مُقَدِّمَةٌ مقدمہ Introduction 1. بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ شروع کرتا ہوں میں اللہ جل جلالہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ Chapter: …. الحمد لله رب العالمين والعاقبة للمتقين وصلى الله على محمد خاتم النبيين وعلى جميع الانبياء والمرسلين.الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ وَصَلَّى اللَّهُ عَلَى مُحَمَّدٍ خَاتَمِ النَّبِيِّينَ وَعَلَى جَمِيعِ الأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِينَ. شروع سب سے زیادہ رحم کرنے والے، ہمیشہ مہربانی کرنے والے اللہ کے نام سے۔ تمام تر حمد و ثنا سارے جہانوں کے پالنے والے اللہ کے لیے اور بہترین جزا تقویٰ اختیار کرنے والوں کے لیے ہے۔ اللہ خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی رحمت نازل فرمائے اور تمام نبیوں اور رسولوں پر بھی۔
اما بعد فإنك يرحمك الله بتوفيق خالقك ذكرت انك هممت بالفحص عن تعرف جملة الاخبار الماثورة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في سنن الدين واحكامه وما كان منها في الثواب والعقاب والترغيب والترهيب وغير ذلك من صنوف الاشياء بالاسانيد التي بها نقلت وتداولها اهل العلم فيما بينهم فاردت- ارشدك الله- ان توقف على جملتها مؤلفة محصاة وسالتني ان الخصها لك في التاليف بلا تكرار يكثر فإن ذلك- زعمت- مما يشغلك عما له قصدت من التفهم فيها والاستنباط منها. وللذي سالت- اكرمك الله- حين رجعت إلى تدبره وما تؤول به الحال إن شاء الله عاقبة محمودة ومنفعة موجودة وظننت- حين سالتني تجشم ذلك- ان لو عزم لي عليه وقضي لي تمامه كان اول من يصيبه نفع ذلك إياي خاصة قبل غيري من الناس لاسباب كثيرة يطول بذكرها الوصف إلا ان جملة ذلك ان ضبط القليل من هذا الشان وإتقانه ايسر على المرء من معالجة الكثير منه. ولاسيما عند من لا تمييز عنده من العوام إلا بان يوقفه على التمييز غيره. فإذا كان الامر في هذا كما وصفنا فالقصد منه إلى الصحيح القليل اولى بهم من ازدياد السقيم وإنما يرجى بعض المنفعة في الاستكثار من هذا الشان وجمع المكررات منه لخاصة من الناس ممن رزق فيه بعض التيقظ والمعرفة باسبابه وعلله فذلك إن شاء الله يهجم بما اوتي من ذلك على الفائدة في الاستكثار من جمعه. فاما عوام الناس الذين هم بخلاف معاني الخاص من اهل التيقظ والمعرفة فلا معنى لهم في طلب الكثير وقد عجزوا عن معرفة القليل.أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّكَ يَرْحَمُكَ اللَّهُ بِتَوْفِيقِ خَالِقِكَ ذَكَرْتَ أَنَّكَ هَمَمْتَ بِالْفَحْصِ عَنْ تَعَرُّفِ جُمْلَةِ الأَخْبَارِ الْمَأْثُورَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سُنَنِ الدِّينِ وَأَحْكَامِهِ وَمَا كَانَ مِنْهَا فِي الثَّوَابِ وَالْعِقَابِ وَالتَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيبِ وَغَيْرِ ذَلِكَ مِنْ صُنُوفِ الأَشْيَاءِ بِالأَسَانِيدِ الَّتِي بِهَا نُقِلَتْ وَتَدَاوَلَهَا أَهْلُ الْعِلْمِ فِيمَا بَيْنَهُمْ فَأَرَدْتَ- أَرْشَدَكَ اللَّهُ- أَنْ تُوَقَّفَ عَلَى جُمْلَتِهَا مُؤَلَّفَةً مُحْصَاةً وَسَأَلْتَنِي أَنْ أُلَخِّصَهَا لَكَ فِي التَّأْلِيفِ بِلاَ تَكْرَارٍ يَكْثُرُ فَإِنَّ ذَلِكَ- زَعَمْتَ- مِمَّا يَشْغَلُكَ عَمَّا لَهُ قَصَدْتَ مِنَ التَّفَهُّمِ فِيهَا وَالاِسْتِنْبَاطِ مِنْهَا. وَلِلَّذِي سَأَلْتَ- أَكْرَمَكَ اللَّهُ- حِينَ رَجَعْتُ إِلَى تَدَبُّرِهِ وَمَا تَؤُولُ بِهِ الْحَالُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ عَاقِبَةٌ مَحْمُودَةٌ وَمَنْفَعَةٌ مَوْجُودَةٌ وَظَنَنْتُ- حِينَ سَأَلْتَنِي تَجَشُّمَ ذَلِكَ- أَنْ لَوْ عُزِمَ لِي عَلَيْهِ وَقُضِيَ لِي تَمَامُهُ كَانَ أَوَّلُ مَنْ يُصِيبُهُ نَفْعُ ذَلِكَ إِيَّايَ خَاصَّةً قَبْلَ غَيْرِي مِنَ النَّاسِ لأَسْبَابٍ كَثِيرَةٍ يَطُولُ بِذِكْرِهَا الْوَصْفُ إِلاَّ أَنَّ جُمْلَةَ ذَلِكَ أَنَّ ضَبْطَ الْقَلِيلِ مِنْ هَذَا الشَّانِ وَإِتْقَانَهُ أَيْسَرُ عَلَى الْمَرْءِ مِنْ مُعَالَجَةِ الْكَثِيرِ مِنْهُ. ولاسيما عِنْدَ مَنْ لاَ تَمْيِيزَ عِنْدَهُ مِنَ الْعَوَامِّ إِلاَّ بِأَنْ يُوَقِّفَهُ عَلَى التَّمْيِيزِ غَيْرُهُ. فَإِذَا كَانَ الأَمْرُ فِي هَذَا كَمَا وَصَفْنَا فَالْقَصْدُ مِنْهُ إِلَى الصَّحِيحِ الْقَلِيلِ أَوْلَى بِهِمْ مِنَ ازْدِيَادِ السَّقِيمِ وَإِنَّمَا يُرْجَى بَعْضُ الْمَنْفَعَةِ فِي الاِسْتِكْثَارِ مِنْ هَذَا الشَّانِ وَجَمْعِ الْمُكَرَّرَاتِ مِنْهُ لِخَاصَّةٍ مِنَ النَّاسِ مِمَّنْ رُزِقَ فِيهِ بَعْضَ التَّيَقُّظِ وَالْمَعْرِفَةِ بِأَسْبَابِهِ وَعِلَلِهِ فَذَلِكَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ يَهْجُمُ بِمَا أُوتِيَ مِنْ ذَلِكَ عَلَى الْفَائِدَةِ فِي الاِسْتِكْثَارِ مِنْ جَمْعِهِ. فَأَمَّا عَوَامُّ النَّاسِ الَّذِينَ هُمْ بِخِلاَفِ مَعَانِي الْخَاصِّ مِنْ أَهْلِ التَّيَقُّظِ وَالْمَعْرِفَةِ فَلاَ مَعْنَى لَهُمْ فِي طَلَبِ الْكَثِيرِ وَقَدْ عَجَزُوا عَنْ مَعْرِفَةِ الْقَلِيلِ. اس کے بعد! اللہ آپ رحم فرمائے! بلاشبہ آپ نے اپنے پیدا کرنے والے کی توفیق سے یہ ذکر کیا ہے کہ آپ دین کے طریقوں اور احکام کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (امت تک) پہنچنے والی تمام احادیث کو ان کی منقولہ اسناد سمیت جاننا چاہتے ہیں اور ان احادیث کو بھی جو ثواب اور عذاب، رغبت دلانے اور ڈرانے اور ان جیسی دوسری چیزوں کے بارے میں ہیں اور اہل علم نے ایک دوسرے سے لیں اور پہنچائیں۔ اللہ آپ کی رہنمائی فرمائے! آپ چاہتے ہیں کہ یہ تمام احادیث شمار کر کے مجموعے کی شکل میں آپ کی دسترس میں لائی جائیں۔ آپ نے مجھ سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ میں ان احادیث کو زیادہ تکرار کے بغیر آپ کے لیے ایک تالیف کی شکل میں ملخص کر دوں کیونکہ آپ سمجھتے ہیں کہ یہ (تکرار) ان احادیث کو اچھی طرح سمجھنے اور ان سے استنباط کرنے میں آپ کے لیے رکاوٹ کا باعث بنے گا جو کہ آپ کا (اصل) مقصد ہے۔ (اللہ آپ کو عزت دے!) آپ نے جس چیز کا (مجھ سے) مطالبہ کیا ہے، جب میں نے اس کے اور اس سے حاصل ہونے والے ثمرات کے بارے میں غور و فکر کی طرف رجوع کیا تو (مجھے یقین ہو گیا کہ) ان شاء اللہ اس کے نتائج قابل تعریف اور فوائد یقینی ہوں گے۔ اور جب آپ نے مجھ سے اس کام کی زحمت اٹھانے کا مطالبہ کیا تو مجھے یقین ہو گیا کہ اگر مجھے اس کی توفیق ملی اور اللہ کی طرف سے اس کے مکمل ہونے کا فیصلہ ہوا تو پہلا شخص، جسے دوسرے لوگوں سے قبل اس سے خاص طور پر فائدہ ہو گا، وہ میں خود ہوں گا۔ اس کی وجوہات اتنی زیادہ ہیں کہ ان کا ذکر طوالت کا باعث ہو گا، البتہ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان خصوصیات کی حامل کم احادیث کو محفوظ رکھنا اور ان میں اچھی طرح مہارت حاصل کرنا انسان کے لیے کثیر احادیث کو سنبھالنے کی نسبت زیادہ آسان ہے، خصوصاًً عوام میں سے ایک ایسے شخص کے لیے جو اس وقت تک ان میں (سے صحیح اور ضعیف کے بار ے میں بھی) امتیاز نہیں کر سکتا جب تک کوئی دوسرا اسے اس فرق سے آگاہ نہ کرے۔ جب معاملہ اسی طرح ہے جیسے ہم نے بیان کیا تو کم تعداد میں صحیح (احادیث) چن لینا کثیر تعداد میں ضعیف احادیث کو جمع کرنے سے کہیں بہتر ہے۔ یہ بات (اپنی جگہ) درست ہے کہ بہت سی احادیث کو اکٹھا کرنے اور مکرر (احادیث) کو جمع کرنے کے بھی کچھ فوائد ہیں، خصوصاًً ان لوگوں کے لیے جنہیں اس (علم) میں کسی قدر شعور اور اسباب وعلل کی معرفت سے نوازا گیا ہے۔ اللہ کی مشیت سے ایسا انسان ان خصوصیات کی وجہ سے جو اسے عطا کی گئی ہیں، کثیر احادیث کے مجموعے سے فائدہ حاصل کر سکتا ہے لیکن جہاں تک عوام الناس کا تعلق ہے جو شعو و معرفت رکھنے والے خواص سے مختلف ہیں، وہ کم احادیث کی معرفت سے بھی عاجز ہیں تو ان کے لیے کثیر احادیث کے حصول میں کوئی فائدہ نہیں۔
ثم إنا إن شاء الله مبتدئون في تخريج ما سالت وتاليفه على شريطة سوف اذكرها لك وهو إنا نعمد إلى جملة ما اسند من الاخبار عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فنقسمها على ثلاثة اقسام وثلاث طبقات من الناس على غير تكرار. إلا ان ياتي موضع لا يستغنى فيه عن ترداد حديث فيه زيادة معنى او إسناد يقع إلى جنب إسناد لعلة تكون هناك لان المعنى الزائد في الحديث المحتاج إليه يقوم مقام حديث تام فلابد من إعادة الحديث الذي فيه ما وصفنا من الزيادة او ان يفصل ذلك المعنى من جملة الحديث على اختصاره إذا امكن. ولكن تفصيله ربما عسر من جملته فإعادته بهيئته إذا ضاق ذلك اسلم فاما ما وجدنا بدا من إعادته بجملته من غير حاجة منا إليه فلا نتولى فعله إن شاء الله تعالى. فاما القسم الاول فإنا نتوخى ان نقدم الاخبار التي هي اسلم من العيوب من غيرها وانقى من ان يكون ناقلوها اهل استقامة في الحديث وإتقان لما نقلوا لم يوجد في روايتهم اختلاف شديد ولا تخليط فاحش كما قد عثر فيه على كثير من المحدثين وبان ذلك في حديثهم فإذا نحن تقصينا اخبار هذا الصنف من الناس اتبعناها اخبارا يقع في اسانيدها بعض من ليس بالموصوف بالحفظ والإتقان كالصنف المقدم قبلهم على انهم وإن كانوا فيما وصفنا دونهم فإن اسم الستر والصدق وتعاطي العلم يشملهم كعطاء بن السائب ويزيد بن ابي زياد وليث بن ابي سليمثُمَّ إِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ مُبْتَدِئُونَ فِي تَخْرِيجِ مَا سَأَلْتَ وَتَأْلِيفِهِ عَلَى شَرِيطَةٍ سَوْفَ أَذْكُرُهَا لَكَ وَهُوَ إِنَّا نَعْمِدُ إِلَى جُمْلَةِ مَا أُسْنِدَ مِنَ الأَخْبَارِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَقْسِمُهَا عَلَى ثَلاَثَةِ أَقْسَامٍ وَثَلاَثِ طَبَقَاتٍ مِنَ النَّاسِ عَلَى غَيْرِ تَكْرَارٍ. إِلاَّ أَنْ يَأْتِيَ مَوْضِعٌ لاَ يُسْتَغْنَى فِيهِ عَنْ تَرْدَادِ حَدِيثٍ فِيهِ زِيَادَةُ مَعْنًى أَوْ إِسْنَادٌ يَقَعُ إِلَى جَنْبِ إِسْنَادٍ لِعِلَّةٍ تَكُونُ هُنَاكَ لأَنَّ الْمَعْنَى الزَّائِدَ فِي الْحَدِيثِ الْمُحْتَاجَ إِلَيْهِ يَقُومُ مَقَامَ حَدِيثٍ تَامٍّ فلابد مِنْ إِعَادَةِ الْحَدِيثِ الَّذِي فِيهِ مَا وَصَفْنَا مِنَ الزِّيَادَةِ أَوْ أَنْ يُفَصَّلَ ذَلِكَ الْمَعْنَى مِنْ جُمْلَةِ الْحَدِيثِ عَلَى اخْتِصَارِهِ إِذَا أَمْكَنَ. وَلَكِنْ تَفْصِيلُهُ رُبَّمَا عَسُرَ مِنْ جُمْلَتِهِ فَإِعَادَتُهُ بِهَيْئَتِهِ إِذَا ضَاقَ ذَلِكَ أَسْلَمُ فَأَمَّا مَا وَجَدْنَا بُدًّا مِنْ إِعَادَتِهِ بِجُمْلَتِهِ مِنْ غَيْرِ حَاجَةٍ مِنَّا إِلَيْهِ فَلاَ نَتَوَلَّى فِعْلَهُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى. فَأَمَّا الْقِسْمُ الأَوَّلُ فَإِنَّا نَتَوَخَّى أَنْ نُقَدِّمَ الأَخْبَارَ الَّتِي هِيَ أَسْلَمُ مِنَ الْعُيُوبِ مِنْ غَيْرِهَا وَأَنْقَى مِنْ أَنْ يَكُونَ نَاقِلُوهَا أَهْلَ اسْتِقَامَةٍ فِي الْحَدِيثِ وَإِتْقَانٍ لِمَا نَقَلُوا لَمْ يُوجَدْ فِي رِوَايَتِهِمِ اخْتِلاَفٌ شَدِيدٌ وَلاَ تَخْلِيطٌ فَاحِشٌ كَمَا قَدْ عُثِرَ فِيهِ عَلَى كَثِيرٍ مِنَ الْمُحَدِّثِينَ وَبَانَ ذَلِكَ فِي حَدِيثِهِمْ فَإِذَا نَحْنُ تَقَصَّيْنَا أَخْبَارَ هَذَا الصِّنْفِ مِنَ النَّاسِ أَتْبَعْنَاهَا أَخْبَارًا يَقَعُ فِي أَسَانِيدِهَا بَعْضُ مَنْ لَيْسَ بِالْمَوْصُوفِ بِالْحِفْظِ وَالإِتْقَانِ كَالصِّنْفِ الْمُقَدَّمِ قَبْلَهُمْ عَلَى أَنَّهُمْ وَإِنْ كَانُوا فِيمَا وَصَفْنَا دُونَهُمْ فَإِنَّ اسْمَ السِّتْرِ وَالصِّدْقِ وَتَعَاطِي الْعِلْمِ يَشْمَلُهُمْ كَعَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ وَيَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ وَلَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ پھر آپ نے جس (کتاب) کا مطالبہ کیا ہم ان شاء اللہ اس التزام کے ساتھ اس کی اس کی تخریج (مختلف پہلوؤں سے اس کی وضاحت) اور تالیف کا آغاز کرتے ہیں جس کا میں آپ کے سامنے ذکر کرنے لگا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہم ان تمام احادیث کو لے لیں گے جو سنداًً نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی گئیں اور تکرار کے بغیر انہیں تین اقسام اور (بیان کرنے والے) لوگوں کے تین طبقوں کے مطابق تقسیم کریں گے، الا یہ کہ کوئی ایسا مقام آ جائے جہاں کسی حدیث کو دوبارہ ذکر کیے بغیر چارہ نہ ہو، (مثلاًً:) اس میں کوئی معنیٰ زیادہ ہو یا کوئی سند ایسی ہو جو کسی علت یاسبب کی بنا پر دوسری سند کے پہلو بہ پہلو آئی ہو کیونکہ حدیث میں ایک زائد معنیٰ، جس کی ضرورت ہو، ایک مکمل حدیث کے قائم مقام ہوتا ہے، اس لیے ایسی حدیث کو، جس میں ہمارا بیان کردہ کوئی (معنوی) اضافہ پایا جاتا ہے، دوبارہ لائے بغیر چارہ نہیں یا جب ممکن ہوا تو ہم اس معنیٰ کو اختصار کے ساتھ پوری حدیث سے الگ (کر کے) بیان کر دیں گے لیکن بسا اوقات اسے پوری حدیث سے الگ کرنا مشکل ہوتا ہے اور جب اس کی گنجائش نہ ہو تو اسے اصل شکل میں دوبارہ بیان کرنا زیادہ محفوظ ہوتا ہے، البتہ جہاں ہمارے لیے اسے مکمل طور پر دہرانے سے بچنا ممکن ہو گا اور (کامل شکل میں) ہمیں اس کی ضرورت نہ ہو گی تو ہم ان شاء اللہ اس سے اجتناب کریں گے۔ جہاں تک پہلی قسم کا تعلق ہے (اس میں) ہم یہ کوشش کریں گے کہ انہی احادیث کو ترجیح دیں جو دوسری احادیث کی نسبت (فنی) خامیوں سے زیادہ محفوظ اور زیادہ پاک ہوں، یعنی ان کے ناقلین (راوی) نقل حدیث میں صحت اور ثقاہت رکھنے والے ہوں، ان کی روایت میں شدید اختلاف پایا جائے نہ (الفاظ ومعانی کو) بہت برے طریقے سے خلط ملط کیا گیا ہو جس طرح کہ بہت سے احادیث بیان کرنے والوں میں پایا گیا ہے اور ان کی روایت میں یہ چیز واضح ہو چکی ہے۔ جب ہم اس قسم کے (ثقہ) لوگوں کی مرویات کا احاطہ کر لیں گے تو بعد ازیں ایسی روایات لائیں گے جن کی سندوں میں کوئی ایسے راوی موجود ہوں گے جو طبقہ اولیٰ جیسے (راویوں کے) حفظ واتقان سے متصف نہیں لیکن وہ بھی (انہی میں سے ہیں) چاہے ان صفات میں ان سے ذرا کم ہیں جن کو ان سے مقدم رکھا گیا ہے لیکن عفت، صدق اور علم سے شغف رکھنے جیسی صفات ان میں عام ہوں، جس طرح عطاء بن سائب، یزید بن ابی زیاد، لیث بن ابی سلیم اور ان کی طرح کے (دیگر) حاملین آثار اور ناقلین اخبار ہیں۔
واضرابهم من حمال الآثار ونقال الاخبار. فهم وإن كانوا بما وصفنا من العلم والستر عند اهل العلم معروفين فغيرهم من اقرانهم ممن عندهم ما ذكرنا من الإتقان والاستقامة في الرواية يفضلونهم في الحال والمرتبة لان هذا عند اهل العلم درجة رفيعة وخصلة سنيةوَأَضْرَابِهِمْ مِنْ حُمَّالِ الآثَارِ وَنُقَّالِ الأَخْبَارِ. فَهُمْ وَإِنْ كَانُوا بِمَا وَصَفْنَا مِنَ الْعِلْمِ وَالسِّتْرِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مَعْرُوفِينَ فَغَيْرُهُمْ مِنْ أَقْرَانِهِمْ مِمَّنْ عِنْدَهُمْ مَا ذَكَرْنَا مِنَ الإِتْقَانِ وَالاِسْتِقَامَةِ فِي الرِّوَايَةِ يَفْضُلُونَهُمْ فِي الْحَالِ وَالْمَرْتَبَةِ لأَنَّ هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ دَرَجَةٌ رَفِيعَةٌ وَخَصْلَةٌ سَنِيَّةٌ یہ حضرات اگرچہ اہل علم کے ہاں علم اور عفت (جیسی صفات) میں معروف ہیں لیکن ان کے ہم عصر لوگوں میں سے (بعض) دیگر حضرات ایسے ہیں جو اتقان اور روایت کی صحت کے معاملے میں اپنے مقام اور مرتبے کے اعتبار سے ان سے افضل ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل علم کے ہاں یہ (حفظ واتقان) ایک بہت اونچا مرتبہ اور ایک اعلیٰ ترین صفت ہے۔
الا ترى انك إذا وازنت هؤلاء الثلاثة الذين سميناهم عطاء ويزيد وليثا بمنصور بن المعتمر وسليمان الاعمش وإسماعيل بن ابي خالد في إتقان الحديث والاستقامة فيه وجدتهم مباينين لهم لا يدانونهم لا شك عند اهل العلم بالحديث في ذلك للذي استفاض عندهم من صحة حفظ منصور والاعمش وإسماعيل وإتقانهم لحديثهم وانهم لم يعرفوا مثل ذلك من عطاء ويزيد وليثأَلاَ تَرَى أَنَّكَ إِذَا وَازَنْتَ هَؤُلاَءِ الثَّلاَثَةَ الَّذِينَ سَمَّيْنَاهُمْ عَطَاءً وَيَزِيدَ وَلَيْثًا بِمَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ وَسُلَيْمَانَ الأَعْمَشِ وَإِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ فِي إِتْقَانِ الْحَدِيثِ وَالاِسْتِقَامَةِ فِيهِ وَجَدْتَهُمْ مُبَايِنِينَ لَهُمْ لاَ يُدَانُونَهُمْ لاَ شَكَّ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالْحَدِيثِ فِي ذَلِكَ لِلَّذِي اسْتَفَاضَ عِنْدَهُمْ مِنْ صِحَّةِ حِفْظِ مَنْصُورٍ وَالأَعْمَشِ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِتْقَانِهِمْ لِحَدِيثِهِمْ وَأَنَّهُمْ لَمْ يَعْرِفُوا مِثْلَ ذَلِكَ مِنْ عَطَاءٍ وَيَزِيدَ وَلَيْثٍ آپ دیکھتے نہیں کہ ان تینوں حضرات: عطاء، یزید اور لیث، جن کا ہم نے ابھی نام لیا، کا موازنہ حدیث کے حفظ و اتقان میں منصور بن معتمر، سلیمان اعمش اور اسماعیل بن ابی خالد سے کریں تو انہیں آپ ان حضرات سے خاصے فاصلے پر پائیں گے، یہ ان کے قریب بھی نہیں آپاتے۔ ماہرین علم حدیث کو اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ منصور، اعمش اور اسماعیل کے ہاں حفظ کی صحت اور حدیث بیان کرنے میں مہارت کی جو صفات فراواں اہل علم کو نظر آتی ہیں ان کے نزدیک وہ عطاء، یزید اور لیث کے ہاں اس طرح معروف نہیں۔
وفي مثل مجرى هؤلاء إذا وازنت بين الاقران كابن عون وايوب السختياني مع عوف بن ابي جميلة واشعث الحمراني وهما صاحبا الحسن وابن سيرين كما ان ابن عون وايوب صاحباهما إلا ان البون بينهما وبين هذين بعيد في كمال الفضل وصحة النقل وإن كان عوف واشعث غير مدفوعين عن صدق وامانة عند اهل العلم ولكن الحال ما وصفنا من المنزلة عند اهل العلم وإنما مثلنا هؤلاء في التسمية ليكون تمثيلهم سمة يصدر عن فهمها من غبي عليه طريق اهل العلم في ترتيب اهله فيه فلا يقصر بالرجل العالي القدر عن درجته ولا يرفع متضع القدر في العلم فوق منزلته ويعطى كل ذي حق فيه حقه وينزل منزلته. وقد ذكر عن عائشة رضي الله تعالى عنها انها قالت امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان ننزل الناس منازلهم. مع ما نطق به القرآن من قول الله تعالى:{وفوق كل ذي علم عليم}وَفِي مِثْلِ مَجْرَى هَؤُلاَءِ إِذَا وَازَنْتَ بَيْنَ الأَقْرَانِ كَابْنِ عَوْنٍ وَأَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ مَعَ عَوْفِ بْنِ أَبِي جَمِيلَةَ وَأَشْعَثَ الْحُمْرَانِيِّ وَهُمَا صَاحِبَا الْحَسَنِ وَابْنِ سِيرِينَ كَمَا أَنَّ ابْنَ عَوْنٍ وَأَيُّوبَ صَاحِبَاهُمَا إِلاَّ أَنَّ الْبَوْنَ بَيْنَهُمَا وَبَيْنَ هَذَيْنِ بَعِيدٌ فِي كَمَالِ الْفَضْلِ وَصِحَّةِ النَّقْلِ وَإِنْ كَانَ عَوْفٌ وَأَشْعَثُ غَيْرَ مَدْفُوعَيْنِ عَنْ صِدْقٍ وَأَمَانَةٍ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ وَلَكِنَّ الْحَالَ مَا وَصَفْنَا مِنَ الْمَنْزِلَةِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ وَإِنَّمَا مَثَّلْنَا هَؤُلاَءِ فِي التَّسْمِيَةِ لِيَكُونَ تَمْثِيلُهُمْ سِمَةً يَصْدُرُ عَنْ فَهْمِهَا مَنْ غَبِيَ عَلَيْهِ طَرِيقُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي تَرْتِيبِ أَهْلِهِ فِيهِ فَلاَ يُقَصَّرُ بِالرَّجُلِ الْعَالِي الْقَدْرِ عَنْ دَرَجَتِهِ وَلاَ يُرْفَعُ مُتَّضِعُ الْقَدْرِ فِي الْعِلْمِ فَوْقَ مَنْزِلَتِهِ وَيُعْطَى كُلُّ ذِي حَقٍّ فِيهِ حَقَّهُ وَيُنَزَّلُ مَنْزِلَتَهُ. وَقَدْ ذُكِرَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُنَزِّلَ النَّاسَ مَنَازِلَهُمْ. مَعَ مَا نَطَقَ بِهِ الْقُرْآنُ مِنْ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى:{وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ} اگر آپ (دیگر) ہمسروں کے درمیان موازنہ کریں تو (بھی) یہی ماجرا (سامنے آتا) ہے، مثلاًً آپ ابن عون اور ایو ب سختیانی کا (موازنہ) عوف بن ابی جمیلہ اور اشعث حمرانی سے کریں۔ یہ دونوں (بھی اسی طرح) حسن بصری اور ابن سیرین کے شاگرد ہیں جس طرح ابن عون اور ایو ب ان کے شاگرد ہیں لیکن ان دونوں اور ان دونوں کے درمیان کمال فضل اور صحت نقل کے اعتبار سے بہت بڑا فاصلہ پایا جاتا ہے۔ عوف اور اشعث بھی اگرچہ اہل علم کے ہاں صدق وامانت سے ہٹے ہوئے نہیں (مانے جاتے) لیکن جہاں تک مرتبے کا تعلق ہے تو اہل علم کے ہاں حقیقت وہی ہے جو ہم نے بیان کی۔ ہم نے نام ذکر کر کے مثال اس لیے دی ہے تاکہ اس شخص کے لیے، جو اہل علم کے ہاں حاملین حدیث کی درجہ کے طریقے سے ناواقف ہے، یہ مثال ایسا واضح نشان ثابت ہو جس کے ذریعے سے وہ مکمل واقفیت حاصل کر لے اور اونچا درجہ رکھنے والے کو اس کے مرتبے سے گٹھائے اور نہ کم درجے والے کو اس کے مرتبے سے بڑھائے، ہر ایک کو اس کا حق دے اور اس کے مرتبے پر رکھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت بیان کی گئی، انہوں نے کہا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ کہ ہم لوگوں کو ان کے مرتبوں پر رکھیں۔ اس کے ساتھ ہی اللہ کا حکم جو قرآن نے بیان فرمایا: «وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ» ”ہر علم والے سے اوپر ایک علم رکھنے والا ہے۔“ [12-يوسف:76]
فعلى نحو ما ذكرنا من الوجوه نؤلف ما سالت من الاخبار عن رسول الله صلى الله عليه وسلم. فاما ما كان منها عن قوم هم عند اهل الحديث متهمون او عند الاكثر منهم فلسنا نتشاغل بتخريج حديثهم كعبد الله بن مسور ابي جعفر المدائني وعمرو بن خالد وعبد القدوس الشامي ومحمد بن سعيد المصلوبفَعَلَى نَحْوِ مَا ذَكَرْنَا مِنَ الْوُجُوهِ نُؤَلِّفُ مَا سَأَلْتَ مِنَ الأَخْبَارِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَأَمَّا مَا كَانَ مِنْهَا عَنْ قَوْمٍ هُمْ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ مُتَّهَمُونَ أَوْ عِنْدَ الأَكْثَرِ مِنْهُمْ فَلَسْنَا نَتَشَاغَلُ بِتَخْرِيجِ حَدِيثِهِمْ كَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مِسْوَرٍ أَبِي جَعْفَرٍ الْمَدَائِنِيِّ وَعَمْرِو بْنِ خَالِدٍ وَعَبْدِ الْقُدُّوسِ الشَّامِيِّ وَمُحَمَّدِ بْنِ سَعِيدٍ الْمَصْلُوبِ ہم احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ذکر کردہ صورتوں کے مطابق تالیف کریں گے۔ جو احادیث ان لوگوں سے مروی ہیں جو (تمام) ماہرین علم حدیث یا ان میں سے اکثر کے نزدیک متہم ہیں، ہم ان کی روایات سے کوئی سروکار نہ رکھیں گے، جیسے: عبداللہ بن مسور ابوجعفر مدائنی، عمرو بن خالد، عبد القدوس شامی، محمد بن سعید مصلو ب، غیاث بن ابراہیم، سلیمان بن عمرو نخعی اور ان جیسے دیگر لوگوں کی مرویات سے بھی، جن پر وضع احادیث اور روایات سازی کے الزامات ہیں۔
وغياث بن إبراهيم وسليمان بن عمرو ابي داود النخعي واشباههم ممن اتهم بوضع الاحاديث وتوليد الاخبار. وكذلك من الغالب على حديثه المنكر او الغلط امسكنا ايضا عن حديثهم. وعلامة المنكر في حديث المحدث إذا ما عرضت روايته للحديث على رواية غيره من اهل الحفظ والرضا خالفت روايته روايتهم او لم تكد توافقها فإذا كان الاغلب من حديثه كذلك كان مهجور الحديث غير مقبوله ولا مستعمله.وَغِيَاثِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ وَسُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرٍو أَبِي دَاوُدَ النَّخَعِيِّ وَأَشْبَاهِهِمْ مِمَّنِ اتُّهِمَ بِوَضْعِ الأَحَادِيثِ وَتَوْلِيدِ الأَخْبَارِ. وَكَذَلِكَ مَنِ الْغَالِبُ عَلَى حَدِيثِهِ الْمُنْكَرُ أَوِ الْغَلَطُ أَمْسَكْنَا أَيْضًا عَنْ حَدِيثِهِمْ. وَعَلاَمَةُ الْمُنْكَرِ فِي حَدِيثِ الْمُحَدِّثِ إِذَا مَا عُرِضَتْ رِوَايَتُهُ لِلْحَدِيثِ عَلَى رِوَايَةِ غَيْرِهِ مِنْ أَهْلِ الْحِفْظِ وَالرِّضَا خَالَفَتْ رِوَايَتُهُ رِوَايَتَهُمْ أَوْ لَمْ تَكَدْ تُوَافِقُهَا فَإِذَا كَانَ الأَغْلَبُ مِنْ حَدِيثِهِ كَذَلِكَ كَانَ مَهْجُورَ الْحَدِيثِ غَيْرَ مَقْبُولِهِ وَلاَ مُسْتَعْمَلِهِ. اسی طرح وہ لوگ جن کی مرویات کی غالب تعداد منکر اور غلط (احادیث) پر مشتمل ہے، ہم ان کی احادیث سے بھی احتراز کریں گے۔ کسی حدیث بیان کرنے والے کی منکر روایت کی نشانی یہ ہے کہ جب اس کی روایت کردہ حدیث کا دوسرے اصحاب حفظ اور مقبول (محدثین) کی روایت سے موازنہ کیا جائے تو وہ ان کی روایت کے مخالف ہو یا ان کے ساتھ موافق نہ ہو پائے۔ جب کسی کی اکثر مرویات اس طرح کی ہوں تو وہ متروک الحدیث ہوتا ہے، اس کی روایات غیر مقبول ہوتی ہیں، (اجتہاد واستنباط کے لیے)استعمال نہیں ہوتیں۔
فمن هذا الضرب من المحدثين عبد الله بن محرر ويحيى بن ابي انيسة والجراح بن المنهال ابو العطوف وعباد بن كثير وحسين بن عبد الله بن ضميرة وعمر بن صهبان ومن نحا نحوهم في رواية المنكر من الحديث.فَمِنْ هَذَا الضَّرْبِ مِنَ الْمُحَدِّثِينَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَرَّرٍ وَيَحْيَى بْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ وَالْجَرَّاحُ بْنُ الْمِنْهَالِ أَبُو الْعَطُوفِ وَعَبَّادُ بْنُ كَثِيرٍ وَحُسَيْنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ضُمَيْرَةَ وَعُمَرُ بْنُ صُهْبَانَ وَمَنْ نَحَا نَحْوَهُمْ فِي رِوَايَةِ الْمُنْكَرِ مِنَ الْحَدِيثِ. اس قسم کے راویان حدیث میں عبداللہ بن محرر، یحییٰ بن ابی انیسہ، جراح بن منہال ابوعطوف، عباد بن کثیر، حسین بن عبداللہ بن ضمیرہ، عمر بن صہبان اور اس طرح کے دیگر منکر روایات بیان کرنے والے لوگ شامل ہیں، ہم ان کی روایت کا رخ نہیں کرتے نہ ان روایات سے کوئی سروکار ہی رکھتے ہیں۔ کیونکہ حدیث میں متفرد راوی کی روایت قبول کرنے کے متعلق اہل علم کا معروف مذہب اور ان کا فیصلہ یہ ہے کہ اگر وہ (راوی) عام طور پر اہل علم وحفظ ثقات کی موافقت کرتا ہے اور اس نے گہرائی میں جا کر ان کی موافقت کی ہے تو ایسی صورت میں اگر وہ (متفرد) کوئی ایسا اضافہ بیان کرتا ہے جو اس کے دوسرے ہم مکتبوں کے ہاں نہیں ہے تو اس کا یہ اضافہ (محدثین کے ہاں) قبول کیا جائے گا۔ لیکن جس (حدیث بیان کرنے والے) کو آپ دیکھیں کہ وہ امام زہری جیسے جلیل القدر (محدث) سے روایت بیان کرتا ہے جن کے کثیر تعداد میں ایسے شاگر د ہیں جو حفاظ (حدیث) ہیں، ان کی اور دوسرے (محدثین) کی روایت کے ماہر ہیں یا وہ ہشام بن عر وہ جیسے (امام التابعین) سے روایت کرتا ہے۔ ان دونوں کی احادیث تو اہل علم کے ہاں خوب پھیلی ہوئی ہیں، وہ سب ان کی روایت میں (ایک دوسرے کے ساتھ) اشتراک رکھتے ہیں اور ان دونوں کی اکثر احادیث میں ان کے شاگرد ایک دوسرے سے متفق ہیں اور یہ شخص ان دونوں یا ان میں سے کسی ایک سے متعدد ایسی احادیث روایت کرے جن میں ان کے شاگردوں میں سے اس کے ساتھ کوئی اور شریک نہیں تو اس جیسے لوگوں سے اس قسم کی کوئی حدیث قبول کرناجائز نہیں۔ اللہ (ہی) زیادہ جاننے والا ہے۔
فلسنا نعرج على حديثهم ولا نتشاغل به لان حكم اهل العلم والذي نعرف من مذهبهم في قبول ما يتفرد به المحدث من الحديث ان يكون قد شارك الثقات من اهل العلم والحفظ في بعض ما رووا وامعن في ذلك على الموافقة لهم فإذا وجد كذلك ثم زاد بعد ذلك شيئا ليس عند اصحابه قبلت زيادته فاما من تراه يعمد لمثل الزهري في جلالته وكثرة اصحابه الحفاظ المتقنين لحديثه وحديث غيره او لمثل هشام بن عروة وحديثهما عند اهل العلم مبسوط مشترك قد نقل اصحابهما عنهما حديثهما على الاتفاق منهم في اكثره فيروي عنهما او عن احدهما العدد من الحديث مما لا يعرفه احد من اصحابهما وليس ممن قد شاركهم في الصحيح مما عندهم فغير جائز قبول حديث هذا الضرب من الناس والله اعلم. قد شرحنا من مذهب الحديث واهله بعض ما يتوجه به من اراد سبيل القوم ووفق لها وسنزيد- إن شاء الله تعالى- شرحا وإيضاحا في مواضع من الكتاب عند ذكر الاخبار المعللة إذا اتينا عليها في الاماكن التي يليق بها الشرح والإيضاح إن شاء الله تعالى.فَلَسْنَا نُعَرِّجُ عَلَى حَدِيثِهِمْ وَلاَ نَتَشَاغَلُ بِهِ لأَنَّ حُكْمَ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالَّذِي نَعْرِفُ مِنْ مَذْهَبِهِمْ فِي قَبُولِ مَا يَتَفَرَّدُ بِهِ الْمُحَدِّثُ مِنَ الْحَدِيثِ أَنْ يَكُونَ قَدْ شَارَكَ الثِّقَاتِ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالْحِفْظِ فِي بَعْضِ مَا رَوَوْا وَأَمْعَنَ فِي ذَلِكَ عَلَى الْمُوَافَقَةِ لَهُمْ فَإِذَا وُجِدَ كَذَلِكَ ثُمَّ زَادَ بَعْدَ ذَلِكَ شَيْئًا لَيْسَ عِنْدَ أَصْحَابِهِ قُبِلَتْ زِيَادَتُهُ فَأَمَّا مَنْ تَرَاهُ يَعْمِدُ لِمِثْلِ الزُّهْرِيِّ فِي جَلاَلَتِهِ وَكَثْرَةِ أَصْحَابِهِ الْحُفَّاظِ الْمُتْقِنِينَ لِحَدِيثِهِ وَحَدِيثِ غَيْرِهِ أَوْ لِمِثْلِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ وَحَدِيثُهُمَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مَبْسُوطٌ مُشْتَرَكٌ قَدْ نَقَلَ أَصْحَابُهُمَا عَنْهُمَا حَدِيثَهُمَا عَلَى الاِتِّفَاقِ مِنْهُمْ فِي أَكْثَرِهِ فَيَرْوِي عَنْهُمَا أَوْ عَنْ أَحَدِهِمَا الْعَدَدَ مِنَ الْحَدِيثِ مِمَّا لاَ يَعْرِفُهُ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِهِمَا وَلَيْسَ مِمَّنْ قَدْ شَارَكَهُمْ فِي الصَّحِيحِ مِمَّا عِنْدَهُمْ فَغَيْرُ جَائِزٍ قَبُولُ حَدِيثِ هَذَا الضَّرْبِ مِنَ النَّاسِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ. قَدْ شَرَحْنَا مِنْ مَذْهَبِ الْحَدِيثِ وَأَهْلِهِ بَعْضَ مَا يَتَوَجَّهُ بِهِ مَنْ أَرَادَ سَبِيلَ الْقَوْمِ وَوُفِّقَ لَهَا وَسَنَزِيدُ- إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى- شَرْحًا وَإِيضَاحًا فِي مَوَاضِعَ مِنَ الْكِتَابِ عِنْدَ ذِكْرِ الأَخْبَارِ الْمُعَلَّلَةِ إِذَا أَتَيْنَا عَلَيْهَا فِي الأَمَاكِنِ الَّتِي يَلِيقُ بِهَا الشَّرْحُ وَالإِيضَاحُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى. ہم نے حدیث اور اصحاب حدیث (محدثین) کے طریق کار کا کچھ حصہ ہر اس شخص کی توجہ کے لیے جو ان کے راستے پر چلنا چاہتا ہے اور جسے اس کی توفیق نصیب ہوتی ہے، تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔ ان شاء اللہ ہم (اس طریق کار کی) مزید شرح اور وضاحت کتاب کے ان مقامات پر کریں گے جہاں معلول احادیث (جن میں کوئی خفیہ علت پائی جاتی ہے) کا ذکر ہو گا، (یعنی) جب ہم وہاں پہنچیں گے جہاں اس (موضوع) کی شرح اور وضاحت کا مناسب موقع ہو گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ
وبعد- يرحمك الله- فلولا الذي راينا من سوء صنيع كثير ممن نصب نفسه محدثا فيما يلزمهم من طرح الاحاديث الضعيفة والروايات المنكرة وتركهم الاقتصار على الاحاديث الصحيحة المشهورة مما نقله الثقات المعروفون بالصدق والامانة بعد معرفتهم وإقرارهم بالسنتهم ان كثيرا مما يقذفون به إلى الاغبياء من الناس هو مستنكر ومنقول عن قوم غير مرضيين ممن ذم الرواية عنهم ائمة اهل الحديث مثل مالك بن انس وشعبة بن الحجاج وسفيان بن عيينة ويحيى بن سعيد القطان وعبد الرحمن بن مهدي وغيرهم من الائمة- لما سهل علينا الانتصاب لما سالت من التمييز والتحصيل. ولكن من اجل ما اعلمناك من نشر القوم الاخبار المنكرة بالاسانيد الضعاف المجهولة وقذفهم بها إلى العوام الذين لا يعرفون عيوبها خف على قلوبنا إجابتك إلى ما سالت.وَبَعْدُ- يَرْحَمُكَ اللَّهُ- فَلَوْلاَ الَّذِي رَأَيْنَا مِنْ سُوءِ صَنِيعِ كَثِيرٍ مِمَّنْ نَصَبَ نَفْسَهُ مُحَدِّثًا فِيمَا يَلْزَمُهُمْ مِنْ طَرْحِ الأَحَادِيثِ الضَّعِيفَةِ وَالرِّوَايَاتِ الْمُنْكَرَةِ وَتَرْكِهِمْ الاِقْتِصَارَ عَلَى الأَحَادِيثِ الصَّحِيحَةِ الْمَشْهُورَةِ مِمَّا نَقَلَهُ الثِّقَاتُ الْمَعْرُوفُونَ بِالصِّدْقِ وَالأَمَانَةِ بَعْدَ مَعْرِفَتِهِمْ وَإِقْرَارِهِمْ بِأَلْسِنَتِهِمْ أَنَّ كَثِيرًا مِمَّا يَقْذِفُونَ بِهِ إِلَى الأَغْبِيَاءِ مِنَ النَّاسِ هُوَ مُسْتَنْكَرٌ وَمَنْقُولٌ عَنْ قَوْمٍ غَيْرِ مَرْضِيِّينَ مِمَّنْ ذَمَّ الرِّوَايَةَ عَنْهُمْ أَئِمَّةُ أَهْلِ الْحَدِيثِ مِثْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَشُعْبَةَ بْنِ الْحَجَّاجِ وَسُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ وَيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ وَغَيْرِهِمْ مِنَ الأَئِمَّةِ- لَمَا سَهُلَ عَلَيْنَا الاِنْتِصَابُ لِمَا سَأَلْتَ مِنَ التَّمْيِيزِ وَالتَّحْصِيلِ. وَلَكِنْ مِنْ أَجْلِ مَا أَعْلَمْنَاكَ مِنْ نَشْرِ الْقَوْمِ الأَخْبَارَ الْمُنْكَرَةَ بِالأَسَانِيدِ الضِّعَافِ الْمَجْهُولَةِ وَقَذْفِهِمْ بِهَا إِلَى الْعَوَامِّ الَّذِينَ لاَ يَعْرِفُونَ عُيُوبَهَا خَفَّ عَلَى قُلُوبِنَا إِجَابَتُكَ إِلَى مَا سَأَلْتَ. اس (وضاحت) کے بعد، اللہ آپ پر رحم فرمائے! (ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ) اگر ہم نے اپنے آپ کو محدث کے منصب پر فائز کرنے والے بہت سے لوگوں کی ضعیف احادیث اور منکر روایات کے بیان کو ترک کرنے جیسے معاملات میں، جن کا التزام ان کے لیے لازم تھا، غلط کارروائیاں نہ دیکھی ہوتیں، اور اگر انہوں نے صحیح روایات کے بیان پر اکتفا کو ترک نہ کیا ہوتا، جنہیں ان ثقہ راویوں نے بیان کیا جو صدق وامانت میں معروف ہیں، وہ بھی ان کے اس اعتراف کے بعد کہ جو کچھ وہ (سیدھے سادھے) کم عقل لوگوں کے سامنے بے پروائی سے بیان کیے جا رہے ہیں، اس کا اکثر حصہ غیر مقبول ہے، ان لوگوں سے نقل کیا گیا ہے جن سے لینے پر اہل علم راضی نہیں اور جن سے روایت کرنے کو (بڑے بڑے) ائمہ حدیث، مثلاًً مالک بن انس، شعبہ بن حجاج، سفیان بن عیینہ، یحییٰ بن سعید قطان، عبد الرحمن بن مہدی وغیرہ م قابل مذمت سمجھتے ہیں۔ اگر ہم نے یہ سب نہ دیکھا ہوتا تو آپ نے (صحیح وضعیف میں) امتیاز اور (صرف صحیح کے) حصول کے حوالے سے جو مطالبہ کیا ہے اسے قبول کرنا آسان نہ ہوتا۔ لیکن جس طرح ہم نے آپ کو قوم کی طرف سے کمزور اور مجہول سندوں سے (بیان کی گئی) منکر حدیثوں کو بیان کرنے اور انہیں ایسے عوام میں، جو ان (احادیث) کے عیو ب سے ناواقف ہیں، پھیلانے کے بارے میں بتایا تو (صرف) اسی بنا پر ہمارے دل کے لیے آپ کے مطالبے کو تسلیم کرنا آسان ہوا۔
|