۔ محمود بن غیلان نے کہا: میں نے ابوداود طیالسی سے کہا: آپ نے عباد بن منصور سے بہت زیادہ روایتیں لی ہیں، پھر کیا ہوا کہ آپ نے عطارہ والی روایت جو نضر بن شمیل نے ہمارے سامنے بیان کی، ان سے نہیں سنی؟ انہوں نے مجھ سے کہا: خاموش رہو، میں اور عبد الرحمن بن مہدی زیاد بن میمون سے ملے اور اس سے پوچھتے ہوئے کہا: یہ احادیث جو تم حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہو (کیا ہیں؟) تو وہ کہنے لگا: تم دونوں دیکھو کہ ایک آدمی گناہ کرتا ہے، پھر توبہ کر لیتا ہے تو کیا اللہ اس کی توبہ قبول نہیں کرتا! کہا: ہم نے کہا: ہاں۔ اس نے کہا: میں نے ان (احادیث) میں سے انس رضی اللہ عنہ سے کچھ نہیں سنا، نہ کم نہ زیادہ، اگر لوگ نہیں جانتے تو (کیا) تم دونوں بھی نہیں جانتے کہ میں انس رضی اللہ عنہ سے نہیں ملا!۔ ابوداود نے کہا: پھر ہمیں یہ خبر پہنچی کہ وہ (وہی) روایتیں بیان کرتا ہے تو میں اور عبد الرحمن اس کے پاس آئے تو وہ کہنے لگا: میں توبہ کرتا ہوں، پھر اس کے بعد بھی وہ وہی حدیثیں بیان کرتا تھا تو ہم نے اسے (اس کے حال پر) چھوڑ دیا۔
محمود بن غیلان ؒ کہتے ہیں: میں نے ابوداؤد طیالسیؒ سے کہا: آپ نے عباد بن منصور سے بہت سی روایات بیان کی ہیں، تو کیا وجہ ہے؟ آپ نے اس سے عطارہ کی حدیث نہیں سنی، جو ہمیں نضر بن شمیل ؒنے سنائی ہے؟ انھوں نے مجھ سے کہا: ”خاموش ہو جا! کیونکہ میں اور عبدالرحمٰن بن مہدیؒ دونوں زیاد بن میمون کو ملے، تو ہم نے اس سے پوچھا: یہ احادیث جو تم حضرت انسؓ سے بیان کرتے ہو؟ (ان کی کیا حقیقت ہے) تو اس نے کہا: بتاؤ ایک آدمی گناہ کرتا ہے، پھر توبہ کر لیتا ہے، تو کیا اللہ اس کی توبہ قبول نہیں کرلیتا؟ ہم نے کہا معاف کر دیتا ہے۔ اس نے کہا میں نے ان احادیث میں سے کم یا زیادہ حضرت انسؓ سے کچھ نہیں سنا، اگر عام لوگوں کو علم نہیں ہے تو کیا آپ دونوں کو بھی علم نہیں ہے؟ میری حضرت انسؓ سے ملاقات ہی نہیں ہوئی۔ ابو داؤد ؒ کہتے ہیں: ہمیں بعد میں خبر پہنچی، کہ وہ پھر حضرت انسؓ سے روایت کرتا ہے، تو میں اور عبدالرحمٰن بن مہدیؒ اس کے پاس آئے، تو اس نے کہا: میں توبہ کرتا ہوں، بعد میں وہ پھر بیان کرنے لگا، تو ہم نے اس کو چھوڑ دیا (کہ یہ تو جھوٹا آدمی ہے)۔“