من كتاب الوصايا وصیت کے مسائل 21. باب مَنْ قَالَ الْكَفَنُ مِنْ جَمِيعِ الْمَالِ: کفن کا خرچ تمام مال میں سے ہو گا
ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: کفن (کا خرچ مرنے والے کے) تمام مال میں سے ہو گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3280]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 1920، 1928، 1931]، [عبدالرزاق 6223] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حسن رحمہ اللہ نے کہا: کوئی آدمی فوت ہو گیا اور دو ہزار درہم چھوڑ گیا، اور اس پر اتنا ہی یا اس سے زیادہ قرض ہو، انہوں نے کہا: اس سے اس کے کفن دفن کا انتظام کیا جائے گا، اور قرض ادا نہ کیا جائے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الحسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3281]»
اس اثر کی سند صحیح ہے، لیکن کسی اور نے روایت نہیں کیا۔ اسی کے مثل [ابن أبى شيبه 1922] میں ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 3268 سے 3270) میت پر اگر قرض ہے تو سب سے پہلے قرض ادا کرنا ضروری ہے، لیکن اگر اتنا مال نہ ہو کہ قرض ادا کیا جا سکے تو سب سے پہلے اس کے کفن دفن کا ہی انتظام کیا جائے گا، جیسا کہ حسن رحمہ اللہ نے فرمایا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الحسن
ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: ایسی صورت میں ابتداء کفن سے ہو گی، پھر (جو بچے اس سے) قرض ادا کیا جائے، اور اس کے بعد وصیت نافذ کی جائے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه جهالة، [مكتبه الشامله نمبر: 3282]»
اس اثر کی سند میں راوی مجہول ہے، لیکن [عبدالرزاق 6224] نے بسند صحیح روایت کیا ہے۔ نیز امام بخاری نے اس روایت کو تعلیقاً ذکر کیا ہے۔ دیکھئے: [فتح الباري 140/3-141] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه جهالة
امام شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے: جو عورت فوت ہو جائے تو اس کے مال سے ہی اس کی تکفین ہوگی، شوہر پر اس کا بار نہ ہو گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3283]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 1930]۔ یہ اس صورت میں ہے جب بیوی نے اپنا نجی مال چھوڑا ہو۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عطاء نے کہا: حنوط اور کفن میت کے اصل مال سے ہو گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ابن جريج قد عنعن، [مكتبه الشامله نمبر: 3284]»
اس اثر کی سند ابن جریج کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن [مصنف عبدالرزاق 6222] میں صحیح سند سے مروی ہے، چنانچہ امام بخاری نے کتاب الجنائز میں اسی طرح باب باندھا: «باب: الكفن من جميع المال وبه قال عطاء» ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ابن جريج قد عنعن
حسن رحمہ اللہ نے کہا: کفن (میت کے) مال سے ہی دیا جائے گا، اور جس طرح اپنی زندگی میں پہنتا تھا ویسا ہی کفن ہو گا، پھر قرض نکالا جائے گا، اور اس کے بعد تہائی مال کی وصیت نافذ کی جائے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف إسماعيل وهو: ابن مسلم المكي، [مكتبه الشامله نمبر: 3285]»
اس اثر کی سند اسماعیل بن مسلم مکی کی وجہ سے ضعیف ہے، کہیں اور یہ روایت نہیں مل سکی لیکن اسی طرح کا قول (3271) میں گذر چکا ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 3270 سے 3274) میت کے ترکے کی اس ترتیب سے تقسیم ہوگی: پہلے کفن دفن کا انتظام، پھر جو بچے اس میں سے قرض ادا کیا جائے، اس کے بعد اگر کوئی وصیت ہے وہ جاری کی جائے گی، پھر ورثاء میں مال تقسیم کیا جائے گا۔ والله اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف إسماعيل وهو: ابن مسلم المكي
|