من كتاب الوصايا وصیت کے مسائل 45. باب إِذَا أَوْصَى بِشَيْءٍ في سَبِيلِ اللَّهِ: جب کوئی آدمی فی سبیل اللہ کسی چیز کی وصیت کرے؟
نافع سے مروی ہے کہ ایک آدمی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور کہا کہ ایک شخص نے ایک اونٹنی کو اللہ کے راستے میں دینے کی مجھے وصیت کی ہے، اور یہ جہاد کا زمانہ بھی نہیں ہے، کیا میں اس کو حج کے لئے بھیج سکتا ہوں؟ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: حج اور عمرہ فی سبیل اللہ میں شامل ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3347]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10888] و [البيهقي 272/6]۔ اس کا شاہد [طيالسي 202/1، 976]، [أحمد 405/6] و [الحاكم فى المستدرك 482/1] میں موجود ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
واقد بن محمد بن زید بن عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے اپنے مال کو فی سبیل اللہ (خرچ کرنے) کی وصیت کی، جس کو وصیت کی تھی اس نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے کہا: اس کو اللہ کے عمال کو دے دو، اس نے کہا: الله کے عمال کون ہیں؟ فرمایا: بیت اللہ کا حج کرنے والے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف موسى بن عبيد الربذي، [مكتبه الشامله نمبر: 3348]»
موسیٰ بن عبیدہ ربذی کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10886] وضاحت:
(تشریح احادیث 3335 سے 3337) عموماً فی سبیل اللہ سے مراد جہاد لیا جاتا ہے، اور یہ مصارفِ زکاۃ میں سے بھی ہے، لہٰذا کوئی شخص مطلقاً وصیت کرے کہ اس کا مال فی سبیل اللہ خرچ کیا جائے اور کسی خاص جہت کی تحدید نہ کرے تو وہ مال جنگی ساز و سامان اور ضروریاتِ جہاد کے لئے، نیز مجاہد کے اوپر چاہے وہ مال دار ہی ہو وہ مال خرچ کیا جائے گا، جہاد کا موقع و محل نہ ہو تو احادیث سے ثابت ہے حج و عمرہ بھی فی سبیل اللہ میں داخل ہے، اسی طرح بعض علماء کے نزدیک دعوت و تبلیغ بھی فی سبیل اللہ میں داخل ہے کیوں کہ اس سے بھی مقصد اعلائے کلمۃ اللہ ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف موسى بن عبيد الربذي
|