صحيح مسلم
مُقَدِّمَةٌ
مقدمہ
6ق. باب الْكَشْفِ عَنْ مَعَايِبِ رُوَاةِ الْحَدِيثِ وَنَقَلَةِ الأَخْبَارِ وَقَوْلِ الأَئِمَّةِ فِي ذَلِكَ
باب: حدیث کے راویوں کا عیب بیان کرنا درست ہے اور وہ غیبت میں داخل نہیں۔
حدیث نمبر: 52
حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّازِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ جَرِيرًا، يَقُولُ:" لَقِيتُ جَابِرَ بْنَ يَزِيدَ الْجُعْفِيَّ، فَلَمْ أَكْتُبْ عَنْهُ، كَانَ يُؤْمِنُ بِالرَّجْعَةِ.
جریر کہتے ہیں: میں جابر بن یزید جعفی سے ملا تو میں نے اس سے حدیث نہ لکھی، وہ رجعت پر ایمان رکھتا تھا۔
جریرؒ کہتے ہیں: ”میں جابر بن یزید جعفی سے ملا، لیکن میں نے اس سے حدیثیں نہیں لکھیں، کیونکہ وہ رجعت پر ایمان رکھتا تھا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18476)»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 52 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 52
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
رجعت رافضیوں کا عقیدہ ہے،
جس سے مراد یہ عقیدہ ہے کہ حضرت علیؓ بادلوں میں زندہ ہیں،
جب ان کی اولاد سے امام کا ظہور ہوگا،
تو وہ بادلوں سے آواز دیں گے،
اے لوگو! اس کے ساتھ جہاد کے لیے نکلو،
ظاہر ہے،
یہ ایک باطل اور غلط عقیدہ ہے،
جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔
امام ابو حنیفہؒ کا قول ہے"مَا لَقِيْتُ أَكْذَبَ مِنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ" ”میں نے جابر جعفی سے بڑا جھوٹا نہیں دیکھا۔
“ (فتح الملہم:
ج: 1،
ص: 135)
۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 52