(مرفوع) حدثنا ابو الاشعث احمد بن المقدام العجلي، حدثنا محمد بن عبد الرحمن الطفاوي، حدثنا هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت: لما نزلت هذه الآية: وانذر عشيرتك الاقربين سورة الشعراء آية 214، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا صفية بنت عبد المطلب، يا فاطمة بنت محمد، يا بني عبد المطلب، إني لا املك لكم من الله شيئا، سلوني من مالي ما شئتم ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وهكذا روى وكيع وغير واحد عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، نحو حديث محمد بن عبد الرحمن الطفاوي، وروى بعضهم عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا، ولم يذكر فيه عن عائشة، وفي الباب، عن علي، وابن عباس.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْعَثِ أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ الْعِجْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطُّفَاوِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ: وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا صَفِيَّةُ بِنْتَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، يَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ، يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، سَلُونِي مِنْ مَالِي مَا شِئْتُمْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهَكَذَا رَوَى وَكِيعٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، نَحْوَ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطُّفَاوِيِّ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ عَائِشَةَ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ عَلِيٍّ، وَابْنِ عَبَّاسٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب یہ آیت «وأنذر عشيرتك الأقربين»”اے نبی! اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ“(الشعراء: ۲۱۴)، نازل ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے صفیہ بنت عبدالمطلب، اے فاطمہ بنت محمد، اے بنی عبدالمطلب: سن لو میں اللہ سے متعلق معاملات میں تمہاری کچھ بھی حمایت، مدد و سفارش نہیں کر سکتا، ہاں (اس دنیا میں) میرے مال میں سے جو چاہو مانگ سکتے ہو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسی طرح روایت کی ہے وکیع اور کئی راویوں نے ہشام بن عروہ سے، ہشام نے اپنے باپ سے اور عروہ نے عائشہ سے محمد بن عبدالرحمٰن طفاوی کی حدیث کی مانند، ۳- اور بعض راویوں نے ہشام بن عروہ سے، ہشام نے اپنے باپ عروہ سے اور عروہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کی ہے اور اس سند میں عائشہ رضی الله عنہا کا ذکر نہیں کیا، ۴- اس باب میں علی اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا زكريا بن عدي، حدثنا عبيد الله بن عمرو الرقي، عن عبد الملك بن عمير، عن موسى بن طلحة، عن ابي هريرة، قال: لما نزلت وانذر عشيرتك الاقربين سورة الشعراء آية 214 جمع رسول الله صلى الله عليه وسلم قريشا فخص وعم، فقال: " يا معشر قريش، انقذوا انفسكم من النار، فإني لا املك لكم من الله ضرا ولا نفعا، يا معشر بني عبد مناف انقذوا انفسكم من النار، فإني لا املك لكم من الله ضرا ولا نفعا، يا معشر بني قصي انقذوا انفسكم من النار، فإني لا املك لكم ضرا ولا نفعا، يا معشر بني عبد المطلب انقذوا انفسكم من النار، فإني لا املك لكم ضرا ولا نفعا، يا فاطمة بنت محمد انقذي نفسك من النار فإني لا املك لك ضرا ولا نفعا إن لك رحما سابلها ببلالها ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه يعرف من حديث موسى بن طلحة.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو الرَّقِّيُّ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214 جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُرَيْشًا فَخَصَّ وَعَمَّ، فَقَالَ: " يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ، فَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللَّهِ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا، يَا مَعْشَرَ بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ، فَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللَّهِ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا، يَا مَعْشَرَ بَنِي قُصَيٍّ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ، فَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا، يَا مَعْشَرَ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ، فَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا، يَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ أَنْقِذِي نَفْسَكِ مِنَ النَّارِ فَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكِ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا إِنَّ لَكِ رَحِمًا سَأَبُلُّهَا بِبَلَالِهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ يُعْرَفُ مِنْ حَدِيثِ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت «وأنذر عشيرتك الأقربين»”اے نبی! اپنے قرابت داروں کو ڈرایئے“ نازل ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص و عام سبھی قریش کو اکٹھا کیا ۱؎، آپ نے انہیں مخاطب کر کے کہا: اے قریش کے لوگو! اپنی جانوں کو آگ سے بچا لو، اس لیے کہ میں تمہیں اللہ کے مقابل میں کوئی نقصان یا کوئی نفع پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اے بنی عبد مناف کے لوگو! اپنے آپ کو جہنم سے بچا لو، کیونکہ میں تمہیں اللہ کے مقابل میں کسی طرح کا نقصان یا نفع پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا، اے بنی قصی کے لوگو! اپنی جانوں کو آگ سے بچا لو۔ کیونکہ میں تمہیں کوئی نقصان یا فائدہ پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اے بنی عبدالمطلب کے لوگو! اپنے آپ کو آگ سے بچا لو، کیونکہ میں تمہیں کسی طرح کا ضرر یا نفع پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا، اے فاطمہ بنت محمد! اپنی جان کو جہنم کی آگ سے بچا لے، کیونکہ میں تجھے کوئی نقصان یا نفع پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا، تم سے میرا رحم (خون) کا رشتہ ہے سو میں احساس کو تازہ رکھوں گا“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: موسیٰ بن طلحہ کی روایت سے یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن ابي زياد، حدثنا ابو زيد، عن عوف، عن قسامة بن زهير، حدثنا الاشعري، قال: لما نزل وانذر عشيرتك الاقربين سورة الشعراء آية 214 وضع رسول الله صلى الله عليه وسلم اصبعيه في اذنيه فرفع من صوته، فقال: " يا بني عبد مناف يا صباحاه ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب من هذا الوجه من حديث ابي موسى، وقد رواه بعضهم، عن عوف، عن قسامة بن زهير، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا، ولم يذكر فيه عن ابي موسى، وهو اصح ذاكرت به محمد بن إسماعيل فلم يعرفه من حديث ابي موسى.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ، حَدَّثَنَا الْأَشْعَرِيُّ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214 وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُصْبُعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ فَرَفَعَ مِنْ صَوْتِهِ، فَقَالَ: " يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ يَا صَبَاحَاهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي مُوسَى، وَقَدْ رَوَاهُ بَعْضُهُمْ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ أَبِي مُوسَى، وَهُوَ أَصَحُّ ذَاكَرْتُ بِهِ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل فَلَمْ يَعْرِفْهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي مُوسَى.
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت: «وأنذر عشيرتك الأقربين» نازل ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیاں کانوں میں (اذان کی طرح) ڈال کر بلند آواز سے پکار کہا: یا بنی عبد مناف! یا صباحاہ! اے عبد مناف کے لوگو! جمع ہو جاؤ (اور سنو اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کرو)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- بعض نے اس حدیث کو عوف سے، اور عوف نے قسامہ بن زہیر کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کیا ہے اور انہوں نے اس میں ابوموسیٰ (اشعری) سے روایت کا ذکر نہیں کیا اور یہی زیادہ صحیح ہے، ۳- میں نے اس کے بارے میں محمد بن اسماعیل بخاری سے مذاکرہ کیا تو انہوں نے ابوموسیٰ اشعری کے واسطہ سے اس حدیث کی معرفت سے اپنی لاعلمی ظاہر کی۔