من كتاب الوصايا وصیت کے مسائل 9. باب مَا يَجُوزُ لِلْوَصِيِّ وَمَا لاَ يَجُوزُ: وصی کے لئے کیا جائز ہے اور کیا ناجائز ہے؟
مغیرہ سے مروی ہے ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: وصی اس چیز کا امین ہے جس کی اس کے لئے وصیت کی جا رہی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3246]»
اس اثر کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11013] وضاحت:
(تشریح حدیث 3234) وصی اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کے نام سے وصیت کی جائے، یا جس کو وصیت کی تنفیذ کا مکلّف بنایا جائے، نیز وصیت کرنے والے کو بھی وصی کہتے ہیں لیکن یہاں مراد پہلا معنی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
ابووہب سے مروی ہے مکحول رحمہ اللہ نے کہا: وصی کا معاملہ مکان، دکان، زمین کے علاوہ ہر چیز میں جائز ہے، اگر وہ کسی چیز کی بیع کرے تو وہ منسوخ نہ ہو گی۔ یحییٰ بن حمزہ کی یہی رائے ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3247]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ابووہب کا نام عبیداللہ بن عبید کلاعی ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11015] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
یحییٰ بن ابی کثیر نے کہا: وصی سوائے غلام آزاد کرنے کے ہر چیز کا امین ہے، اور وہ ولاء قائم کر سکتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 3248]»
اس اثر کی سند میں ولید بن مسلم مدلس ہیں اور عن سے روایت کی ہے۔ «وانفرد به الدارمي» ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
منصور (ابن المعتمر) سے روایت ہے ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: یتیم کے مال میں وصی (جس کو وصیت کی گئی ہے) کام (تجارت وغیرہ) کرے گا جب کسی آدمی نے اس کو وصیت کی ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3249]»
اس اثر کی سند صحیح ہے، لیکن کسی اور محدث نے اسے روایت نہیں کیا۔ عبیداللہ: ابن موسیٰ، اور اسرائیل: ابن یونس بن ابی اسحاق ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
اسماعیل سے مروی ہے حسن رحمہ اللہ نے کہا: یتیم کا وصی اس کے لئے حق شفعہ لے گا اور غائب کا وصی جس کو شفعہ کی وصیت کی گئی ہو وہ بھی حق شفعہ لے گا۔
تخریج الحدیث: «إسماعيل بن مسلم المكي ضعيف وباقي رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 3250]»
اس اثر میں اسماعیل بن مسلم مکی ضعیف ہیں۔ دیگر کسی محدث نے اسے روایت نہیں کیا۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 3235 سے 3239) حقِ شفعہ مکان، دکان، زمین میں پڑوسی اور شریک کا یہ حق ہوتا ہے کہ اگر ان کو بیچنا چاہے تو پہلے شریک یا پڑوسی سے پوچھ لے، پہلے خریدنے کا حق اس کا ہے، جب اس کو حاجت یا استطاعت نہ ہو تو دوسرا کوئی بھی شخص خرید سکتا ہے۔ مذکور بالا اثر میں یتیم کے وصی یا ولی کو اختیار ہوگا کہ وہ شفعہ کا مطالبہ کرے اور حقِ شفعہ یتیم کے لئے اس کو دینا ہوگا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسماعيل بن مسلم المكي ضعيف وباقي رجاله ثقات
عکرمہ نے روایت کیا: دمشق کے ایک شیخ نے کہا: میں عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے پاس تھا اور ان کے پاس سلیمان بن حبیب اور ابوقلابہ بھی موجود تھے کہ اچانک ایک لڑکا آیا اور گویا ہوا کہ فلاں جگہ ہماری زمین ہے جس کو ہمارے وصی نے آپ کے لئے فروخت کر دیا اس وقت ہم بچے تھے، عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سلیمان بن حبیب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: اس بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے گول مول جواب دیا، پھر وہ ابوقلابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا: لڑکے کی زمین لوٹا دو، انہوں نے کہا: پھر تو ہمارا مال مارا جائے گا، جواب دیا: آپ نے خود اپنے مال کو ضائع کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 3251]»
اس اثر کی سند میں عکرمہ مجہول ہیں، باقی رجال ثقہ ہیں۔ یہ روایت بھی کہیں اور نہیں مل سکی لیکن اس کے ہم معنی۔ دیکھئے: [ابن منصور 329]، [مصنف عبدالرزاق 16479] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق
|