صحيح مسلم
مُقَدِّمَةٌ
مقدمہ
6ق. باب الْكَشْفِ عَنْ مَعَايِبِ رُوَاةِ الْحَدِيثِ وَنَقَلَةِ الأَخْبَارِ وَقَوْلِ الأَئِمَّةِ فِي ذَلِكَ
باب: حدیث کے راویوں کا عیب بیان کرنا درست ہے اور وہ غیبت میں داخل نہیں۔
حدیث نمبر: 64
وحَدَّثَنِي حَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ، قَالَ: دَخَلَ أَبُو دَاوُدَ الأَعْمَى، عَلَى قَتَادَةَ، فَلَمَّا قَامَ، قَالُوا: إِنَّ هَذَا يَزْعُمُ أَنَّهُ لَقِيَ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ بَدْرِيًّا، فَقَالَ قَتَادَةُ: هَذَا كَانَ سَائِلًا قَبْلَ الْجَارِفِ، لَا يَعْرِضُ فِي شَيْءٍ مِنْ هَذَا، وَلَا يَتَكَلَّمُ فِيهِ، فَوَاللَّهِ مَا حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، عَنْ بَدْرِيٍّ مُشَافَهَةً، وَلَا حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، عَنْ بَدْرِيٍّ مُشَافَهَةً، إِلَّا عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ،
یزید بن ہارون نے کہا: ہمیں ہمام نے خبر دی کہ ابو داود اعمیٰ قتادہ کے ہاں آیا، جب وہ کھڑا ہوا (اور چلا گیا) تو لوگوں نے کہا: اسے یہ زعم ہے کہ اس نے اٹھارہ بدری صحابہ سے ملاقات کی۔ اس پر قتادہ کہنے لگے: (طاعون کی) وبائے عام سے پہلے یہ ایک منگتا تھا، اس کا (علم حدیث) ایسی کسی چیز سے کوئی سروکار نہ تھا، وہ اس بارے میں بات تک نہ کرتا تھا۔ بخدا نہ حسن (بصری) نے (کبھی) کسی بدری سے بلاواسطہ حدیث ہمیں سنائی نہ سعید بن مسیب نے ایک سعد بن مالک رضی اللہ عنہ کے سوا کسی اور بدری سے براہ راست سنی ہوئی کوئی حدیث سنائی
ہمامؒ کہتے ہیں: ابو داؤد اعمیٰ، قتادہؒ کے ہاں آیا، پھر جب وہ چلا گیا، تو حاضرین نے کہا: اس کا دعویٰ ہے کہ میں اٹھارہ بدری صحابیوں کو ملا ہوں، تو قتادہؒ نے کہا: ”یہ تو طاعون سے پہلے مانگتا تھا، ان احادیث سے اس کو کچھ دلچسپی یا واسطہ نہ تھا، اور نہ ان کے بارے میں گفتگو کرتا تھا۔ اللہ کی قسم! ہمیں حسن بصریؒ نے کسی بدری صحابی سے براہِ راست سن کر حدیث نہیں سنائی، اور نہ ہی سعید بن المسیبؒ نے ہمیں کسی بدری سے روبرو سن کر حدیث سنائی، سوائے حضرت سعد بن مالکؓ (ابی وقاص) کے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة الاشراف)) برقم (18720 و 19212)»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 64 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 64
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت حسن بصریؒ اور سعید بن المسیبؒ جلیل القدر اور کبار تابعین میں سے ہیں،
جو علم اور عمر دونوں میں ابو داؤد اعمیٰ سے فائق تر اور انتہائی بلند ہیں،
اگر ان کو بدری صحابہ سے براہ راست روایت کرنے کا موقع نہیں مل سکا،
حالانکہ وہ علم حدیث کے انتہائی شیدائی تھے،
تو اس اندھے کو اٹھارہ بدری صحابیوں سے شرف ملاقات کیسے حاصل ہوگیا؟ یہ محض جھوٹ اور افتراء ہے،
(تو تصوف کا سلسلہ،
حضرت حسن بصریؒ کے واسطہ سے حضرت علیؓ سے کیسے شروع ہوگیا)
۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 64