من كتاب الوصايا وصیت کے مسائل 6. باب في الذي يُوصِي بِأَكْثَرَ مِنَ الثُّلُثِ: ایک تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کا بیان
منصور نے ابراہیم رحمہ اللہ سے روایت کیا، کوئی آدمی (ثلث سے زیادہ) وصیت کرے اور اس کے وارثین شاہد ہوں اور اس کا اقرار کریں؟ ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: (ایسی وصیت) جائز نہیں ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: اس کا مطلب یہ ہے کہ بعد میں وہ ناپسند کریں تو ایسی وصیت کی تنفیذ نہ ہو گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى إبراهيم، [مكتبه الشامله نمبر: 3233]»
ابرا ہیم رحمہ اللہ تک اس اثر کی سند صحیح ہے۔ ابوزید کا نام سعید بن الربیع ہے۔ دیکھئے: [ابن منصور 389] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى إبراهيم
شعبہ نے کہا: میں نے حکم اور حماد سے اولیاء (وارثین) کے بارے میں پوچھا کہ وہ وصیت کی اجازت دیتے ہیں اور جب (آدمی) مر جائے تو وصیت نہیں مانتے؟ دونوں نے کہا: (یہ) جائز نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الحكم بن عتيبة، [مكتبه الشامله نمبر: 3234]»
حکم بن عتبہ اور حماد بن ابی سلیمان تک اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10777]، [ابن منصور 391] وضاحت:
(تشریح احادیث 3221 سے 3223) یعنی ثلث سے زیادہ کی وصیت جائز نہیں ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الحكم بن عتيبة
عامر (شعبی) رحمہ اللہ سے مروی ہے، (قاضی) شریح نے کہا: کوئی آدمی ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت کرے، اگر اس کے وارثین اجازت دیں تو ہم بھی اس کی اجازت دیں گے، اور اگر وارثین کہیں کہ ہم نے اس کی اجازت دی تب بھی مٹی دینے کے بعد انہیں اختیار ہے۔ (یعنی چاہیں تو برقرار رکھیں اور چاہیں تو رفض کر دیں)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى شريح، [مكتبه الشامله نمبر: 3235]»
قاضی شریح تک اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10772]، [عبدالرزاق 16449]، [ابن منصور 388]، [اخبار القضاة 264/2] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى شريح
قاسم سے مروی ہے، ایک آدمی نے اپنے وارثین سے پوچھا کہ ایک تہائی سے زیادہ کی وہ وصیت کر دے، وارثین نے اس کو اجازت دے دی، پھر انہوں نے اس کی موت کے بعد اجازت سے رجوع کر لیا، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: یہ زبردستی جائز نہیں ہے۔ (یعنی ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت میں زبردستی کرنا جائز نہیں ہے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الرحمن بن عبد الله بن عتبة المسعودي، [مكتبه الشامله نمبر: 3236]»
عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن عتبہ المسعودی کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے۔ ابونعیم کا نام فضل بن دکین ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10781]، [مجمع الزوائد 7183] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الرحمن بن عبد الله بن عتبة المسعودي
ہشام سے مروی ہے حسن رحمہ اللہ نے ایسے آدمی کے بارے میں کہا جو ثلث (تہائی) سے زیادہ وصیت کرے اور وارثین اس پر راضی ہوں، کہا: یہ جائز ہے۔ امام دارمی ابو محمد رحمہ اللہ نے کہا: جائز ہے لیکن اس کی زندگی میں ہی (مرنے کے بعد نہیں)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الحسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3237]»
ابوالنعمان کا نام محمد بن الفضل ہے، اور ہشام: ابن حسان ہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10775]، [عبدالرزاق 16452]، [سعيد بن منصور 392، 393]، [طبراني 271/9، 9161] وضاحت:
(تشریح احادیث 3223 سے 3226) اپنے مال میں ایک ثلث تک کی وصیت کسی نیک کام کے لئے کرنا جائز ہے، ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت کرنے کی شریعت میں ممانعت ہے، جیسا کہ اگلے باب میں تفصیل سے آ رہا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں ثلث سے زیادہ خرچ کرے تو یہ جائز ہے، اگر فوت ہو جائے اور وارثین راضی ہوں تب بھی ایسی وصیت کی تنفیذ ہوگی، اگر راضی نہ ہوں تو تنفیذ روک دی جائے گی۔ مذکور بالا آثار و اقوال کا خلاصہ یہی ہے۔ والله اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الحسن
|