ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے ساری زمین کے ہر حصے سے ایک مٹھی مٹی لے کر اس سے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا، چنانچہ ان کی اولاد میں مٹی کی مناسبت سے کوئی لال، کوئی سفید، کالا اور ان کے درمیان مختلف رنگوں کے اور نرم مزاج و گرم مزاج، بد باطن و پاک طینت لوگ پیدا ہوئے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ السنة 17 (4693) (تحفة الأشراف: 9025)، و مسند احمد (4/400، 406) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث سورۃ البقرہ کی آیت: «إني جاعل في الأرض خليفة»(البقرة: 30) کی تفسیر میں ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (100)، الصحيحة (1630)
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، اخبرنا عبد الرزاق، عن معمر، عن همام بن منبه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في قوله: " ادخلوا الباب سجدا سورة النساء آية 154، قال: دخلوا متزحفين على اوراكهم "، اي منحرفين.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ: " ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا سورة النساء آية 154، قَالَ: دَخَلُوا مُتَزَحِّفِينَ عَلَى أَوْرَاكِهِمْ "، أَيْ مُنْحَرِفِينَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کریمہ: «ادخلوا الباب سجدا»”اور جھکے جھکے دروازہ میں داخل ہونا“(البقرہ: ۵۸) کے بارے میں فرمایا: ”بنی اسرائیل چوتڑ کے بل کھسکتے ہوئے داخل ہوئے“۔
(مرفوع) وبهذا الإسناد، عن النبي صلى الله عليه وسلم " فبدل الذين ظلموا قولا غير الذي قيل لهم سورة البقرة آية 59، قال: قالوا: حبة في شعرة "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ سورة البقرة آية 59، قَالَ: قَالُوا: حَبَّةٌ فِي شَعْرَةٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
اور اسی سند کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے (آیت) «فبدل الذين ظلموا قولا غير الذي قيل لهم»”پھر ان ظالموں نے اس بات کو جوان سے کہی گئی تھی بدل ڈالی“۔ (البقرہ: ۵۹) کے بارے میں یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ”بنی اسرائیل نے «حبة في شعرة»۱؎ کہا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی بنی اسرائیل نے «حطۃ»(ہمارے گناہ معاف فرما دے) کہنے کے بجائے «حبۃ فی شعرۃ»(یعنی بالی میں گندم) کہا۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وكيع، حدثنا اشعث السمان، عن عاصم بن عبيد الله، عن عبد الله بن عامر بن ربيعة، عن ابيه، قال: " كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفره في ليلة مظلمة، فلم ندر اين القبلة فصلى كل رجل منا على حياله، فلما اصبحنا ذكرنا ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فنزلت: فاينما تولوا فثم وجه الله سورة البقرة آية 115 "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من حديث اشعث السمان ابي الربيع، عن عاصم بن عبيد الله، واشعث يضعف في الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا أَشْعَثُ السَّمَّانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرِهِ فِي لَيْلَةٍ مُظْلِمَةٍ، فَلَمْ نَدْرِ أَيْنَ الْقِبْلَةُ فَصَلَّى كُلُّ رَجُلٍ مِنَّا عَلَى حِيَالِهِ، فَلَمَّا أَصْبَحْنَا ذَكَرْنَا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَزَلَتْ: فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ سورة البقرة آية 115 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَشْعَثَ السَّمَّانِ أَبِي الرَّبِيعِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، وَأَشْعَثُ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ.
عامر بن ربیعہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک انتہائی اندھیری رات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے، کوئی نہ جان سکا کہ قبلہ کدھر ہے۔ چنانچہ جو جس رخ پر تھا اس نے اسی رخ پر نماز پڑھ لی، جب صبح ہوئی تو ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا تو (اس وقت) یہ آیت «فأينما تولوا فثم وجه الله»”تم جدھر بھی منہ کروا ادھر اللہ کا منہ ہے“(البقرہ: ۱۱۵) نازل ہوئی۔
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا عبد الملك بن ابي سليمان، قال: سمعت سعيد بن جبير يحدث، عن ابن عمر، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم " يصلي على راحلته تطوعا اينما توجهت به، وهو جاء من مكة إلى المدينة، ثم قرا ابن عمر هذه الآية ولله المشرق والمغرب سورة البقرة آية 115، فقال ابن عمر: ففي هذا انزلت هذه الآية "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، قَال: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ يُحَدِّثُ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يُصَلِّي عَلَى رَاحِلَتِهِ تَطَوُّعًا أَيْنَمَا تَوَجَّهَتْ بِهِ، وَهُوَ جَاءٍ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِينَةِ، ثُمَّ قَرَأَ ابْنُ عُمَرَ هَذِهِ الْآيَةَ وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ سورة البقرة آية 115، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَفِي هَذَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ آتے ہوئے نفل نماز اپنی اونٹنی پر بیٹھے بیٹھے پڑھ رہے تھے۔ اونٹنی جدھر بھی چاہتی منہ پھیرتی ۱؎، ابن عمر نے پھر یہ آیت «ولله المشرق والمغرب»”اللہ ہی کے لیے مغرب و مشرق ہیں“(البقرہ: ۱۱۵) پڑھی۔ ابن عمر کہتے ہیں: یہ آیت اسی تعلق سے نازل ہوئی ہے ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- قتادہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں: آیت: «ولله المشرق والمغرب فأينما تولوا فثم وجه الله»(البقرة: ۱۱۵) منسوخ ہے، اور اسے منسوخ کرنے والی آیت «فول وجهك شطر المسجد الحرام»”آپ اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف پھیر لیں“(البقرہ: ۱۴۴) ہے۔
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ مسافر اپنی سواری پر نفلی نماز پڑھ سکتا ہے، اس سواری کا رخ کسی بھی سمت ہو، شرط یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت قبلہ رخ ہونا ضروری ہے اس کے بعد جہت قبلہ سے ہٹ جانے میں کوئی حرج نہیں۔
۲؎: عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک آیت کے سبب نزول کے سلسلے میں کئی واقعات منقول ہوتے ہیں، دراصل ان سب پروہ آیت صادق آتی ہے، یا متعدد واقعات پر وہ آیت دوبارہ نازل ہوتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔
(مرفوع) ويروى عن قتادة، انه قال: في هذه الآية ولله المشرق والمغرب فاينما تولوا فثم وجه الله سورة البقرة آية 115 قال قتادة: هي منسوخة نسخها قوله: فول وجهك شطر المسجد الحرام سورة البقرة آية 144 " اي تلقاءه، حدثنا بذلك محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب، حدثنا يزيد بن زريع، عن سعيد، عن قتادة.(مرفوع) وَيُرْوَى عَنْ قَتَادَةَ، أَنَّهُ قَالَ: فِي هَذِهِ الْآيَةِ وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ سورة البقرة آية 115 قَالَ قَتَادَةُ: هِيَ مَنْسُوخَةٌ نَسَخَهَا قَوْلُهُ: فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ سورة البقرة آية 144 " أَيْ تِلْقَاءَهُ، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ.
بیان کیا اسے مجھ سے محمد بن عبدالملک بن ابی الشوارب نے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے بیان کیا یزید بن زریع نے اور یزید بن زریع نے سعید کے واسطہ سے قتادہ سے روایت کی۔
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! کاش ہم مقام (مقام ابراہیم) کے پیچھے نماز پڑھتے، تو آیت: «واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى»”تم مقام ابراہیم کو جائے صلاۃ مقرر کر لو“(البقرہ: ۱۲۵) نازل ہوئی ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اور یہ حکم طواف کے بعد کی دو رکعتوں کے سلسلے میں ہے، لیکن طواف میں اگر بھیڑ بہت زیادہ ہو تو حرم میں جہاں بھی جگہ ملے یہ دو رکعتیں پڑھی جا سکتی ہیں، کوئی حرج نہیں ہے۔
۲؎: مقام ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے جس پر ابراہیم علیہ السلام نے کھڑے ہو کر خانہ کعبہ کی تعمیر کی تھی۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، اخبرنا حميد الطويل، عن انس، قال: قال عمر بن الخطاب رضي الله عنه، قلت لرسول الله صلى الله عليه وسلم: لو اتخذت من مقام إبراهيم مصلى، فنزلت " واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى سورة البقرة آية 125 "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وفي الباب، عن ابن عمر.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قُلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوِ اتَّخَذْتَ مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى، فَنَزَلَتْ " وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى سورة البقرة آية 125 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَابِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اگر آپ مقام ابراہیم کو مصلی (نماز پڑھنے کی جگہ) بنا لیتے (تو کیا ہی اچھی بات ہوتی) تو آیت «واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى» نازل ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا ابو معاوية، حدثنا الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي سعيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم في قوله: " وكذلك جعلناكم امة وسطا سورة البقرة آية 143، قال: عدلا "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ: " وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا سورة البقرة آية 143، قَالَ: عَدْلًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: «وكذلك جعلناكم أمة وسطا»”ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے“(البقرہ: ۱۴۳) کے سلسلے میں فرمایا: ” «وسط» سے مراد عدل ہے“(یعنی انصاف پسند)۔
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، اخبرنا جعفر بن عون، اخبرنا الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يدعى نوح فيقال: هل بلغت؟ فيقول: نعم، فيدعى قومه، فيقال: هل بلغكم؟ فيقولون: ما اتانا من نذير، وما اتانا من احد، فيقال: من شهودك؟ فيقول: محمد وامته، قال: فيؤتى بكم تشهدون انه قد بلغ، فذلك قول الله تعالى: وكذلك جعلناكم امة وسطا لتكونوا شهداء على الناس ويكون الرسول عليكم شهيدا سورة البقرة آية 143 والوسط العدل "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُدْعَى نُوحٌ فَيُقَالُ: هَلْ بَلَّغْتَ؟ فَيَقُولُ: نَعَمْ، فَيُدْعَى قَوْمُهُ، فَيُقَالُ: هَلْ بَلَّغَكُمْ؟ فَيَقُولُونَ: مَا أَتَانَا مِنْ نَذِيرٍ، وَمَا أَتَانَا مِنْ أَحَدٍ، فَيُقَالُ: مَنْ شُهُودُكَ؟ فَيَقُولُ: مُحَمَّدٌ وَأُمَّتُهُ، قَالَ: فَيُؤْتَى بِكُمْ تَشْهَدُونَ أَنَّهُ قَدْ بَلَّغَ، فَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا سورة البقرة آية 143 وَالْوَسَطُ الْعَدْلُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے اس سند سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(قیامت کے دن) نوح علیہ السلام طلب کئے جائیں گے، پھر ان سے پوچھا جائے گا: کیا تم نے (اپنی امت کو) پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ کہیں گے: ”جی ہاں“، پھر ان کی قوم بلائی جائے گی، اور اس سے پوچھا جائے گا: کیا انہوں نے تم لوگوں تک (میرا پیغام) پہنچا دیا تھا؟ وہ کہیں گے: ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا آیا ہی نہیں تھا، اور نہ ہی ہمارے پاس کوئی اور آیا، (نوح علیہ السلام سے) کہا جائے گا: تمہارے گواہ کون ہیں؟ وہ کہیں گے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت، آپ نے فرمایا: ”تو تم گواہی کے لیے پیش کئے جاؤ گے، تم گواہی دو گے کہ ہاں، انہوں نے پہنچایا ہے۔ یہی مفہوم ہے اللہ تبارک وتعالیٰ کے قول: «وكذلك جعلناكم أمة وسطا لتكونوا شهداء على الناس ويكون الرسول عليكم شهيدا»”ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم پر گواہ ہو جائیں“(البقرہ: ۱۴۳) کا، «وسط» کا معنی بیچ اور درمیانی ہے“۔
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا وكيع، عن إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن البراء بن عازب، قال: لما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة " صلى نحو بيت المقدس ستة او سبعة عشر شهرا، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحب ان يوجه إلى الكعبة، فانزل الله: قد نرى تقلب وجهك في السماء فلنولينك قبلة ترضاها فول وجهك شطر المسجد الحرام سورة البقرة آية 144 فوجه نحو الكعبة، وكان يحب ذلك، فصلى رجل معه العصر، قال: ثم مر على قوم من الانصار، وهم ركوع في صلاة العصر نحو بيت المقدس، فقال: هو يشهد انه صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، وانه قد وجه إلى الكعبة، قال: فانحرفوا وهم ركوع "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد رواه سفيان الثوري، عن ابي إسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ " صَلَّى نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ سِتَّةَ أَوْ سَبْعَةَ عَشَرَ شَهْرًا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ أَنْ يُوَجَّهَ إِلَى الْكَعْبَةِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ سورة البقرة آية 144 فَوَجِّهَ نَحْوَ الْكَعْبَةِ، وَكَانَ يُحِبُّ ذَلِكَ، فَصَلَّى رَجُلٌ مَعَهُ الْعَصْرَ، قَالَ: ثُمَّ مَرَّ عَلَى قَوْمٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، وَهُمْ رُكُوعٌ فِي صَلَاةِ الْعَصْرِ نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، فَقَالَ: هُوَ يَشْهَدُ أَنَّهُ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَّهُ قَدْ وُجِّهَ إِلَى الْكَعْبَةِ، قَالَ: فَانْحَرَفُوا وَهُمْ رُكُوعٌ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق.
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ تشریف لے آئے تو سولہ یا سترہ مہینے تک آپ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے، حالانکہ آپ کی خواہش یہی تھی کہ قبلہ کعبہ کی طرف کر دیا جائے، تو اللہ نے آپ کی اس خواہش کے مطابق «قد نرى تقلب وجهك في السماء فلنولينك قبلة ترضاها فول وجهك شطر المسجد الحرام»”ہم آپ کے چہرے کو باربار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، اب ہم آپ کو اس قبلہ کی جانب پھیر دیں گے جس سے آپ خوش ہو جائیں، آپ اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف پھیر لیں“(البقرہ: ۱۴۴)، پھر آپ کعبہ کی طرف پھیر دئیے گئے، اور آپ یہی چاہتے ہی تھے۔ ایک آدمی نے آپ کے ساتھ نماز عصر پڑھی، پھر وہ کچھ انصاری لوگوں کے پاس سے گزرا وہ لوگ بیت المقدس کی طرف رخ کئے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔ اور رکوع کی حالت میں تھے، اس شخص نے (اعلان کرتے ہوئے) کہا کہ وہ گواہی دیتا ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ہے اور آپ کو کعبہ کی طرف منہ پھیر کر نماز پڑھنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ یہ سن کر لوگ حالت رکوع ہی میں (کعبہ کی طرف) پھر گئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسے سفیان ثوری نے بھی ابواسحاق سے روایت کیا ہے۔
(موقوف) حدثنا حدثنا هناد، حدثنا وكيع، عن سفيان، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، قال: " كانوا ركوعا في صلاة الفجر "، وفي الباب، عن عمرو بن عوف المزني، وابن عمر، وعمارة بن اوس، وانس بن مالك، قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث حسن صحيح.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " كَانُوا رُكُوعًا فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ "، وَفِي الْبَابِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيِّ، وَابْنِ عُمَرَ، وَعُمَارَةَ بْنِ أَوْسٍ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ لوگ فجر کی نماز ۱؎ میں حالت رکوع میں تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمرو بن عوف مزنی، ابن عمر، عمارہ بن اوس اور انس بن مالک رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 341 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ مسجد قباء کا واقعہ ہے صحیح بخاری میں اس کی صراحت آئی ہے، وہاں تحویل قبلہ کی خبر فجر میں ملی تھی، اور پچھلی حدیث میں جو واقعہ ہے وہ بنو حارثہ کی مسجد کا واقعہ ہے۔ جسے مسجد قبلتین کہا جاتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح أصل صفة الصلاة، الإرواء (290)
(مرفوع) حدثنا هناد، وابو عمار، قالا: حدثنا وكيع، عن إسرائيل، عن سماك، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: " لما وجه النبي صلى الله عليه وسلم إلى الكعبة، قالوا: يا رسول الله، كيف بإخواننا الذين ماتوا وهم يصلون إلى بيت المقدس، فانزل الله تعالى: وما كان الله ليضيع إيمانكم سورة البقرة آية 143 "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، وَأَبُو عَمَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " لَمَّا وُجِّهَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْكَعْبَةِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ بِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ مَاتُوا وَهُمْ يُصَلُّونَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ سورة البقرة آية 143 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا تو لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہمارے ان بھائیوں کا کیا بنے گا جو بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے، اور وہ گزر گئے تو (اسی موقع پر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «وما كان الله ليضيع إيمانكم»”اللہ تعالیٰ تمہارا ایمان ضائع نہ کرے گا“(البقرہ: ۱۴۳)۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ السنة 16 (4680) (تحفة الأشراف: 6108) (صحیح) (سند میں سماک کی عکرمہ سے روایت میں اضطراب پایا جاتا ہے، لیکن صحیح بخاری کی براء رضی الله عنہ کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: یعنی: بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھی گئی نمازوں کو ضائع نہیں کرے گا کیونکہ اس وقت یہی حکم الٰہی تھا، اس آیت میں «ایمان» سے مراد «صلاۃ» ہے نہ کہ بعض بزعم خود مفسر قرآن بننے والے نام نہاد مفسرین کا یہ کہنا کہ یہاں «ایمان» ہی مراد ہے، یہ صحیح حدیث کا صریح انکار ہے، «عفا اللہ عنہ» ۔
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، قال: سمعت الزهري يحدث، عن عروة، قال: " قلت لعائشة: ما ارى على احد لم يطف بين الصفا والمروة شيئا، وما ابالي ان لا اطوف بينهما، فقالت: بئسما، قلت: يا ابن اختي، طاف رسول الله صلى الله عليه وسلم، وطاف المسلمون، وإنما كان من اهل لمناة الطاغية التي بالمشلل لا يطوفون بين الصفا والمروة، فانزل الله تبارك وتعالى: فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما سورة البقرة آية 158 ولو كانت كما تقول لكانت فلا جناح عليه ان لا يطوف بهما "، قال الزهري: فذكرت ذلك لابي بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام، فاعجبه ذلك، وقال إن هذا لعلم، ولقد سمعت رجالا من اهل العلم، يقولون: " إنما كان من لا يطوف بين الصفا والمروة من العرب، يقولون: إن طوافنا بين هذين الحجرين من امر الجاهلية، وقال آخرون: من الانصار إنما امرنا بالطواف بالبيت ولم نؤمر به بين الصفا والمروة، فانزل الله تعالى: إن الصفا والمروة من شعائر الله سورة البقرة آية 158، قال ابو بكر بن عبد الرحمن فاراها قد نزلت في هؤلاء وهؤلاء "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَال: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ عُرْوَةَ، قَالَ: " قُلْتُ لِعَائِشَةَ: مَا أَرَى عَلَى أَحَدٍ لَمْ يَطُفْ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ شَيْئًا، وَمَا أُبَالِي أَنْ لَا أَطُوفَ بَيْنَهُمَا، فَقَالَتْ: بِئْسَمَا، قُلْتَ: يَا ابْنَ أُخْتِي، طَافَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَطَافَ الْمُسْلِمُونَ، وَإِنَّمَا كَانَ مَنْ أَهَلَّ لِمَنَاةَ الطَّاغِيَةِ الَّتِي بِالْمُشَلَّلِ لَا يَطُوفُونَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا سورة البقرة آية 158 وَلَوْ كَانَتْ كَمَا تَقُولُ لَكَانَتْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لَا يَطَّوَّفَ بِهِمَا "، قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِأَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، فَأَعْجَبَهُ ذَلِكَ، وَقَالَ إِنَّ هَذَا لَعِلْمٌ، وَلَقَدْ سَمِعْتُ رِجَالًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، يَقُولُونَ: " إِنَّمَا كَانَ مَنْ لَا يَطُوفُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ مِنَ الْعَرَبِ، يَقُولُونَ: إِنَّ طَوَافَنَا بَيْنَ هَذَيْنِ الْحَجَرَيْنِ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ، وَقَالَ آخَرُونَ: مِنَ الْأَنْصَارِ إِنَّمَا أُمِرْنَا بِالطَّوَافِ بِالْبَيْتِ وَلَمْ نُؤْمَرْ بِهِ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158، قَالَ أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَأُرَاهَا قَدْ نَزَلَتْ فِي هَؤُلَاءِ وَهَؤُلَاءِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عروہ بن زبیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے کہا: میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص صفا و مروہ کے درمیان طواف نہ کرے، اور میں خود اپنے لیے ان کے درمیان طواف نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں پاتا۔ تو عائشہ نے کہا: اے میرے بھانجے! تم نے بری بات کہہ دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کیا اور مسلمانوں نے بھی کیا ہے۔ ہاں ایسا زمانہ جاہلیت میں تھا کہ جو لوگ مناۃ (بت) کے نام پر جو مشلل ۱؎ میں تھا احرام باندھتے تھے وہ صفا و مروہ کے درمیان طواف نہیں کرتے تھے، تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیت: «فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما»۲؎ نازل فرمائی۔ اگر بات اس طرح ہوتی جس طرح تم کہہ رہے ہو تو آیت اس طرح ہوتی «فلا جناح عليه أن لا يطوف بهما»(یعنی اس پر صفا و مروہ کے درمیان طواف نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے)۔ زہری کہتے ہیں: میں نے اس بات کا ذکر ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام سے کیا تو انہیں یہ بات بڑی پسند آئی۔ کہا: یہ ہے علم و دانائی کی بات۔ اور (بھئی) میں نے تو کئی اہل علم کو کہتے سنا ہے کہ جو عرب صفا و مروہ کے درمیان طواف نہ کرتے تھے وہ کہتے تھے کہ ہمارا طواف ان دونوں پتھروں کے درمیان جاہلیت کے کاموں میں سے ہے۔ اور کچھ دوسرے انصاری لوگوں نے کہا: ہمیں تو خانہ کعبہ کے طواف کا حکم ملا ہے نہ کہ صفا و مروہ کے درمیان طواف کا۔ (اسی موقع پر) اللہ تعالیٰ نے آیت: «إن الصفا والمروة من شعائر الله» نازل فرمائی ۳؎۔ ابوبکر بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں: میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت انہیں لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
وضاحت: ۱؎: مشلل مدینہ سے کچھ دوری پر ایک مقام کا نام ہے جو قُدید کے پاس ہے۔
۲؎: (صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں) اس لیے بیت اللہ کا حج اور عمرہ کرنے والے پر ان کا طواف کر لینے میں بھی کوئی گناہ نہیں (البقرہ: ۱۵۸)۔
۳؎: خلاصہ یہ ہے کہ آیت کے سیاق کا یہ انداز انصار کی ایک غلط فہمی کا ازالہ ہے جو اسلام لانے کے بعد حج و عمرہ میں صفا و مروہ کے درمیان سعی کو معیوب سمجھتے تھے کیونکہ صفا پر ایک بت ”اِساف“ نام کا تھا، اور مروہ پر ”نائلہ“ نام کا، اس پر اللہ نے فرمایا: ارے اب اسلام میں ان دونوں کو توڑ دیا گیا ہے، اب ان کے درمیان سعی کرنے میں شرک کا شائبہ نہیں رہ گیا، بلکہ اب تو یہ سعی فرض ہے، ارشاد نبوی ہے «اسعوا فإن اللہ کتب علیکم السعی»”(احمد والحاکم بسند حسن)“(یعنی: سعی کرو، کیونکہ اللہ نے اس کو تم پر فرض کر دیا ہے)۔
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا يزيد بن ابي حكيم، عن سفيان، عن عاصم الاحول، قال: " سالت انس بن مالك عن الصفا والمروة، فقال: كانا من شعائر الجاهلية، فلما كان الإسلام امسكنا عنهما فانزل الله تبارك وتعالى: إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما سورة البقرة آية 158 قال: هما تطوع ومن تطوع خيرا فإن الله شاكر عليم سورة البقرة آية 158 " قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَكِيمٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، قَالَ: " سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ عَنِ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَقَالَ: كَانَا مِنْ شَعَائِرِ الْجَاهِلِيَّةِ، فَلَمَّا كَانَ الْإِسْلَامُ أَمْسَكْنَا عَنْهُمَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا سورة البقرة آية 158 قَالَ: هُمَا تَطَوُّعٌ وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ سورة البقرة آية 158 " قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عاصم الأحول کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی الله عنہ سے صفا اور مروہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ دونوں جاہلیت کے شعائر میں سے تھے ۱؎، پھر جب اسلام آیا تو ہم ان دونوں کے درمیان طواف کرنے سے رک گئے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت «إن الصفا والمروة من شعائر الله»(صفا و مروہ شعائر الٰہی میں سے ہیں) نازل فرمائی۔ تو جو شخص بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے اس کے لیے ان دونوں کے درمیان طواف (سعی) کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ان کے درمیان طواف (سعی) نفل ہے اور جو کوئی بھلائی کام ثواب کی خاطر کرے تو اللہ تعالیٰ اس کا قدردان اور علم رکھنے والا ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن جعفر بن محمد، عن ابيه، عن جابر بن عبد الله، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم حين قدم مكة طاف بالبيت سبعا، فقرا " واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى سورة البقرة آية 125، فصلى خلف المقام، ثم اتى الحجر فاستلمه، ثم قال: نبدا بما بدا الله وقرا: إن الصفا والمروة من شعائر الله سورة البقرة آية 158 "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَدِمَ مَكَّةَ طَافَ بِالْبَيْتِ سَبْعًا، فَقَرَأَ " وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى سورة البقرة آية 125، فَصَلَّى خَلْفَ الْمَقَامِ، ثُمَّ أَتَى الْحَجَرَ فَاسْتَلَمَهُ، ثُمَّ قَالَ: نَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللَّهُ وَقَرَأَ: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ تشریف لائے اور آپ بیت اللہ کا سات طواف کیا تو میں نے آپ کو یہ آیت پڑھتے سنا: «واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى»”مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لو“۔ آپ نے مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھی، پھر حجر اسود کے پاس آ کر اسے چوما، پھر فرمایا: ”ہم (سعی) وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے اللہ نے (اس کا ذکر) شروع کیا ہے۔ اور آپ نے پڑھا «إن الصفا والمروة من شعائر الله» ۔
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل بن يونس، عن ابي إسحاق، عن البراء، قال: " كان اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم إذا كان الرجل صائما فحضر الإفطار فنام قبل ان يفطر لم ياكل ليلته ولا يومه حتى يمسي، وإن قيس بن صرمة الانصاري كان صائما، فلما حضر الإفطار اتى امراته، فقال: هل عندك طعام؟ قالت: لا، ولكن انطلق فاطلب لك، وكان يومه يعمل فغلبته عينه، وجاءته امراته فلما راته قالت خيبة لك، فلما انتصف النهار غشي عليه، فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فنزلت هذه الآية احل لكم ليلة الصيام الرفث إلى نسائكم سورة البقرة آية 187 ففرحوا بها فرحا شديدا وكلوا واشربوا حتى يتبين لكم الخيط الابيض من الخيط الاسود من الفجر سورة البقرة آية 187 "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ بْنِ يُونُسَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْبَرَاءِ، قَالَ: " كَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ الرَّجُلُ صَائِمًا فَحَضَرَ الْإِفْطَارُ فَنَامَ قَبْلَ أَنْ يُفْطِرَ لَمْ يَأْكُلْ لَيْلَتَهُ وَلَا يَوْمَهُ حَتَّى يُمْسِيَ، وَإِنَّ قَيْسَ بْنَ صِرْمَةَ الْأَنْصَارِيَّ كَانَ صَائِمًا، فَلَمَّا حَضَرَ الْإِفْطَارُ أَتَى امْرَأَتَهُ، فَقَالَ: هَلْ عِنْدَكِ طَعَامٌ؟ قَالَتْ: لَا، وَلَكِنْ أَنْطَلِقُ فَأَطْلُبُ لَكَ، وَكَانَ يَوْمَهُ يَعْمَلُ فَغَلَبَتْهُ عَيْنُهُ، وَجَاءَتْهُ امْرَأَتُهُ فَلَمَّا رَأَتْهُ قَالَتْ خَيْبَةً لَكَ، فَلَمَّا انْتَصَفَ النَّهَارُ غُشِيَ عَلَيْهِ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ سورة البقرة آية 187 فَفَرِحُوا بِهَا فَرَحًا شَدِيدًا وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ سورة البقرة آية 187 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ شروع میں کے صحابہ کا طریقہ یہ تھا کہ جب کوئی آدمی روزہ رکھتا اور افطار کا وقت ہوتا اور افطار کرنے سے پہلے سو جاتا، تو پھر وہ ساری رات اور سارا دن نہ کھاتا یہاں تک کہ شام ہو جاتی۔ قیس بن صرمہ انصاری کا واقعہ ہے کہ وہ روزے سے تھے جب افطار کا وقت آیا تو وہ اپنی اہلیہ کے پاس آئے اور پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے؟ انہوں نے کہا: ہے تو نہیں، لیکن میں جاتی ہوں اور آپ کے لیے کہیں سے ڈھونڈھ لاتی ہوں، وہ دن بھر محنت مزدوری کرتے تھے اس لیے ان کی آنکھ لگ گئی۔ وہ لوٹ کر آئیں تو انہیں سوتا ہوا پایا، کہا: ہائے رے تمہاری محرومی و بدقسمتی۔ پھر جب دوپہر ہو گئی تو قیس پر غشی طاری ہو گئی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ذکر کی گئی تو اس وقت یہ آیت: «أحل لكم ليلة الصيام الرفث إلى نسائكم»”روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں سے ملنا تمہارے لیے حلال کیا گیا“(البقرہ: ۱۸۷)، نازل ہوئی، لوگ اس آیت سے بہت خوش ہوئے۔ (اس کے بعد یہ حکم نازل ہو گیا) «وكلوا واشربوا حتى يتبين لكم الخيط الأبيض من الخيط الأسود من الفجر» تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے ظاہر ہو جائے“(البقرہ: ۱۸۷)۔
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن ذر، عن يسيع الكندي، عن النعمان بن بشير، عن النبي صلى الله عليه وسلم في قوله:" وقال ربكم ادعوني استجب لكم سورة غافر آية 60"، قال:" الدعاء هو العبادة"، وقرا وقال ربكم ادعوني استجب لكم إلى قوله: داخرين سورة غافر آية 60"، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ ذَرٍّ، عَنْ يُسَيِّعٍ الْكِنْدِيِّ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ:" وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ سورة غافر آية 60"، قَالَ:" الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ"، وَقَرَأَ وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِلَى قَوْلِهِ: دَاخِرِينَ سورة غافر آية 60"، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: «وقال ربكم ادعوني أستجب لكم»”اور تمہارے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا، یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے اعراض کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں پہنچ جائیں گے“(غافر: ۶۰)، کی تفسیر میں فرمایا کہ دعا ہی عبادت ہے۔ پھر آپ نے سورۃ مومن کی آیت «وقال ربكم ادعوني أستجب لكم» سے «داخرين»۱؎ تک پڑھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اسے منصور نے روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 358 (1479)، سنن ابن ماجہ/الدعاء 1 (3828) (تحفة الأشراف: 11643)، و مسند احمد (4/271، 276)، ویأتي برقم 3247) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، اخبرنا حصين، عن الشعبي، اخبرنا عدي بن حاتم، قال: لما نزلت حتى يتبين لكم الخيط الابيض من الخيط الاسود من الفجر سورة البقرة آية 187، قال لي النبي صلى الله عليه وسلم: " إنما ذاك بياض النهار من سواد الليل "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، أَخْبَرَنَا عَدِيُّ بْنُ حَاتِمٍ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ سورة البقرة آية 187، قَالَ لِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا ذَاكَ بَيَاضُ النَّهَارِ مِنْ سَوَادِ اللَّيْلِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت: «حتى يتبين لكم الخيط الأبيض من الخيط الأسود من الفجر» نازل ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”اس سے مراد رات کی تاریکی سے دن کی سفیدی (روشنی) کا نمودار ہو جانا ہے“۔
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن مجالد، عن الشعبي، عن عدي بن حاتم قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الصوم، فقال: " حتى يتبين لكم الخيط الابيض من الخيط الاسود سورة البقرة آية 187 قال: فاخذت عقالين، احدهما ابيض، والآخر اسود، فجعلت انظر إليهما، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا لم يحفظه سفيان، قال: إنما هو الليل والنهار "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّوْمِ، فَقَالَ: " حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ سورة البقرة آية 187 قَالَ: فَأَخَذْتُ عِقَالَيْنِ، أَحَدُهُمَا أَبْيَضُ، وَالْآخَرُ أَسْوَدُ، فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَيْهِمَا، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا لَمْ يَحْفَظْهُ سُفْيَانُ، قَالَ: إِنَّمَا هُوَ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روزے کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: «حتى يتبين لكم الخيط الأبيض من الخيط الأسود»”یہاں تک کہ سفید دھاگا سیاہ دھاگے سے نمایاں ہو جائے“ تو میں نے دو ڈوریاں لیں۔ ایک سفید تھی دوسری کالی، میں انہیں کو دیکھ کر (سحری کے وقت ہونے یا نہ ہونے کا) فیصلہ کرنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کچھ باتیں کہیں (ابن ابی عمر کہتے ہیں: میرے استاد) سفیان انہیں یاد نہ رکھ سکے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سے مراد رات اور دن ہے“۔
(موقوف) حدثنا حدثنا عبد بن حميد، حدثنا الضحاك بن مخلد، عن حيوة بن شريح، عن يزيد بن ابي حبيب، عن اسلم ابي عمران التجيبي، قال: كنا بمدينة الروم فاخرجوا إلينا صفا عظيما من الروم، فخرج إليهم من المسلمين مثلهم او اكثر، وعلى اهل مصر عقبة بن عامر، وعلى الجماعة فضالة بن عبيد، فحمل رجل من المسلمين على صف الروم حتى دخل فيهم، فصاح الناس وقالوا: سبحان الله يلقي بيديه إلى التهلكة، فقام ابو ايوب الانصاري، فقال: " يا ايها الناس، إنكم تتاولون هذه الآية هذا التاويل، وإنما انزلت هذه الآية فينا معشر الانصار لما اعز الله الإسلام وكثر ناصروه، فقال: بعضنا لبعض سرا دون رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن اموالنا قد ضاعت وإن الله قد اعز الإسلام وكثر ناصروه فلو اقمنا في اموالنا فاصلحنا ما ضاع منها، فانزل الله على نبيه صلى الله عليه وسلم يرد علينا ما قلنا: وانفقوا في سبيل الله ولا تلقوا بايديكم إلى التهلكة سورة البقرة آية 195 فكانت التهلكة الإقامة على الاموال وإصلاحها وتركنا الغزو فما زال ابو ايوب شاخصا في سبيل الله حتى دفن بارض الروم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَسْلَمَ أَبِي عِمْرَانَ التُّجِيبِيِّ، قَالَ: كُنَّا بِمَدِينَةِ الرُّومِ فَأَخْرَجُوا إِلَيْنَا صَفًّا عَظِيمًا مِنْ الرُّومِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ مِنَ الْمُسْلِمِينَ مِثْلُهُمْ أَوْ أَكْثَرُ، وَعَلَى أَهْلِ مِصْرَ عُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ، وَعَلَى الْجَمَاعَةِ فَضَالَةُ بْنُ عُبَيْدٍ، فَحَمَلَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى صَفِّ الرُّومِ حَتَّى دَخَلَ فِيهِمْ، فَصَاحَ النَّاسُ وَقَالُوا: سُبْحَانَ اللَّهِ يُلْقِي بِيَدَيْهِ إِلَى التَّهْلُكَةِ، فَقَامَ أَبُو أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ تَتَأَوَّلُونَ هَذِهِ الْآيَةَ هَذَا التَّأْوِيلَ، وَإِنَّمَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ فِينَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ لَمَّا أَعَزَّ اللَّهُ الْإِسْلَامَ وَكَثُرَ نَاصِرُوهُ، فَقَالَ: بَعْضُنَا لِبَعْضٍ سِرًّا دُونَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَمْوَالَنَا قَدْ ضَاعَتْ وَإِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعَزَّ الْإِسْلَامَ وَكَثُرَ نَاصِرُوهُ فَلَوْ أَقَمْنَا فِي أَمْوَالِنَا فَأَصْلَحْنَا مَا ضَاعَ مِنْهَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرُدُّ عَلَيْنَا مَا قُلْنَا: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ سورة البقرة آية 195 فَكَانَتِ التَّهْلُكَةُ الْإِقَامَةَ عَلَى الْأَمْوَالِ وَإِصْلَاحِهَا وَتَرْكَنَا الْغَزْوَ فَمَا زَالَ أَبُو أَيُّوبَ شَاخِصًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ حَتَّى دُفِنَ بِأَرْضِ الرُّومِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
اسلم ابوعمران تجیبی کہتے ہیں کہ ہم روم شہر میں تھے، رومیوں کی ایک بڑی جماعت ہم پر حملہ آور ہونے کے لیے نکلی تو مسلمان بھی انہی جیسی بلکہ ان سے بھی زیادہ تعداد میں ان کے مقابلے میں نکلے، عقبہ بن عامر رضی الله عنہ اہل مصر کے گورنر تھے اور فضالہ بن عبید رضی الله عنہ فوج کے سپہ سالار تھے۔ ایک مسلمان رومی صف پر حملہ آور ہو گیا اور اتنا زبردست حملہ کیا کہ ان کے اندر گھس گیا۔ لوگ چیخ پڑے، کہنے لگے: سبحان اللہ! اللہ پاک و برتر ہے اس نے تو خود ہی اپنے آپ کو ہلاکت میں جھونک دیا ہے۔ (یہ سن کر) ابوایوب انصاری رضی الله عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: لوگو! تم اس آیت کی یہ تاویل کرتے ہو، یہ آیت تو ہم انصار کے بارے میں اتری ہے، جب اللہ نے اسلام کو طاقت بخشی اور اس کے مددگار بڑھ گئے تو ہم میں سے بعض لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چھپا کر رازداری سے آپس میں کہا کہ ہمارے مال برباد ہو گئے ہیں (یعنی ہماری کھیتی باڑیاں تباہ ہو گئی ہیں) اللہ نے اسلام کو قوت و طاقت بخش دی۔ اس کے (حمایتی) و مددگار بڑھ گئے، اب اگر ہم اپنے کاروبار اور کھیتی باڑی کی طرف متوجہ ہو جاتے تو جو نقصان ہو گیا ہے اس کمی کو پورا کر لیتے، چنانچہ ہم میں سے جن لوگوں نے یہ بات کہی تھی اس کے رد میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر یہ آیت نازل فرمائی۔ اللہ نے فرمایا: «وأنفقوا في سبيل الله ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة»”اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو“(البقرہ: ۱۹۵)، تو ہلاکت یہ تھی کہ مالی حالت کو سدھار نے کی جدوجہد میں لگا جائے، اور جہاد کو چھوڑ دیا جائے (یہی وجہ تھی کہ) ابوایوب انصاری رضی الله عنہ ہمیشہ اللہ کی راہ میں جہاد کی ایک علامت و ہدف کی حیثیت اختیار کر گئے تھے یہاں تک کہ سر زمین روم میں مدفون ہوئے۔
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا هشيم، اخبرنا مغيرة، عن مجاهد، قال: قال كعب بن عجرة: " والذي نفسي بيده لفي انزلت هذه الآية وإياي عنى بها فمن كان منكم مريضا او به اذى من راسه ففدية من صيام او صدقة او نسك سورة البقرة آية 196، قال: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم بالحديبية ونحن محرمون، وقد حصرنا المشركون وكانت لي وفرة فجعلت الهوام تساقط على وجهي، فمر بي النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: كان هوام راسك تؤذيك، قال: قلت: نعم، قال: فاحلق، ونزلت هذه الآية "، قال مجاهد: الصيام ثلاثة ايام، والطعام لستة مساكين، والنسك شاة فصاعدا ".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا مُغِيرَةُ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: قَالَ كَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَفِيَّ أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَإِيَّايَ عَنَى بِهَا فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ سورة البقرة آية 196، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحُدَيْبِيَةِ وَنَحْنُ مُحْرِمُونَ، وَقَدْ حَصَرَنَا الْمُشْرِكُونَ وَكَانَتْ لِي وَفْرَةٌ فَجَعَلَتِ الْهَوَامُّ تَسَاقَطُ عَلَى وَجْهِي، فَمَرَّ بِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: كَأَنَّ هَوَامَّ رَأْسِكَ تُؤْذِيكَ، قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَاحْلِقْ، وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ "، قَالَ مُجَاهِدٌ: الصِّيَامُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ، وَالطَّعَامُ لِسِتَّةِ مَسَاكِينَ، وَالنُّسُكُ شَاةٌ فَصَاعِدًا ".
مجاہد کہتے ہیں کہ کعب بن عجرہ رضی الله عنہ نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ آیت: «فمن كان منكم مريضا أو به أذى من رأسه ففدية من صيام أو صدقة أو نسك»”البتہ تم میں سے جو بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو (جس کی وجہ سے سر منڈا لے) تو اس پر فدیہ ہے، خواہ روزے رکھ لے، خواہ صدقہ دے، خواہ قربانی کرے“(البقرہ: ۱۹۶)، میرے بارے میں اتری ہم حدیبیہ میں تھے، احرام باندھے ہوئے تھے، مشرکوں نے ہمیں روک رکھا تھا، میرے بال کانوں کے لو کے برابر تھے، سر کے جوئیں چہرے پر گرنے لگیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہمارے پاس سے ہوا (ہمیں دیکھ کر) آپ نے فرمایا: ”لگتا ہے تمہارے سر کی جوئیں تمہیں تکلیف پہنچا رہی ہیں؟“ میں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: ”سر لو مونڈ ڈالو“، پھر یہ آیت (مذکورہ) اتری۔ مجاہد کہتے ہیں: روزے تین دن ہیں، کھانا چھ مسکینوں ۱؎ کو کھلانا ہے۔ اور قربانی (کم از کم) ایک بکری، اور اس سے زیادہ بھی ہے۔
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا إسماعيل بن إبراهيم، عن ايوب، عن مجاهد، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن كعب بن عجرة، قال: " اتى علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا اوقد تحت قدر والقمل يتناثر على جبهتي، او قال: حاجبي، فقال: اتؤذيك هوام راسك، قال: قلت: نعم، قال: فاحلق راسك وانسك نسيكة، او صم ثلاثة ايام، او اطعم ستة مساكين، قال ايوب: لا ادري بايتهن بدا "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، قَالَ: " أَتَى عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أُوقِدُ تَحْتَ قِدْرٍ وَالْقَمْلُ يَتَنَاثَرُ عَلَى جَبْهَتِي، أَوْ قَالَ: حَاجِبَيَّ، فَقَالَ: أَتُؤْذِيكَ هَوَامُّ رَأْسِكَ، قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَاحْلِقْ رَأْسَكَ وَانْسُكْ نَسِيكَةً، أَوْ صُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، أَوْ أَطْعِمْ سِتَّةَ مَسَاكِينَ، قَالَ أَيُّوبُ: لَا أَدْرِي بِأَيَّتِهِنَّ بَدَأَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
کعب بن عجرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے۔ اس وقت میں ایک ہانڈی کے نیچے آگ جلا رہا تھا اور جوئیں میری پیشانی یا بھوؤں پر بکھر رہی تھیں، آپ نے فرمایا: ”کیا تمہارے سر کی جوئیں تمہیں تکلیف پہنچا رہی ہیں؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: ”اپنا سر مونڈ ڈالو اور بدلہ میں قربانی کر دو، یا تین دن روزہ رکھ لو، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو“۔ ایوب (راوی) کہتے ہیں: مجھے یاد نہیں رہا کہ (میرے استاذ نے) کون سی چیز پہلے بتائی۔
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن سفيان الثوري، عن بكير بن عطاء، عن عبد الرحمن بن يعمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الحج عرفات الحج عرفات الحج عرفات، ايام منى ثلاث، فمن تعجل في يومين فلا إثم عليه ومن تاخر فلا إثم عليه سورة البقرة آية 203، ومن ادرك عرفة قبل ان يطلع الفجر فقد ادرك الحج "، قال ابن ابي عمر، قال سفيان بن عيينة: وهذا اجود حديث رواه 63 الثوري، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، ورواه شعبة، عن بكير بن عطاء، ولا نعرفه إلا من حديث بكير بن عطاء.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْحَجُّ عَرَفَاتٌ الْحَجُّ عَرَفَاتٌ الْحَجُّ عَرَفَاتٌ، أَيَّامُ مِنًى ثَلَاثٌ، فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ سورة البقرة آية 203، وَمَنْ أَدْرَكَ عَرَفَةَ قَبْلَ أَنْ يَطْلُعَ الْفَجْرُ فَقَدْ أَدْرَكَ الْحَجَّ "، قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ، قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ: وَهَذَا أَجْوَدُ حَدِيثٍ رَوَاهُ 63 الثَّوْرِيُّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَاهُ شُعْبَةُ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَطَاءٍ، وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ بُكَيْرِ بْنِ عَطَاءٍ.
عبدالرحمٰن بن یعمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حج عرفات کی حاضری ہے، حج عرفات کی حاضری ہے۔ حج عرفات کی حاضری ہے، منیٰ (میں قیام) کے دن تین ہیں۔ مگر جو جلدی کر کے دو دنوں ہی میں واپس ہو جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ اور جو تین دن پورے کر کے گیا اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ۲؎ اور جو طلوع فجر سے پہلے عرفہ پہنچ گیا، اس نے حج کو پا لیا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابن ابی عمر کہتے ہیں: سفیان بن عیینہ نے کہا: یہ ثوری کی سب سے عمدہ حدیث ہے، جسے انہوں نے روایت کی ہے، ۳- اسے شعبہ نے بھی بکیر بن عطاء سے روایت کیا ہے، ۴- اس حدیث کو ہم صرف بکیر بن عطاء کی روایت ہی سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 889 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس میں ارشاد باری تعالیٰ: «واذكروا الله في أيام معدودات فمن تعجل في يومين فلا إثم عليه» کی طرف اشارہ ہے (البقرہ: ۲۰۳)۔
۲؎: یعنی: بارہ ذی الحجہ ہی کو رمی جمار کر کے واپس ہو جائے یا تین دن مکمل قیام کر کے تیرہ ذی الحجہ کو جمرات کی رمی (کنکری مار) کر کے واپس ہو جائے حاجی کو اختیار ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن ابن جريج، عن ابن ابي مليكة، عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ابغض الرجال إلى الله الالد الخصم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَبْغَضُ الرِّجَالِ إِلَى اللَّهِ الْأَلَدُّ الْخَصِمُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ قابل نفرت وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ جھگڑالو ہو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ اشارہ ہے ارشاد باری: «ومن الناس من يعجبك قوله في الحياة الدنيا ويشهد الله على ما في قلبه وهو ألد الخصام»(البقرہ: ۲۰۴) کی طرف، یعنی ”لوگوں میں سے بعض آدمی ایسے بھی ہوتے ہیں کہ دنیاوی زندگی میں ان کی بات آپ کو اچھی لگے گی جب کہ اللہ تعالیٰ کو وہ جو اس کے دل میں ہے گواہ بنا رہا ہوتا ہے، حقیقت میں وہ سخت جھگڑالو ہوتا ہے“۔
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثني سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن سلمة، عن ثابت، عن انس، قال: كانت اليهود إذا حاضت امراة منهم لم يؤاكلوها ولم يشاربوها ولم يجامعوها في البيوت، " فسئل النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فانزل الله تعالى ويسالونك عن المحيض قل هو اذى سورة البقرة آية 222 فامرهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يؤاكلوهن ويشاربوهن، وان يكونوا معهن في البيوت، وان يفعلوا كل شيء ما خلا النكاح، فقالت اليهود: ما يريد ان يدع شيئا من امرنا إلا خالفنا فيه، قال: فجاء عباد بن بشر، واسيد بن حضير إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبراه بذلك وقالا: يا رسول الله، افلا ننكحهن في المحيض، فتمعر وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى ظننا انه قد غضب عليهما، فقاما هدية من لبن، فارسل رسول الله صلى الله عليه وسلم في آثارهما فسقاهما فعلمنا انه لم يغضب عليهما "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، حدثنا محمد بن عبد الاعلى، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن حماد بن سلمة، عن ثابت، عن انس، نحوه بمعناه.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَتْ الْيَهُودُ إِذَا حَاضَتِ امْرَأَةٌ مِنْهُمْ لَمْ يُؤَاكِلُوهَا وَلَمْ يُشَارِبُوهَا وَلَمْ يُجَامِعُوهَا فِي الْبُيُوتِ، " فَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى سورة البقرة آية 222 فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُؤَاكِلُوهُنَّ وَيُشَارِبُوهُنَّ، وَأَنْ يَكُونُوا مَعَهُنَّ فِي الْبُيُوتِ، وَأَنْ يَفْعَلُوا كُلَّ شَيْءٍ مَا خَلَا النِّكَاحَ، فَقَالَتْ الْيَهُودُ: مَا يُرِيدُ أَنْ يَدَعَ شَيْئًا مِنْ أَمْرِنَا إِلَّا خَالَفَنَا فِيهِ، قَالَ: فَجَاءَ عَبَّادُ بْنُ بِشْرٍ، وَأُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَاهُ بِذَلِكَ وَقَالَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا نَنْكِحُهُنَّ فِي الْمَحِيضِ، فَتَمَعَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ قَدْ غَضِبَ عَلَيْهِمَا، فَقَامَا هَدِيَّةٌ مِنْ لَبَنٍ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي آَثَارِهِمَا فَسَقَاهُمَا فَعَلِمْنَا أَنَّهُ لَمْ يَغْضَبْ عَلَيْهِمَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ یہودیوں کے یہاں جب ان کی کوئی عورت حائضہ ہوتی تھی تو وہ اسے اپنے ساتھ نہ کھلاتے تھے نہ پلاتے تھے۔ اور نہ ہی اسے اپنے ساتھ گھر میں رہنے دیتے تھے، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے آیت: «ويسألونك عن المحيض قل هو أذى»۱؎ نازل فرمائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ انہیں اپنے ساتھ کھلائیں پلائیں اور ان کے ساتھ گھروں میں رہیں۔ اور ان کے ساتھ جماع کے سوا (بوس و کنار وغیرہ) سب کچھ کریں، یہودیوں نے کہا: یہ شخص ہمارا کوئی کام نہیں چھوڑتا جس میں ہماری مخالفت نہ کرتا ہو، عباد بن بشیر اور اسید بن حضیر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ کو یہودیوں کی یہ بات بتائی اور کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم ان سے حالت حیض میں جماع (بھی) نہ کریں؟ یہ سن کر آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا یہاں تک کہ ہم نے سمجھ لیا کہ آپ ان دونوں سے سخت ناراض ہو گئے ہیں۔ وہ اٹھ کر (اپنے گھر چلے) ان کے نکلتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دودھ کا ہدیہ آ گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (انہیں بلانے کے لیے) ان کے پیچھے آدمی بھیجا (وہ آ گئے) تو آپ نے ان دونوں کو دودھ پلایا، جس سے انہوں نے جانا کہ آپ ان دونوں سے غصہ نہیں ہیں۔
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر حدثنا سفيان عن ابن المنكدر سمع جابرا يقول كانت اليهود تقول من اتى امراته في قبلها من دبرها كان الولد احول فنزلت (نساؤكم حرث لكم فاتوا حرثكم انى شئتم) قال ابو عيسى هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حدثنا ابن أبي عمر حدثنا سفيان عن ابن المنكدر سمع جابرا يقول كانت اليهود تقول من أتى امرأته في قبلها من دبرها كان الولد أحول فنزلت (نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم) قال أبو عيسى هذا حديث حسن صحيح.
انس رضی الله عنہ سے اس سند سے بھی اسی کے ہم معنی روایت ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن ابن المنكدر، سمع جابرا، يقول: " كانت اليهود، تقول: من اتى امراته في قبلها من دبرها كان الولد احول، فنزلت نساؤكم حرث لكم فاتوا حرثكم انى شئتم سورة البقرة آية 223 "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، سَمِعَ جَابِرًا، يَقُولُ: " كَانَتْ الْيَهُودُ، تَقُولُ: مَنْ أَتَى امْرَأَتَهُ فِي قُبُلِهَا مِنْ دُبُرِهَا كَانَ الْوَلَدُ أَحْوَلَ، فَنَزَلَتْ نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ سورة البقرة آية 223 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ یہود کہتے تھے کہ جو اپنی بیوی سے پیچھے کی طرف سے آگے کی شرمگاہ میں (جماع کرے) تو بھینگا لڑکا پیدا ہو گا، اس پر آیت: «نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم»۱؎ نازل ہوئی۔
وضاحت: ۱؎: ”تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں، اپنی کھیتوں میں جس طرح چاہو آؤ“(البقرہ: ۲۲۳)، یعنی: چاہے آگے کی طرف سے آگے میں دخول یا پیچھے کی طرف سے آگے میں دخول کرو تمہارے لیے سب طریقے ہیں، بس احتیاط یہ رہے کہ پیچھے میں دخول نہ کرو، ورنہ یہ چیز لعنت الٰہی کا سبب ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا سفيان، عن ابن خثيم، عن ابن سابط، عن حفصة بنت عبد الرحمن، عن ام سلمة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، في قوله: " نساؤكم حرث لكم فاتوا حرثكم انى شئتم سورة البقرة آية 223 يعني صماما واحدا "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وابن خثيم هو عبد الله بن عثمان بن خثيم، وابن سابط هو عبد الرحمن بن عبد الله بن سابط الجمحي المكي، وحفصة هي بنت عبد الرحمن بن ابي بكر الصديق، ويروى " في سمام واحد ".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ خُثَيْمٍ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي قَوْلِهِ: " نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ سورة البقرة آية 223 يَعْنِي صِمَامًا وَاحِدًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَابْنُ خُثَيْمٍ هُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، وَابْنُ سَابِطٍ هُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَابِطٍ الْجُمَحِيُّ الْمَكِّيُّ، وَحَفْصَةُ هِيَ بِنْتُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، وَيُرْوَى " فِي سِمَامٍ وَاحِدٍ ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کریمہ: «نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم» کی تفسیر میں فرمایا: اس سے مراد ایک سوراخ (یعنی قبل اگلی شرمگاہ) میں دخول ہے۔
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا الحسن بن موسى، حدثنا يعقوب بن عبد الله الاشعري، عن جعفر بن ابي المغيرة، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: جاء عمر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، هلكت، قال: " وما اهلكك؟ " قال: حولت رحلي الليلة، قال: فلم يرد عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا، قال: فانزل الله على رسول الله صلى الله عليه وسلم هذه الآية: نساؤكم حرث لكم فاتوا حرثكم انى شئتم سورة البقرة آية 223 اقبل وادبر واتق الدبر والحيضة "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، ويعقوب بن عبد الله الاشعري هو يعقوب القمي.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَشْعَرِيُّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي الْمُغِيرَةِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: جَاءَ عُمَرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلَكْتُ، قَالَ: " وَمَا أَهْلَكَكَ؟ " قَالَ: حَوَّلْتُ رَحْلِي اللَّيْلَةَ، قَالَ: فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، قَالَ: فَأَنْزَلَ اللهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الْآيَةَ: نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ سورة البقرة آية 223 أَقْبِلْ وَأَدْبِرْ وَاتَّقِ الدُّبُرَ وَالْحَيْضَةَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَيَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَشْعَرِيُّ هُوَ يَعْقُوبُ الْقُمِّيُّ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی الله عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں تو ہلاک ہو گیا، آپ نے فرمایا: ”کس چیز نے تمہیں ہلاک کر دیا؟“ کہا: رات میں نے سواری تبدیل کر دی (یعنی میں نے بیوی سے آگے کے بجائے پیچھے کی طرف سے صحبت کر لی) ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر) انہیں کوئی جواب نہ دیا، تو آپ پر یہ آیت: «نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم» نازل ہوئی، بیوی سے آگے سے صحبت کرو چاہے پیچھے کی طرف سے کرو، مگر دبر سے اور حیض سے بچو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 5469)، وانظر مسند احمد (1/297) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا الهاشم بن القاسم، عن المبارك بن فضالة، عن الحسن، عن معقل بن يسار، " انه زوج اخته رجلا من المسلمين على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فكانت عنده ما كانت ثم طلقها تطليقة لم يراجعها حتى انقضت العدة، فهويها وهويته ثم خطبها مع الخطاب، فقال له: يا لكع اكرمتك بها وزوجتكها فطلقتها والله لا ترجع إليك ابدا آخر ما عليك، قال: فعلم الله حاجته إليها وحاجتها إلى بعلها، فانزل الله تبارك وتعالى: وإذا طلقتم النساء فبلغن اجلهن إلى قوله: وانتم لا تعلمون سورة البقرة آية 232، فلما سمعها معقل قال: سمعا لربي وطاعة، ثم دعاه، فقال: ازوجك واكرمك "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روي من غير وجه عن الحسن وهو عن الحسن غريب، وفي هذا الحديث دلالة على انه لا يجوز النكاح بغير ولي لان اخت معقل بن يسار كانت ثيبا فلو كان الامر إليها دون وليها لزوجت نفسها ولم تحتج إلى وليها معقل بن يسار، وإنما خاطب الله في هذه الآية الاولياء، فقال: فلا تعضلوهن ان ينكحن ازواجهن سورة البقرة آية 232 ففي هذه الآية دلالة على ان الامر إلى الاولياء في التزويج مع رضاهن.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْهَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنِ الْمُبَارَكِ بْنِ فَضَالَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، " أَنَّهُ زَوَّجَ أُخْتَهُ رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَانَتْ عِنْدَهُ مَا كَانَتْ ثُمَّ طَلَّقَهَا تَطْلِيقَةً لَمْ يُرَاجِعْهَا حَتَّى انْقَضَتِ الْعِدَّةُ، فَهَوِيَهَا وَهَوِيَتْهُ ثُمَّ خَطَبَهَا مَعَ الْخُطَّابِ، فَقَالَ لَهُ: يَا لُكَعُ أَكْرَمْتُكَ بِهَا وَزَوَّجْتُكَهَا فَطَلَّقْتَهَا وَاللَّهِ لَا تَرْجِعُ إِلَيْكَ أَبَدًا آخِرُ مَا عَلَيْكَ، قَالَ: فَعَلِمَ اللَّهُ حَاجَتَهُ إِلَيْهَا وَحَاجَتَهَا إِلَى بَعْلِهَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ إِلَى قَوْلِهِ: وَأَنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ سورة البقرة آية 232، فَلَمَّا سَمِعَهَا مَعْقِلٌ قَالَ: سَمْعًا لِرَبِّي وَطَاعَةً، ثُمَّ دَعَاهُ، فَقَالَ: أُزَوِّجُكَ وَأُكْرِمُكَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنِ الْحَسَنِ وَهُوَ عَنْ الْحَسَنِ غَرِيبٌ، وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّهُ لَا يَجُوزُ النِّكَاحُ بِغَيْرِ وَلِيٍّ لِأَنَّ أُخْتَ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ كَانَتْ ثَيِّبًا فَلَوْ كَانَ الْأَمْرُ إِلَيْهَا دُونَ وَلِيِّهَا لَزَوَّجَتْ نَفْسَهَا وَلَمْ تَحْتَجْ إِلَى وَلِيِّهَا مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، وَإِنَّمَا خَاطَبَ اللَّهُ فِي هَذِهِ الْآيَةِ الْأَوْلِيَاءَ، فَقَالَ: فَلا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ سورة البقرة آية 232 فَفِي هَذِهِ الْآيَةِ دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّ الْأَمْرَ إِلَى الْأَوْلِيَاءِ فِي التَّزْوِيجِ مَعَ رِضَاهُنَّ.
معقل بن یسار رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم کے زمانے میں اپنی بہن کی شادی ایک مسلمان شخص سے کر دی۔ وہ اس کے یہاں کچھ عرصے تک رہیں، پھر اس نے انہیں ایسی طلاق دی کہ اس کے بعد ان سے رجوع نہ کیا یہاں تک کہ عدت کی مدت ختم ہو گئی۔ پھر دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کی خواہش و چاہت پیدا ہوئی اور (دوسرے) پیغام نکاح دینے والوں کے ساتھ اس نے بھی پیغام نکاح دیا۔ معقل رضی الله عنہ نے اس سے کہا: بیوقوف! میں نے تمہاری شادی اس سے کر کے تیری عزت افزائی کی تھی پھر بھی تو اسے طلاق دے بیٹھا، قسم اللہ کی! اب وہ تمہاری طرف زندگی بھر کبھی بھی لوٹ نہیں سکتی، اور اللہ معلوم تھا کہ اس شخص کو اس عورت کی حاجت و خواہش ہے اور اس عورت کو اس شخص کی حاجت و چاہت ہے۔ تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیت: «وإذا طلقتم النساء فبلغن أجلهن» سے «وأنتم لا تعلمون»۱؎ تک نازل فرمائی۔ جب معقل رضی الله عنہ نے یہ آیت سنی تو کہا: اب اپنے رب کی بات سنتا ہوں اور اطاعت کرتا ہوں (یہ کہہ کر) بلایا اور کہا: میں تمہاری شادی (دوبارہ) کیے دیتا ہوں اور تجھے عزت بخشتا ہوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ کئی سندوں سے حسن بصری سے مروی ہے۔ حسن بصری کے واسطہ سے یہ غریب ہے، ۳- اس حدیث میں اس بات کا ثبوت ہے کہ بغیر ولی کے نکاح جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ معقل بن یسار کی بہن ثیبہ تھیں۔ اگر ولی کی بجائے معاملہ ان کے ہاتھ میں ہوتا تو وہ اپنی شادی آپ کر سکتی تھیں اور وہ اپنے ولی معقل بن یسار کی محتاج نہ ہوتیں۔ آیت میں اللہ تعالیٰ نے اولیاء کو خطاب کیا ہے اور کہا ہے کہ انہیں اپنے (سابق) شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو۔ تو اس آیت میں اس بات کا ثبوت ہے کہ نکاح کا معاملہ عورتوں کی رضا مندی کے ساتھ اولیاء کے ہاتھ میں ہے۔
وضاحت: ۱؎: ”اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو انہیں ان کے سابقہ شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب کہ وہ آپس میں دستور کے مطابق رضامند ہوں، یہ نصیحت انہیں کی جاتی ہے جنہیں تم میں سے اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر یقین و ایمان ہو، یہ حکم تمہارے لیے بہت پاکیزہ اور ستھرا ہے، اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے“(البقرہ: ۲۳۲)۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (1843)، صحيح أبي داود (1820)
(مرفوع) حدثنا قتيبة، عن مالك بن انس، قال: ح وحدثنا الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك، عن زيد بن اسلم، عن القعقاع بن حكيم، عن ابي يونس مولى عائشة، قال: امرتني عائشة رضي الله عنها، ان اكتب لها مصحفا، فقالت: " إذا بلغت هذه الآية فآذني حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى سورة البقرة آية 238 فلما بلغتها آذنتها، فاملت علي: حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين، وقالت: سمعتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم "، وفي الباب، عن حفصة، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، قَالَ: ح وَحَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي يُونُسَ مَوْلَى عَائِشَةَ، قَالَ: أَمَرَتْنِي عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنْ أَكْتُبَ لَهَا مُصْحَفًا، فَقَالَتْ: " إِذَا بَلَغْتَ هَذِهِ الْآيَةَ فَآذِنِّي حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى سورة البقرة آية 238 فَلَمَّا بَلَغْتُهَا آذَنْتُهَا، فَأَمْلَتْ عَلَيَّ: حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَصَلَاةِ الْعَصْرِ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ، وَقَالَتْ: سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، وَفِي الْبَابِ، عَنْ حَفْصَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کے غلام ابو یونس کہتے ہیں کہ مجھے عائشہ رضی الله عنہا نے حکم دیا کہ میں ان کے لیے ایک مصحف لکھ کر تیار کر دوں۔ اور ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب تم آیت: «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى»۱؎ پر پہنچو تو مجھے خبر دو، چنانچہ جب میں اس آیت پر پہنچا اور میں نے انہیں خبر دی، تو انہوں نے مجھے بول کر لکھایا «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين»۱؎”نمازوں پر مداومت کرو اور درمیانی نماز کا خاص خیال کرو، اور نماز عصر کا بھی خاص دھیان رکھو اور اللہ کے آگے خضوع و خشوع سے کھڑے ہوا کرو“۔ اور انہوں نے کہا کہ میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہی سنا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں حفصہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 36 (629)، سنن ابی داود/ الصلاة 5 (410)، سنن النسائی/الصلاة 14 (473) (تحفة الأشراف: 17809)، و مسند احمد (6/73) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: نمازوں کی حفاظت کرو، بالخصوص درمیان والی نماز کی اور اللہ تعالیٰ کے لیے با ادب کھڑے رہا کرو (البقرہ: ۲۳۸)
۲؎: یہ قراءت شاذ ہے اس لیے اس کا اعتبار نہیں ہو گا، یا یہاں ”واو“ عطفِ مغایرت کے لیے نہیں ہے بلکہ عطفِ ”تفسیری“ ہے تب اگلی حدیث کے مطابق ہو جائے گا کہ «الصلاة الوسطى» سے مراد عصر کی نماز ہے۔
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا عبدة، عن سعيد بن ابي عروبة، عن قتادة، عن ابي حسان الاعرج، عن عبيدة السلماني، ان عليا حدثه، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال يوم الاحزاب: " اللهم املا قبورهم وبيوتهم نارا كما شغلونا عن صلاة الوسطى حتى غابت الشمس "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، قد روي من غير وجه عن علي، وابو حسان الاعرج اسمه مسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ سَعِيدٍ بِنْ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي حَسَّانَ الْأَعْرَجِ، عَنْ عَبِيدَةَ السَّلْمَانِيِّ، أَنَّ عَلِيًّا حَدَّثَهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ يَوْمَ الْأَحْزَابِ: " اللَّهُمَّ امْلَأْ قُبُورَهُمْ وَبُيُوتَهُمْ نَارًا كَمَا شَغَلُونَا عَنْ صَلَاةِ الْوُسْطَى حَتَّى غَابَتِ الشَّمْسُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ عَلِيٍّ، وَأَبُو حَسَّانَ الْأَعْرَجُ اسْمُهُ مُسْلِمٌ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احزاب کے دن فرمایا: ”اے اللہ! ان کفار و مشرکین کی قبریں اور ان کے گھر آگ سے بھر دے جیسے کہ انہوں نے ہمیں درمیانی نماز (نماز عصر) پڑھنے سے روکے رکھا، یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث علی رضی الله عنہ سے متعدد سندوں سے مروی ہے۔
زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نماز کے اندر باتیں کیا کرتے تھے، تو جب آیت «وقوموا لله قانتين»(البقرہ: ۲۳۸)، نازل ہوئی تو ہمیں چپ رہنے کا حکم ملا۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، حدثنا إسماعيل بن ابي خالد نحوه، وزاد فيه " ونهينا عن الكلام "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وابو عمرو الشيباني اسمه سعد بن إياس.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ نَحْوَهُ، وَزَادَ فِيهِ " وَنُهِينَا عَنِ الْكَلَامِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو عَمْرٍو الشَّيْبَانِيُّ اسْمُهُ سَعْدُ بْنُ إِيَاسٍ.
اس سند سے بھی کہتے ہیں کہ اسماعیل بن ابی خالد نے اسی طرح بیان کیا اور انہوں نے اس میں «نهينا عن الكلام» کا اضافہ کیا (ہم بات چیت سے روک دیئے گئے)۔
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل، عن السدي، عن ابي مالك، عن البراء، ولا تيمموا الخبيث منه تنفقون سورة البقرة آية 267، قال: نزلت فينا معشر الانصار كنا اصحاب نخل فكان الرجل ياتي من نخله على قدر كثرته وقلته، وكان الرجل ياتي بالقنو والقنوين فيعلقه في المسجد، وكان اهل الصفة ليس لهم طعام، فكان احدهم إذا جاع اتى القنو فضربه بعصاه فيسقط من البسر والتمر فياكل، وكان ناس ممن لا يرغب في الخير ياتي الرجل بالقنو فيه الشيص والحشف وبالقنو قد انكسر فيعلقه، فانزل الله تبارك تعالى: يايها الذين آمنوا انفقوا من طيبات ما كسبتم ومما اخرجنا لكم من الارض ولا تيمموا الخبيث منه تنفقون ولستم بآخذيه إلا ان تغمضوا فيه سورة البقرة آية 267، قال: لو ان احدكم اهدي إليه مثل ما اعطاه لم ياخذه إلا على إغماض او حياء، قال: فكنا بعد ذلك ياتي احدنا بصالح ما عنده "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب صحيح، وابو مالك هو الغفاري، ويقال اسمه غزوان، وقد روى سفيان الثوري، عن السدي شيئا من هذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ، عَنْ الْبَرَاءِ، وَلا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ سورة البقرة آية 267، قَالَ: نَزَلَتْ فِينَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ كُنَّا أَصْحَابَ نَخْلٍ فَكَانَ الرَّجُلُ يَأْتِي مِنْ نَخْلِهِ عَلَى قَدْرِ كَثْرَتِهِ وَقِلَّتِهِ، وَكَانَ الرَّجُلُ يَأْتِي بِالْقِنْوِ وَالْقِنْوَيْنِ فَيُعَلِّقُهُ فِي الْمَسْجِدِ، وَكَانَ أَهْلُ الصُّفَّة لَيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ، فَكَانَ أَحَدُهُمْ إِذَا جَاعَ أَتَى الْقِنْوَ فَضَرَبَهُ بِعَصَاهُ فَيَسْقُطُ مِنَ الْبُسْرِ وَالتَّمْرِ فَيَأْكُلُ، وَكَانَ نَاسٌ مِمَّنْ لَا يَرْغَبُ فِي الْخَيْرِ يَأْتِي الرَّجُلُ بِالْقِنْوِ فِيهِ الشِّيصُ وَالْحَشَفُ وَبِالْقِنْوِ قَدِ انْكَسَرَ فَيُعَلِّقُهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ تَعَالَى: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الأَرْضِ وَلا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِيهِ إِلا أَنْ تُغْمِضُوا فِيهِ سورة البقرة آية 267، قَالَ: لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أُهْدِيَ إِلَيْهِ مِثْلُ مَا أَعْطَاهُ لَمْ يَأْخُذْهُ إِلَّا عَلَى إِغْمَاضٍ أَوْ حَيَاءٍ، قَالَ: فَكُنَّا بَعْدَ ذَلِكَ يَأْتِي أَحَدُنَا بِصَالِحِ مَا عِنْدَهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو مَالِكٍ هُوَ الْغِفَارِيُّ، وَيُقَالُ اسْمُهُ غَزْوَانُ، وَقَدْ رَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ السُّدِّيِّ شَيْئًا مِنْ هَذَا.
براء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ آیت «ولا تيمموا الخبيث منه تنفقون»۱؎ ہم گروہ انصار کے بارے میں اتری ہے۔ ہم کھجور والے لوگ تھے، ہم میں سے کوئی آدمی اپنی کھجوروں کی کم و بیش پیداوار و مقدار کے اعتبار سے زیادہ یا تھوڑا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا۔ بعض لوگ کھجور کے ایک دو گچھے لے کر آتے، اور انہیں مسجد میں لٹکا دیتے، اہل صفہ کے کھانے کا کوئی بندوبست نہیں تھا تو ان میں سے جب کسی کو بھوک لگتی تو وہ گچھے کے پاس آتا اور اسے چھڑی سے جھاڑتا کچی اور پکی کھجوریں گرتیں پھر وہ انہیں کھا لیتا۔ کچھ لوگ ایسے تھے جنہیں خیر سے رغبت و دلچسپی نہ تھی، وہ ایسے گچھے لاتے جس میں خراب، ردی اور گلی سڑی کھجوریں ہوتیں اور بعض گچھے ٹوٹے بھی ہوتے، وہ انہیں لٹکا دیتے۔ اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آیت «يا أيها الذين آمنوا أنفقوا من طيبات ما كسبتم ومما أخرجنا لكم من الأرض ولا تيمموا الخبيث منه تنفقون ولستم بآخذيه إلا أن تغمضوا فيه»۲؎ نازل فرمائی۔ لوگوں نے کہا کہ اگر تم میں سے کسی کو ویسا ہی ہدیہ دیا جائے جیسا دین سے بیزار لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تو وہ اسے نہیں لے گا اور لے گا بھی تو منہ موڑ کر، اس کے بعد ہم میں سے ہر شخص اپنے پاس موجود عمدہ چیز میں سے لانے لگا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے، ۲- سفیان ثوری نے سدی سے اس روایت میں سے کچھ روایت کی ہے۔
وضاحت: ۱؎: ”ان میں سے بری چیزوں کے خرچ کرنے کا قصد نہ کرنا“(البقرہ: ۲۶۷)۔
۲؎: ”اے ایمان والو اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اور زمین میں سے تمہارے لیے ہماری نکالی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرو، ان میں سے بری چیزوں کے خرچ کرنے کا قصدہ نہ کرنا جسے تم خود لینے والے نہیں ہو، الاّ یہ کہ اگر آنکھیں بند کر لو تو“(البقرہ: ۲۶۷)۔
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو الاحوص، عن عطاء بن السائب، عن مرة الهمداني، عن عبد الله بن مسعود، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن للشيطان لمة بابن آدم وللملك لمة، فاما لمة الشيطان فإيعاد بالشر وتكذيب بالحق، واما لمة الملك فإيعاد بالخير وتصديق بالحق، فمن وجد ذلك فليعلم انه من الله فليحمد الله، ومن وجد الاخرى فليتعوذ بالله من الشيطان الرجيم، ثم قرا الشيطان يعدكم الفقر ويامركم بالفحشاء سورة البقرة آية 268 "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وهو حديث ابي الاحوص لا نعلمه مرفوعا إلا من حديث ابي الاحوص.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ لِلشَّيْطَانِ لَمَّةً بِابْنِ آدَمَ وَلِلْمَلَكِ لَمَّةً، فَأَمَّا لَمَّةُ الشَّيْطَانِ فَإِيعَادٌ بِالشَّرِّ وَتَكْذِيبٌ بِالْحَقِّ، وَأَمَّا لَمَّةُ الْمَلَكِ فَإِيعَادٌ بِالْخَيْرِ وَتَصْدِيقٌ بِالْحَقِّ، فَمَنْ وَجَدَ ذَلِكَ فَلْيَعْلَمْ أَنَّهُ مِنَ اللَّهِ فَلْيَحْمَدِ اللَّهَ، وَمَنْ وَجَدَ الْأُخْرَى فَلْيَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ، ثُمَّ قَرَأَ الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ سورة البقرة آية 268 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَهُوَ حَدِيثُ أَبِي الْأَحْوَصِ لَا نَعْلَمُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي الْأَحْوَصِ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی پر شیطان کا اثر (وسوسہ) ہوتا ہے اور فرشتے کا بھی اثر (الہام) ہوتا ہے۔ شیطان کا اثر یہ ہے کہ انسان سے برائی کا وعدہ کرتا ہے، اور حق کو جھٹلاتا ہے۔ اور فرشتے کا اثر یہ ہے کہ وہ خیر کا وعدہ کرتا ہے، اور حق کی تصدیق کرتا ہے۔ تو جو شخص یہ پائے ۱؎ اس پر اللہ کا شکر ادا کرے۔ اور جو دوسرا اثر پائے یعنی شیطان کا تو شیطان سے اللہ کی پناہ حاصل کرے۔ پھر آپ نے آیت «الشيطان يعدكم الفقر ويأمركم بالفحشاء»۲؎ پڑھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوالاحوص کی یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف ابوالاحوص کی روایت سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 9550) (صحیح) (صحیح موارد الظمآن 38، و 40)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اس کے دل میں نیکی بھلائی کے جذبات جاگیں تو سمجھے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہیں۔
۲؎: ”شیطان تمہیں فقیری سے ڈراتا ہے اور بےحیائی کا حکم دیتا ہے“(البقرہ: ۲۶۸)۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (74) // ضعيف الجامع الصغير (1963) //
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا ابو نعيم، حدثنا فضيل بن مرزوق، عن عدي بن ثابت، عن ابي حازم، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يايها الناس، إن الله طيب لا يقبل إلا طيبا، وإن الله امر المؤمنين بما امر به المرسلين، فقال: يايها الرسل كلوا من الطيبات واعملوا صالحا إني بما تعملون عليم سورة المؤمنون آية 51، وقال: يايها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم سورة البقرة آية 172، قال: وذكر الرجل يطيل السفر اشعث اغبر يمد يده إلى السماء يا رب يا رب ومطعمه حرام ومشربه حرام وملبسه حرام وغذي بالحرام فانى يستجاب لذلك "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وإنما نعرفه من حديث فضيل بن مرزوق، وابو حازم هو الاشجعي اسمه سلمان مولى عزة الاشجعية.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَأَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا، وَإِنَّ اللَّهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ، فَقَالَ: يَأَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ سورة المؤمنون آية 51، وَقَالَ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ سورة البقرة آية 172، قَالَ: وَذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ يَمُدُّ يَدَهُ إِلَى السَّمَاءِ يَا رَبِّ يَا رَبِّ وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ وَغُذِّيَ بِالْحَرَامِ فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَإِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ، وَأَبُو حَازِمٍ هُوَ الْأَشْجَعِيُّ اسْمُهُ سَلْمَانُ مَوْلَى عَزَّةَ الْأَشْجَعِيَّةِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”لوگو! اللہ پاک ہے اور حلال و پاک چیز کو ہی پسند کرتا ہے اور اللہ نے مومنین کو انہیں چیزوں کا حکم دیا ہے جن چیزوں کا حکم اس نے اپنے رسولوں کو دیا ہے۔ اللہ نے فرمایا: «يا أيها الرسل كلوا من الطيبات واعملوا صالحا إني بما تعملون عليم»۱؎ اور اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے «يا أيها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم»۲؎(پھر) آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، پریشان حال اور غبار آلود ہے۔ آسمان کی طرف ہاتھ پھیلا کر دعائیں مانگتا ہے (میرے رب! اے میرے رب!) اور حال یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام کا ہے، اس پینا حرام ہے، اس کا پہننا حرام کا ہے اور اس کی پرورش ہی حرام سے ہوئی ہے۔ پھر اس کی دعا کیوں کر قبول ہو گی“۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف فضیل بن مرزوق کی روایت ہی سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزکاة 20 (1015) (تحفة الأشراف: 13413)، و مسند احمد (2/328)، وسنن الدارمی/الرقاق 9 (2759) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ”اے رسولو! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو، تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے میں بخوبی واقف ہوں“(المومنون: ۵۱)۔
۲؎: ”اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ، پیو“(البقرہ: ۱۷۲)۔
۳؎: معلوم ہوا کہ دعا کی قبولیت کے لیے جہاں بہت ساری شرطیں ہیں، انہی میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ انسان کا ذریعہ معاش حلال ہو، کھانے، پینے، پہننے اور اوڑھنے سے متعلق جو بھی چیزیں ہیں وہ سب حلال طریقے سے حاصل کی جاری ہوں جبھی دعا کے قبول ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔
(موقوف) حدثنا حدثنا عبد بن حميد، حدثنا عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل، عن السدي، قال: حدثني من، سمع عليا، يقول: " لما نزلت هذه الآية وإن تبدوا ما في انفسكم او تخفوه يحاسبكم به الله فيغفر لمن يشاء ويعذب من يشاء سورة البقرة آية 284، احزنتنا، قال: قلنا: يحدث احدنا نفسه فيحاسب به، لا ندري ما يغفر منه ولا ما لا يغفر، فنزلت هذه الآية بعدها فنسختها لا يكلف الله نفسا إلا وسعها لها ما كسبت وعليها ما اكتسبت سورة البقرة آية 286 ".(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنِ السُّدِّيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَنْ، سَمِعَ عَلِيًّا، يَقُولُ: " لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللَّهُ فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ سورة البقرة آية 284، أَحْزَنَتْنَا، قَالَ: قُلْنَا: يُحَدِّثُ أَحَدُنَا نَفْسَهُ فَيُحَاسَبُ بِهِ، لَا نَدْرِي مَا يُغْفَرُ مِنْهُ وَلَا مَا لَا يُغْفَرُ، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ بَعْدَهَا فَنَسَخَتْهَا لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ سورة البقرة آية 286 ".
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت «إن تبدوا ما في أنفسكم أو تخفوه يحاسبكم به الله فيغفر لمن يشاء ويعذب من يشاء»۱؎ نازل ہوئی۔ تو اس نے ہم سب کو فکرو غم میں مبتلا کر دیا۔ ہم نے کہا: ہم میں سے کوئی اپنے دل میں باتیں کرے پھر اس کا حساب لیا جائے۔ ہمیں معلوم نہیں اس میں سے کیا بخشا جائے گا اور کیا نہیں بخشا جائے؟، اس پر یہ آیت نازل ہوئی «لا يكلف الله نفسا إلا وسعها لها ما كسبت وعليها ما اكتسبت»۲؎ اور اس آیت نے اس سے پہلی والی آیت کو منسوخ کر دیا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10336) (ضعیف الإسناد) (سدی اور علی رضی الله عنہ کے درمیان کا راوی مبہم ہے)»
وضاحت: ۱؎: ”تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے اسے تم ظاہر کرو یا چھپاؤ، اللہ تعالیٰ اس کا حساب تم سے لے گا، پھر جسے چاہے بخشے اور جسے چاہے سزا دے“(البقرہ: ۲۸۴)۔
۲؎: ”اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، جو نیکی کرے وہ اس کے لیے اور جو برائی کرے وہ بھی اس پر ہے“(البقرہ: ۲۸۶)۔
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا الحسن بن موسى، وروح بن عبادة، عن حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، عن امية، انها سالت عائشة، عن قول الله تعالى: وإن تبدوا ما في انفسكم او تخفوه يحاسبكم به الله سورة البقرة آية 284 وعن قوله: من يعمل سوءا يجز به سورة النساء آية 123، فقالت: " ما سالني عنها احد منذ سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: هذه معاتبة الله العبد فيما يصيبه من الحمى والنكبة حتى البضاعة يضعها في كم قميصه فيفقدها فيفزع لها حتى إن العبد ليخرج من ذنوبه كما يخرج التبر الاحمر من الكير "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من حديث عائشة لا نعرفه إلا من حديث حماد بن سلمة.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى، وَرَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أُمَيَّةَ، أَنَّهَا سَأَلَتْ عَائِشَةَ، عَنْ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللَّهُ سورة البقرة آية 284 وَعَنْ قَوْلِهِ: مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ سورة النساء آية 123، فَقَالَتْ: " مَا سَأَلَنِي عَنْهَا أَحَدٌ مُنْذُ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: هَذِهِ مُعَاتَبَةُ اللَّهِ الْعَبْدَ فِيمَا يُصِيبُهُ مِنَ الْحُمَّى وَالنَّكْبَةِ حَتَّى الْبِضَاعَةُ يَضَعُهَا فِي كُمِّ قَمِيصِهِ فَيَفْقِدُهَا فَيَفْزَعُ لَهَا حَتَّى إِنَّ الْعَبْدَ لَيَخْرُجُ مِنْ ذُنُوبِهِ كَمَا يَخْرُجُ التِّبْرُ الْأَحْمَرُ مِنَ الْكِيرِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ.
امیہ کہتی ہیں کہ انہوں نے عائشہ رضی الله عنہا سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے قول «إن تبدوا ما في أنفسكم أو تخفوه يحاسبكم به الله»۱؎ اور (دوسرے) قول «من يعمل سوءا يجز به»۲؎ کا مطلب پوچھا، تو انہوں نے کہا: جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا مطلب پوچھا ہے تب سے (تمہارے سوا) کسی نے مجھ سے ان کا مطلب نہیں پوچھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”یہ اللہ کی جانب سے بخار اور مصیبت (وغیرہ) میں مبتلا کر کے بندے کی سرزنش ہے۔ یہاں تک کہ وہ سامان جو وہ اپنی قمیص کی آستین میں رکھ لیتا ہے پھر گم کر دیتا ہے پھر وہ گھبراتا اور اس کے لیے پریشان ہوتا ہے، یہاں تک کہ بندہ اپنے گناہوں سے ویسے ہی پاک و صاف ہو جاتا ہے جیسا کہ سرخ سونا بھٹی سے (صاف ستھرا) نکلتا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 17823) (ضعیف الإسناد) (”علی بن زید بن جدعان“ ضعیف ہیں)»
وضاحت: ۱؎: البقرہ: ۲۸۶۔
۲؎: ”جو برائی کرے گا اس کی سزا پائے گا“(النساء: ۱۲۳)۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد // ضعيف الجامع الصغير (6086)، المشكاة (1557) //
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وكيع، حدثنا سفيان، عن آدم بن سليمان، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: لما نزلت هذه الآية: وإن تبدوا ما في انفسكم او تخفوه يحاسبكم به الله سورة البقرة آية 284، قال: دخل قلوبهم منه شيء لم يدخل من شيء، فقالوا للنبي صلى الله عليه وسلم: فقال: " قولوا: سمعنا واطعنا فالقى الله الإيمان في قلوبهم، فانزل الله تبارك وتعالى: آمن الرسول بما انزل إليه من ربه والمؤمنون سورة البقرة آية 285 لا يكلف الله نفسا إلا وسعها لها ما كسبت وعليها ما اكتسبت ربنا لا تؤاخذنا إن نسينا او اخطانا سورة البقرة آية 286 قال: قد فعلت ربنا ولا تحمل علينا إصرا كما حملته على الذين من قبلنا سورة البقرة آية 286 قال: قد فعلت ربنا ولا تحملنا ما لا طاقة لنا به واعف عنا واغفر لنا وارحمنا سورة البقرة آية 286، قال: قد فعلت "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح وقد روي هذا من غير هذا الوجه عن ابن عباس، وآدم بن سليمان يقال هو والد يحيى بن آدم، وفي الباب، عن ابي هريرة رضي الله عنه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ آدَمَ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ: وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللَّهُ سورة البقرة آية 284، قَالَ: دَخَلَ قُلُوبَهُمْ مِنْهُ شَيْءٌ لَمْ يَدْخُلْ مِنْ شَيْءٍ، فَقَالُوا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَقَالَ: " قُولُوا: سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا فَأَلْقَى اللَّهُ الْإِيمَانَ فِي قُلُوبِهِمْ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ سورة البقرة آية 285 لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا سورة البقرة آية 286 قَالَ: قَدْ فَعَلْتُ رَبَّنَا وَلا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا سورة البقرة آية 286 قَالَ: قَدْ فَعَلْتُ رَبَّنَا وَلا تُحَمِّلْنَا مَا لا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا سورة البقرة آية 286، قَالَ: قَدْ فَعَلْتُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَآدَمُ بْنُ سُلَيْمَانَ يُقَالُ هُوَ وَالِدُ يَحْيَى بْنِ آدَمَ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب یہ آیت «إن تبدوا ما في أنفسكم أو تخفوه يحاسبكم به الله» نازل ہوئی تو لوگوں کے دلوں میں ایسا خوف و خطر پیدا ہوا جو اور کسی چیز سے پیدا نہ ہوا تھا۔ لوگوں نے یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہی تو آپ نے فرمایا: ”(پہلے تو) تم «سمعنا وأطعنا» کہو یعنی ہم نے سنا اور ہم نے بے چون و چرا بات مان لی، (چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کہا) تو اللہ نے ان کے دلوں میں ایمان ڈال دیا۔ اور اس کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں «آمن الرسول بما أنزل إليه من ربه والمؤمنون» سے لے کر آخری آیت «لا يكلف الله نفسا إلا وسعها لها ما كسبت وعليها ما اكتسبت ربنا لا تؤاخذنا إن نسينا أو أخطأنا»، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”میں نے ایسا کر دیا (تمہاری دعا قبول کر لی)“ «ربنا ولا تحمل علينا إصرا كما حملته على الذين من قبلنا»”ہمارے رب! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا“، اللہ نے فرمایا: ”میں نے تمہارا کہا کر دیا“، «ربنا ولا تحملنا ما لا طاقة لنا به واعف عنا واغفر لنا وارحمنا»”اے اللہ! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جس کی طاقت ہم میں نہ ہو اور ہم سے درگزر فرما، اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما“، اللہ نے فرمایا: ”میں نے ایسا کر دیا (یعنی تمہاری دعا قبول کر لی)“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث ابن عباس رضی الله عنہما سے دوسری سند سے بھی مروی ہے، ۳- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔