتَعْمِلَهَا، أَوْ يَسْتَعْمِلَ بَعْضَهَا، وَلَعَلَّهَا، أَوْ أَكْثَرَهَا أَكَاذِيبُ لَا أَصْلَ لَهَا، مَعَ أَنَّ الأَخْبَارَ الصِّحَاحَ مِنْ رِوَايَةِ الثِّقَاتِ وَأَهْلِ الْقَنَاعَةِ، أَكْثَرُ مِنْ أَنْ يُضْطَرَّ إِلَى نَقْلِ مَنْ لَيْسَ بِثِقَةٍ، وَلَا مَقْنَعٍ، اور حدیثوں کے اماموں نے راویوں کا عیب کھول دینا ضروری سمجھا اور اس بات کا فتویٰ دیا۔ جب ان سے پوچھا گیا اس لئے کہ یہ بڑا اہم کام ہے۔ کیونکہ دین کی بات جب نقل کی جائے گی تو وہ کسی امر کے حلال ہونے کے لئے ہو گی یا حرام ہونے کے لئے یا اس میں کسی بات کا حکم ہو گا یا کسی بات کی ممانعت ہو گی یا کسی کام کی طرف رغبت دلائی جائے یا کسی کام سے ڈرایا جائے گا۔ بہرحال جب راوی سچا اور امانت دار نہ ہو پھر اس سے کوئی روایت کرے جو اس کے حال کو جانتا ہو اور وہ حال دوسرے سے بیان نہ کرے جو نہ جانتا ہو تو گنہگار ہو گا اور دھوکا دینے والا ہو گا عام مسلمانوں کو۔ اس لئے کہ بعض لوگ ان حدیثوں کو سنیں گے اور ان سب پر یا بعض پر عمل کریں گے اور شاید وہ سب یا ان میں سے اکثر جھوٹی ہوں۔ (اور بعض نسخوں میں یہ ہے کہ ان میں کم یا بہت جھوٹی ہوں) جن کی اصل نہ ہو حالانکہ صحیح حدیثیں ثقہ لوگوں کی اور جن کی روایت پر قناعت ہو سکتی ہے کیا کم ہیں کہ بے اعتبار اور جن کی روایت پر قناعت نہیں ہو سکتی ان کی روایتوں کی احتیاج پڑے۔
ولا احسب كثيرا ممن يعرج من الناس، على ما وصفنا من هذه الاحاديث الضعاف، والاسانيد المجهولة، ويعتد بروايتها بعد معرفته بما فيها من التوهن، والضعف، إلا ان الذي يحمله على روايتها، والاعتداد بها إرادة التكثر بذلك عند العوام، ولان يقال: ما اكثر ما جمع فلان من الحديث، والف من العدد، ومن ذهب في العلم هذا المذهب، وسلك هذا الطريق، فلا نصيب له فيه، وكان بان يسمى جاهلا اولى من ان ينسب إلى علموَلَا أَحْسِبُ كَثِيرًا مِمَّنْ يُعَرِّجُ مِنَ النَّاسِ، عَلَى مَا وَصَفْنَا مِنْ هَذِهِ الأَحَادِيثِ الضِّعَافِ، وَالأَسَانِيدِ الْمَجْهُولَةِ، وَيَعْتَدُّ بِرِوَايَتِهَا بَعْدَ مَعْرِفَتِهِ بِمَا فِيهَا مِنَ التَّوَهُّنِ، وَالضَّعْفِ، إِلَّا أَنَّ الَّذِي يَحْمِلُهُ عَلَى رِوَايَتِهَا، وَالِاعْتِدَادِ بِهَا إِرَادَةُ التَّكَثُّرِ بِذَلِكَ عِنْدَ الْعَوَامِّ، وَلِأَنْ يُقَالَ: مَا أَكْثَرَ مَا جَمَعَ فُلَانٌ مِنَ الْحَدِيثِ، وَأَلَّفَ مِنَ الْعَدَدِ، وَمَنْ ذَهَبَ فِي الْعِلْمِ هَذَا الْمَذْهَبَ، وَسَلَكَ هَذَا الطَّرِيقَ، فَلَا نَصِيبَ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ بِأَنْ يُسَمَّى جَاهِلًا أَوْلَى مَنْ أَنْ يُنْسَبَ إِلَى عِلْمٍ اور میں سمجھتا ہوں کہ جن لوگوں نے اس قسم کی ضعیف حدیثیں اور مجہول سندیں نقل کی ہیں اور ان میں مصروف ہیں اور وہ جانتے ہیں ان کے ضعف کو، تو ان کی غرض یہ ہے کہ عوام کے نزدیک اپنا کثرت علم ثابت کریں اور اس لئے کہ لوگ کہیں سبحان اللہ! فلاں شخص نے کتنی زیادہ حدیثیں جمع کی ہیں۔ اور جس شخص کی یہ چال ہے اور اس کا یہ طریقہ ہے، اس کا علم، حدیث میں کچھ نہیں اور وہ جاہل کہلانے کا زیادہ سزاوار ہے عالم کہلانے سے۔
|