من كتاب الوصايا وصیت کے مسائل 8. باب الْوَصِيَّةِ بِأَقَلَّ مِنَ الثُّلُثِ: ایک تہائی سے کم کی وصیت کرنے کا بیان
علاء بن زیاد سے مروی ہے کہ زیاد بن مطر نے وصیت کی کہ میری وصیت وہی ہے جس پر بصرہ کے فقیہ اتفاق کریں، میں نے ان سے پوچھا تو ان فقہاء نے پانچویں حصہ کی وصیت پر اتفاق کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى زياد بن مطر، [مكتبه الشامله نمبر: 3240]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [سعيد بن منصور 336] وضاحت:
(تشریح حدیث 3228) فقہائے بصرہ نے خمس پر اس لئے اتفاق کیا کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «الثلث و الثلث كثير»، یعنی تہائی مال کی وصیت کر سکتے ہو گرچہ یہ بھی زیادہ ہے، اور ایک روایت میں ہے «الربع» یعنی چوتھائی مال کی وصیت کروں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ لیکن یہ روایت صحیح نہیں، کما سیأتی۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى زياد بن مطر
علاء بن زیاد سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے پوچھا: میرا وارث کلالہ (لا ولد) ہے، کیا میں نصف (آدھے مال) کی وصیت کر سکتا ہوں؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں، اس نے کہا: ایک تہائی کی؟ فرمایا: نہیں، اس نے کہا: چوتھائی؟ فرمایا: نہیں، کہا: خمس کی (پانچویں حصے کی)، فرمایا: نہیں، یہاں تک کہ وہ دسویں حصے تک پہنچا تو انہوں نے فرمایا: ہاں، دسویں حصے کی وصیت کر سکتے ہو۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه منقطع العلاء بن زياد روى عن أبيه زياد بن مطر عن عمر بن الخطاب، [مكتبه الشامله نمبر: 3241]»
اس اثر کی سند کے رجال ثقات ہیں، لیکن اس میں انقطاع ہے کیوں کہ علاء اپنے والد زیاد سے، وہ امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں جن کا مذکور بالا سند میں ذکر نہیں، نیز یہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مقابلہ میں قابلِ استدلال نہیں۔ واللہ علم قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه منقطع العلاء بن زياد روى عن أبيه زياد بن مطر عن عمر بن الخطاب
عامر (شعبی) رحمہ اللہ نے کہا: لوگ خمس اور ربع کی وصیت کیا کرتے تھے اور ثلث امتناع کی حد تھی۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: جامع کا مطلب ہے نافرمان خود سر گھوڑا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3242]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10971]، [ابن منصور 340]۔ یعلی: ابن عبید، اور اسماعیل: ابن ابی خالد ہیں۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 3229 سے 3231) خمس پانچواں اور ربع چوتھا حصہ یعنی وصیت تہائی سے کم کیا کرتے تھے، اور ان کے نزدیک تہائی نافرمانی کی حد تھی، یعنی اس سے زیادہ کی وصیت ممنوع سمجھتے تھے۔ والله اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
بکر (ابن عبداللہ مزنی) نے کہا: میں نے حمید بن عبدالرحمٰن کے لئے وصیت کی تو انہوں نے کہا: میں ایسے آدمی کی وصیت قبول نہیں کر سکتا جس کی اولاد موجود ہو اور وہ تہائی کی وصیت کرے (یعنی ثلث سے کم کی وصیت قبول کی جا سکتی ہے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3243]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10967]۔ سند میں مذکور حمید: ابن ابی حمید ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
قاضی شریح نے کہا: ثلث (تہائی حصہ) مشقت ہے لیکن جائز ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3244]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10968]، [عبدالرزاق 16369]، [ابن منصور 341]۔ قبيصہ: ابن عتبہ ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
منصور (ابن المعتمر) سے مروی ہے ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: لوگوں کے نزدیک چھٹا حصہ (وصیت کے لئے) تہائی حصے سے زیاد محبوب تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى إبراهيم، [مكتبه الشامله نمبر: 3245]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10975]، [عبدالرزاق 16365]، [ابن منصور 337] وضاحت:
(تشریح احادیث 3231 سے 3234) ان تمام آثار سے واضح ہوا کہ مرنے والا اپنے مال میں سے ثلث سے کم ہی وصیت کرے، کیوں کہ تہائی ایک حد ہے، اس سے کم کی وصیت ہونی چاہیے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى إبراهيم
|