حدثنا ابو غسان محمد بن عمرو الرازي، قال: سمعت جريرا، يقول:" لقيت جابر بن يزيد الجعفي، فلم اكتب عنه، كان يؤمن بالرجعة.حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّازِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ جَرِيرًا، يَقُولُ:" لَقِيتُ جَابِرَ بْنَ يَزِيدَ الْجُعْفِيَّ، فَلَمْ أَكْتُبْ عَنْهُ، كَانَ يُؤْمِنُ بِالرَّجْعَةِ.
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 52
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: رجعت رافضیوں کا عقیدہ ہے، جس سے مراد یہ عقیدہ ہے کہ حضرت علیؓ بادلوں میں زندہ ہیں، جب ان کی اولاد سے امام کا ظہور ہوگا، تو وہ بادلوں سے آواز دیں گے، اے لوگو! اس کے ساتھ جہاد کے لیے نکلو، ظاہر ہے، یہ ایک باطل اور غلط عقیدہ ہے، جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کا قول ہے"مَا لَقِيْتُ أَكْذَبَ مِنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ" ”میں نے جابر جعفی سے بڑا جھوٹا نہیں دیکھا۔ “(فتح الملہم: ج: 1، ص: 135) ۔