سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
من كتاب الوصايا
وصیت کے مسائل
3. باب مَنْ لَمْ يُوصِ:
جو کوئی وصیت نہ کرے اس کا بیان
حدیث نمبر: 3213
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، عن مالك بن مغول، عن طلحة بن مصرف اليامي، قال: سالت عبد الله بن ابي اوفى: اوصى رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: لا، قلت: فكيف كتب على الناس الوصية او: امروا بالوصية؟ فقال: اوصى بكتاب الله. وقال هزيل بن شرحبيل: ابو بكر كان يتامر على وصي رسول الله صلى الله عليه وسلم، ود ابو بكر انه وجد من رسول الله صلى الله عليه وسلم عهدا، فخزم انفه بخزامة ذلك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ الْيَامِيِّ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى: أَوْصَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: لَا، قُلْت: فَكَيْفَ كُتِبَ عَلَى النَّاسِ الْوَصِيَّةُ أَوْ: أُمِرُوا بِالْوَصِيَّةِ؟ فَقَالَ: أَوْصَى بِكِتَابِ اللَّهِ. وقَالَ هُزَيْلُ بْنُ شُرَحْبِيلَ: أَبُو بَكْرٍ كَانَ يَتَأَمَّرُ عَلَى وَصِيِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَدَّ أَبُو بَكْرٍ أَنَّهُ وَجَدَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدًا، فَخَزَمَ أَنْفَهُ بِخِزَامَةٍ ذلِكَ.
طلحہ بن مصرف الیامی نے کہا: میں نے سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں، میں نے عرض کیا: پھر کیسے لوگوں پر وصیت لازم ہوئی؟ یا ان کو وصیت کا حکم کیوں دیا گیا؟ انہوں نے جواب دیا کہ: یہ تو کتاب اللہ القرآن سے (واضح) ہے، غالباً اشاره «إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ . . . . . .» [بقره: 180/2] کی طرف طرف ہے۔ ہزیل بن شرحبیل نے کہا: سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی پر حکومت کر سکتے تھے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کو پورا کرنا ایسے پسند کرتے تھے جیسے تابعدار اونٹنی نکیل ڈلوا کر تابعداری کرتی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وموصول بالإسناد السابق، [مكتبه الشامله نمبر: 3224]»
اس حدیث کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2740]، [مسلم 1634]، [ابن ماجه 2696]، [ابن حبان 6023]، [الحميدي 739، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 3212)
ہزیل رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وصیت کی ہوتی تو اس کی سب سے زیادہ پیروی کرنے والے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے، ان سے یہ گمان کیا ہی نہیں جا سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اور کو خلیفہ بنانے کے لئے کہا ہو اور وہ خود خلیفہ بن بیٹھیں، تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ جب ثقیفہ بنو ساعدہ میں خلافت کے لئے جھگڑا چل رہا تھا تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: دو میں سے کسی کو منتخب کر لو سیدنا عمر یا سیدنا ابوعبیده رضی اللہ عنہما کو، انہوں نے اپنا نام ہی نہیں لیا، سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ پر یہ بہتان ہے کہ انہوں نے خلافت غصب کر لی، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ یا حکم ہوتا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانا ہے تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ دل و جان سے قبول کرنے اور بلا مشورہ ہی ان کو خلیفہ بنانے میں پیش پیش ہوتے۔
«(سبحانك هٰذا بهتان عظيم)

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وموصول بالإسناد السابق
حدیث نمبر: 3214
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا يزيد، انبانا همام، عن قتادة:"كتب عليكم إذا حضر احدكم الموت إن ترك خيرا الوصية للوالدين والاقربين بالمعروف حقا على المتقين سورة البقرة آية 180، قال: "الخير: المال، كان يقال: الفا فما فوق ذلك".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ، أنبأنا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ:"كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ سورة البقرة آية 180، قَالَ: "الْخَيْرُ: الْمَالُ، كَانَ يُقَالُ: أَلْفًا فَمَا فَوْقَ ذَلِكَ".
قتادہ رحمہ اللہ سے «إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ. . . . . .» [بقره: 180/2] کے بارے میں مروی ہے کہ اس آیت میں «خَيْرًا» سے مراد مال ہے جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ہزار یا اس سے زیادہ ہو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3225]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ یزید: ابن ہارون، اور ہمام: ابن یحییٰ ہیں۔ د یکھئے: [ابن أبى شيبه 10991]، [تفسير طبري 121/2]

وضاحت:
(تشریح حدیث 3213)
یعنی آیتِ مذکورہ میں ہے: جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت قریب آئے اور اس کے پاس مال ہو تو والدین یا عزیز و اقارب کے لئے مناسب وصیت کرنا لازمی ہے، یہ مؤمنین پر واجب ہے۔
تو اس آیت میں خیراً سے مراد مال ہے جتنا بھی ہو۔
ان احادیث و آثار سے ثابت ہوا کہ اگر کسی کے پاس مال و دولت ہے تو وصیت ضرور کرنی چاہیے، اور اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ اچھا سلوک کر جائے تاکہ اس کے مرنے کے بعد لوگ اس کے احسان سے فائدہ اٹھائیں اور دعائیں دیں۔
اوپر حدیث میں گذرا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وصیت نہیں کی، اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز کی وصیت نہیں کی، اس سے مراد مال کی وصیت ہے، کیوں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اسی حدیث میں ہے کہ پیغمبرِ اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی درہم و دینار چھوڑا ہی نہیں جس کی وصیت کرتے، البتہ دینی امور سے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد وصیتیں کی ہیں، جیسے: نماز کا خیال رکھنا، اور غلام و لونڈی، «اِتَّقُوْا الدُّنْيَا وَالتَّقُوْا النِّسَاءَ» دنیا سے بچنا اور عورتوں سے بچ کے رہنا، میری قبر کو صنم نہ بنانا جس کی پوجا کی جائے، کتاب و سنّت کو مضبوطی سے تھامے رہنا، گمراہ نہ ہو گے، وغیرہ ذلک۔
اس سے معلوم ہوا کہ اولاد اور اہلِ خانہ کو دینی امور میں وصیت کرنا چاہیے۔
کچھ وصیتوں کا ذکر آگے آ رہا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.