سفیان (بن عیینہ) نے کہا: میں نے ایک آدمی سے سنا، اس نے جابر سے ارشاد ربانی: ﴿فلن أبرح الأرض حتی یأذن لی أبی أو یحکم اللہ لی وہو خیر الحاکمین﴾ ”اب میں اس زمین سے ہرگز نہ ہلوں گا یہاں تک کہ میرا باپ مجھے اجازت دے یا اللہ میرے لیے فیصلہ کر دے اور وہ سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔“ کے بارے میں سوال، تو جابر نے کہا: اس کی تفسیر ابھی ظاہر نہیں ہوئی۔ سفیان نے کہا: اور اس نے یہ جھوٹ بولا۔ تو ہم نے سفیان سے کہا: اس سے مراد اس کی کیا تھی؟ انہوں نے کہا: روافض کہتے ہیں: حضرت علی رضی اللہ عنہ بادلوں میں ہیں۔ ان کی اولاد میں سے جو کوئی خروج کرے گا ہم اس کے ساتھ خروج نہیں کریں گے حتیٰ کہ آسمان کی طرف سے پکارنے والا (اس کی مراد علی سے ہے) پکارے۔ یقیناً وہی پکارے گا کہ فلاں کے ساتھ (مل کر) خروج کرو۔ جابر کہتا تھا: یہ اس آیت کی تفسیر ہے اور اس نے جھوٹ کہا۔ یہ آیت حضرت یوسف رضی اللہ عنہ کے بھائیوں کے بارے میں (نازل ہوئی) تھی۔
سفیانؒ کہتے ہیں: میں نے ایک آدمی سے سنا، اس نے جابر سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا معنی پوچھا: ”میں تو اس سر زمین سے کبھی نہ جاؤں گا حتٰی کہ میرا باپ مجھے اجازت دے، یا اللہ میرے حق میں فیصلہ فرما دے اور وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔“ تو جابر نے کہا: ”اس کی حقیقت یا اس کا مصداق ابھی تک ظاہر نہیں ہوا۔“ سفیانؒ کہتے ہیں: ”اس نے جھوٹ بولا ہے (کیونکہ اس واقعہ کا تعلق تو حضرت یوسفؑ کے بھائی کے ساتھ ہے)“ ہم نے سفیانؒ سے پوچھا: یہ کہنے سے اس کا مقصد کیا تھا؟ تو انھوں نے کہا: ”رافضیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت علیؓ بادل میں ہیں، ہم ان کی اولاد میں سے کسی کے ساتھ نہیں نکلیں گے، یہاں تک کہ آسمان سے ایک منادی کرنے والا آواز دے گا، یعنی: حضرت علیؓ آواز دیں گے: فلاں کے ساتھ نکلو (اس کے ساتھ ہم نکلیں گے)۔“ جابر کہتے ہیں: اس آیت کی حقیقت یا مصداق یہی ہے، اور اس نے جھوٹ بولا ہے، ”یہ آیت تو حضرت یوسف ؑ کے بھائیوں کے بارے میں ہے (یہ بات ان کے بڑے بھائی نے کہی تھی، جس کی تفصیل اور پس منظر قرآن مجید میں موجود ہے)۔“