عبد اللہ بن مبارک نے کہا: میں نے سفیان ثوری سے عرض کی: بلاشبہ عباد بن کثیر ایسا ہے جس کا حال آپ کو معلوم ہے۔ جب وہ حدیث بیان کرتا ہے تو بڑی بات کرتا ہے، کیا آپ کی رائے ہے کہ میں لوگوں سے کہہ دیا کروں: اس سے (حدیث) نہ لو؟ سفیان کہنےلگے: کیوں نہیں! عبد اللہ نے کہا: پھر یہ (میرا معمول) ہو گیا کہ جب میں کسی (علمی) مجلس میں ہوتا جہاں عباد کا ذکر ہوتا تو میں دین کے حوالے سے اس کی تعریف کرتا اور (ساتھ یہ بھی) کہتا: اس سے (حدیث) نہ لو۔ ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا: ہم سے عبد اللہ بن عثمان نے بیان کیا، کہا: میرے والد نے کہا: عبد اللہ بن مبارک نے کہا: میں شعبہ تک پہنچا تو انہوں نے (بھی) کہا: یہ عباد بن کثیر ہے تم لوگ اس سے (حدیث بیان کرنے میں) احتیاط کرو
امام عبداللہ بن مبارک ؒ کہتے ہیں: میں نے سفیان ثوری ؒ سے پوچھا: عباد بن کثیر کے حالات سے تو آپ آگاہ ہیں۔ وہ جب حدیث بیان کرتا ہے، تو انتہائی ناگوار یا سنگین حرکت کرتا ہے (غلط اور موضوع روایات بیان کرتا ہے) تو آپ کا کیا خیال ہے، میں لوگوں کو کہہ دوں: کہ اس سے روایت نہ لو؟ سفیانؒ نے کہا: ”ضرور کہو۔“ عبداللہ ؒ کہتے ہیں: جب میں کسی ایسی مجلس میں ہوتا، جس میں عباد کا تذکرہ ہوتا، تو میں اس کی دیانت و امانت، زہد و درع کی تعریف کرتا اور کہہ دیتا: ”کہ اس سے روایت نہ لو۔“ (کیونکہ روایت بیان کرنے میں قابلِ اعتماد نہیں، کمزور اور موضوع روایات بیان کردیتا ہے) یہ بات دوسری سند سے بیان کی گئی ہے کہ عبد اللہ بن مبارک ؒ بیان کرتے ہیں: میں شعبہؒ کے پاس پہنچا تو انھوں نے کہا: ”یہ عباد بن کثیر(موجود) ہے، اس سے بچ کر رہو۔“ (اس سے روایت نہ لو)۔