من كتاب الوصايا وصیت کے مسائل 4. باب مَا يُسْتَحَبُّ بِالْوَصِيَّةِ مِنَ التَّشَهُّدِ وَالْكَلاَمِ: وصیت نامے کے الفاظ اور شہادت کا بیان
عبداللہ بن عون نے خبر دی کہ محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے وصیت کی اور لکھا: یہ اس وصیت کا ذکر ہے جو انہوں نے لکھی ہے، یا یہ لکھا یہ محمد بن سیرین (ابوبکر بن ابی عمرہ) کی وصیت کا ذکر ہے ان کے بیٹے اور گھر والوں کے لئے: تم اللہ سے ڈرو، اور باہمی تعلقات کی اصلاح کرو، اور الله تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم ایمان والے ہو [ترجمه: سوره الانفال: 1/8] ، پھر ان کو وصیت کی جو ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹوں اور یعقوب علیہ السلام نے وصیت کی: اے میرے بیٹو! الله تعالیٰ نے تمہارے لئے اس دین کو منتخب فرمایا ہے، خبردار تم مسلمان ہو کر ہی مرنا [البقره 122/2] ، اور ان کو وصیت کی کہ انصار اور اپنے دینی بھائیوں سے بے رغبتی نہ برتیں، اور یہ کہ عفت و سچائی زنا کاری و جھوٹ سے بہتر اور پاکیزہ ہے، اگر میری اس بیماری کی وجہ سے کوئی حادثہ ہو جائے اور اس وصیت میں رد و بدل نہ کروں تو ...... اس کے بعد انہوں نے وصیت میں ضروری باتیں تحریر کیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى محمد بن سيرين، [مكتبه الشامله نمبر: 3226]»
اس اثر کی سند محمد بن سیرین رحمہ اللہ تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11078]، [البيهقي 287/6] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى محمد بن سيرين
ابن سیرین رحمہ اللہ سے مروی ہے سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: وصیت اس طرح کرتے تھے: فلاں بن فلاں کی یہ وصیت ہے کہ وہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اور قیامت آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں، اور اللہ تعالیٰ جو قبروں میں ہیں انہیں دوبارہ زندہ کرے گا، اور اپنے بعد رہ جانے والے اہل و عیال کو وہ وصیت کرتا کہ وہ اللہ سے ڈریں، اور اپنے باہمی تعلقات کی اصلاح کریں، اور اگر وہ مومن ہیں تو الله و اس کے رسول کی اطاعت و فرماں برداری کریں، اور وہ ویسی ہی وصیت کرتا جیسی ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو اور یعقوب علیہ السلام نے وصیت کی: اے میرے بیٹو! الله تعالیٰ نے تمہارے لئے دین (اسلام) کو منتخب کیا ہے لہٰذا تم مسلمان ہو کر ہی مرنا، پھر یہ وصیت کرتا کہ اس مرض و بیماری میں کوئی حادثہ پیش آ جائے تو اس کی وصیت اس طرح ہے ......۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل أبي بكر بن عياش ولكنه لم ينفرد به بل توبع عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3227]»
اس اثر کی سند ابوبکر بن عياش کی وجہ سے حسن ہے۔ دیگر طرق سے صحیح کے درجے میں ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11078]، [عبدالرزاق 16319]، [ابن منصور 326]، [دارقطني 154/4]، [البيهقي 287/6]، [كشف الأستار 1375]، [مجمع الزوائد 7176] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل أبي بكر بن عياش ولكنه لم ينفرد به بل توبع عليه
حفص بن غیلان سے مروی ہے مکحول رحمہ اللہ نے جب وصیت کی تو کہا: ہم اس کی شہادت دیتے ہیں اس کے گواہ رہو، اللہ کے سوا کوئی معبو نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، اور جو (بندہ) اللہ پر ایمان رکھتا ہے، بتوں کا انکار کرتا ہے، اسی پر ان شاء الله وہ مرے گا اور اسی پر اٹھایا جائے گا۔ اور انہوں نے اللہ کے دیئے ہوئے ترکے کے بارے میں وصیت کی: اگر ان کو کوئی حادثہ پیش آ جائے تو اس طرح کیا جائے اگر اس میں رد و بدل نہ کریں (یعنی مرنے سے پہلے وہ خود رد و بدل نہ کریں تو یہ وصیت قابل عمل ہے)۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن الوليد بن مسلم قد عنعن وهو مدلس، [مكتبه الشامله نمبر: 3228]»
ولید بن مسلم کے عنعنہ کے علاوہ اور کوئی علت اس اثر میں نہیں ہے اور وہ مدلس ہیں، باقی رجال ثقہ ہیں۔ «وانفرد به الدارمي» ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن الوليد بن مسلم قد عنعن وهو مدلس
مکحول رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ یہ (مذکورہ بالا) وصیت سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3229]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
ابوحیان التیمی نے اپنے والد سے بیان کیا کہ ربیع بن خثیم نے ایک وصیت (اس طرح) لکھی: بسم اللہ الرحمن الرحیم: یہ ربیع بن خثیم کی وصیت ہے۔ اور میں شہادت دیتا ہوں اور الله کی گواہی کافی ہے جو اپنے نیک بندوں کو جزا اور ثواب سے نوازنے والا ہے، میں اللہ پر راضی ہوں اس کے رب ہونے میں اور اسلام پر دین ہونے میں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نبی ہونے میں، اور میں اپنے نفس کو اور جو میری اطاعت کرے اس کو حکم دیتا ہوں کہ ہم عبادت گزاروں کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں، حمد و ثنا کرنے والوں میں اس کی حمد کریں، اور مسلم جماعت کے ساتھ خیر خواہی کریں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3230]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ ابوحیان کا نام یحییٰ بن سعید بن حیان ہے۔ دیکھئے: [البيهقي 287/6] وضاحت:
(تشریح احادیث 3214 سے 3219) ان تمام آثار سے وصیت کرنے کا طریقہ معلوم ہوا، بسم اللہ اور کلمۂ شہادت سے شروع کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر پہلے اپنے اہل و عیال کو اسلام و ایمان پر قائم و دائم، ثابت قدم رہنے کی تلقین کی جائے، اگر قرض یا امانت وغیرہ ہو تو اس کی نشاندہی کی جائے، کسی نیک کام میں خرچ کرنے کی تحدید کے ساتھ عدل و انصاف سے کام لیا جائے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|