Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
مُقَدِّمَةٌ
مقدمہ
6ق. باب الْكَشْفِ عَنْ مَعَايِبِ رُوَاةِ الْحَدِيثِ وَنَقَلَةِ الأَخْبَارِ وَقَوْلِ الأَئِمَّةِ فِي ذَلِكَ ‏‏
باب: حدیث کے راویوں کا عیب بیان کرنا درست ہے اور وہ غیبت میں داخل نہیں۔
حدیث نمبر: 34
وحَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ الْعَبْدِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ، يَقُولُ: أَخْبَرُونِي، عَنْ أَبِي عَقِيلٍ صَاحِبِ بُهَيَّةَ، أَنَّ أَبْنَاءً لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، سَأَلُوهُ عَنْ شَيْءٍ، لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ فِيهِ عِلْمٌ، فَقَالَ لَهُ يَحْيَي بْنُ سَعِيدٍ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأُعْظِمُ أَنْ يَكُونَ مِثْلُكَ وَأَنْتَ ابْنُ إِمَامَيِ الْهُدَى يَعْنِي عُمَرَ وَابْنَ عُمَرَ، تُسْأَلُ عَنْ أَمْرٍ لَيْسَ عِنْدَكَ فِيهِ عِلْمٌ، فَقَالَ: أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ، وَاللَّهِ عِنْدَ اللَّهِ، وَعِنْدَ مَنْ عَقَلَ عَنِ اللَّهِ، أَنْ أَقُولَ بِغَيْرِ عِلْمٍ، أَوْ أُخْبِرَ، عَنْ غَيْرِ ثِقَةٍ، قَالَ: وَشَهِدَهُمَا أَبُو عَقِيلٍ يَحْيَى بْنُ الْمُتَوَكِّلِ، حِينَ قَالَا ذَلِك
بشر بن حکم عبدی نے مجھ سے بیان کیا، کہا: میں نے سفیان بن عیینہ سے سنا، کہہ رہے تھے: مجھے سے بہت سے لوگوں نے بہیہ کے مولیٰ ابو عقیل سے (سن کر) روایت کی کہ (کچھ) لوگوں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ایک بیٹے سے کوئی بات پوچھی جس کے بارے میں ان کے علم میں کچھ نہ تھا تو یحییٰ بن سعید نے ان سے کہا: میں اس کو بہت بڑی بات سمجھتا ہوں کہ آپ جیسے انسان سے (جبکہ آپ ہدایت کے وو اماموں یعنی عمر اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں، کوئی بات پوچھی جائے (اور) اس کےب ارے میں آپ کو کچھ علم نہ ہو۔ انہوں نے کہا: بخدا! اللہ کے نزدیک اور اس شخص کے نزدیک جسے اللہ نے عقل دی اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ میں علم کے بغیر کچھ کہوں یا کسی ایسے شخص سے روایت کروں جو ثقہ نہیں۔ (سفیان نے) کہا: ابو عقیل یحییٰ بن متوکل (بھی) ان کے پاس موجود تھے جب انہوں نے یہ بات کی۔
بہیہ نامی عورت کے شاگرد اور غلام ابوعقیلؒ بیان کرتے ہیں: کہ لوگوں نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے بیٹے (پوتے) سے ایک ایسا مسئلہ دریافت کیا، جس کے بارے میں وہ علم نہیں رکھتے تھے، تو انھیں یحییٰ بن سعیدؒ نے کہا: اللہ کی قسم! میں اس کو انتہائی ناگوار سمجھتا ہوں کہ آپ جیسے مرتبہ کا مالک، جو ہدایت کے دو راہنماؤں کا، یعنی: عمرؓ اور ابنِ عمر ؓ کا بیٹا ہے، اس سے کوئی مسئلہ دریافت کیا جائے اور وہ اس کے بارے میں علم نہ رکھتے ہوں۔ تو انھوں نے جواب دیا: اس سے زیادہ ناگوار اور گراں اللہ کے ہاں اور ان لوگوں کے ہاں جو اللہ کے بارے میں عقل و شعور رکھتے ہیں، اللہ کی قسم! یہ بات ہے، کہ میں علم (دلیل وسند) کے بغیر بات کہہ دوں (رائے پیش کردوں) یا نا قابلِ اعتبار روایت سے پیش کردوں۔ سفیان بن عیینہؒ کہتے ہیں: ان دونوں (یحییٰؒ اور قاسمؒ) کی گفتگو کے وقت ابوعقیل یحییٰ بن متوکّلؒ موجود تھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم كما في ((التحفة)) برقم (19201 و 19533)» ‏‏‏‏

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 34 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 34  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
قاسمؒ کا باپ،
عبیداللہؒ بن عمر بن خطابؓ ہے،
اس لیے عمرؓ اور ابن عمرؓ دونوں اس کے باپ کی صف میں ہیں اس کی ماں ام عبداللہ حضرت ابوبکرؓ کی اولاد ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 34