(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن عبد الملك بن ميسرة، قال: سمعت طاوسا، قال: سئل ابن عباس عن هذه الآية: قل لا اسالكم عليه اجرا إلا المودة في القربى سورة الشورى آية 23، فقال سعيد بن جبير: قربى آل محمد صلى الله عليه وسلم، فقال ابن عباس: اعلمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يكن بطن من قريش إلا كان له فيهم قرابة، فقال: " إلا ان تصلوا ما بيني وبينكم من القرابة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روي من غير وجه عن ابن عباس.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ، قَال: سَمِعْتُ طَاوُسًا، قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ: قُلْ لا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى سورة الشورى آية 23، فَقَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ: قُرْبَى آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَعَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ بَطْنٌ مِنْ قُرَيْشٍ إِلَّا كَانَ لَهُ فِيهِمْ قَرَابَةٌ، فَقَالَ: " إِلَّا أَنْ تَصِلُوا مَا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ مِنَ الْقَرَابَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
طاؤس کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے اس آیت «قل لا أسألكم عليه أجرا إلا المودة في القربى»”اے نبی! کہہ دو میں تم سے (اپنی دعوت و تبلیغ کا) کوئی اجر نہیں مانگتا، ہاں چاہتا ہوں کہ قرابت داروں میں الفت و محبت پیدا ہو“(الشوریٰ: ۲۳)، کے بارے میں پوچھا گیا، اس پر سعید بن جبیر نے کہا: «قربیٰ» سے مراد آل محمد ہیں، ابن عباس نے کہا: (تم نے رشتہ داری کی تشریح میں جلد بازی کی ہے) قریش کی کوئی شاخ ایسی نہیں تھی جس میں آپ کی رشتہ داری نہ ہو، (آیت کا مفہوم ہے) اللہ نے کہا: میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا (بس میں تو یہ چاہتا ہوں کہ) ہمارے اور تمہارے درمیان جو رشتہ داری ہے اس کا پاس و لحاظ رکھو اور ایک دوسرے سے حسن سلوک کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث کئی سندوں سے ابن عباس رضی الله عنہما سے آئی ہے۔
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا عمرو بن عاصم، حدثنا عبيد الله بن الوازع، قال: حدثني شيخ من بني مرة، قال: قدمت الكوفة فاخبرت، عن بلال بن ابي بردة، فقلت: إن فيه لمعتبرا، فاتيته وهو محبوس في داره التي قد كان بنى، قال: وإذا كل شيء منه قد تغير من العذاب والضرب وإذا هو في قشاش، فقلت: الحمد لله يا بلال لقد رايتك وانت تمر بنا تمسك بانفك من غير غبار وانت في حالك هذا اليوم، فقال: ممن انت؟ فقلت: من بني مرة بن عباد، فقال: الا احدثك حديثا عسى الله ان ينفعك به، قلت: هات، قال: حدثني ابي ابو بردة، عن ابيه ابي موسى، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " لا يصيب عبدا نكبة فما فوقها او دونها إلا بذنب وما يعفو الله عنه اكثر، قال: وقرا: وما اصابكم من مصيبة فبما كسبت ايديكم ويعفو عن كثير سورة الشورى آية 30 ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الْوَازِعِ، قَالَ: حَدَّثَنِي شَيْخٌ مِنْ بَنِي مُرَّةَ، قَالَ: قَدِمْتُ الْكُوفَةَ فَأُخْبِرْتُ، عَنْ بِلَالِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، فَقُلْتُ: إِنَّ فِيهِ لَمُعْتَبَرًا، فَأَتَيْتُهُ وَهُوَ مَحْبُوسٌ فِي دَارِهِ الَّتِي قَدْ كَانَ بَنَى، قَالَ: وَإِذَا كُلُّ شَيْءٍ مِنْهُ قَدْ تَغَيَّرَ مِنَ الْعَذَابِ وَالضَّرْبِ وَإِذَا هُوَ فِي قُشَاشٍ، فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ يَا بِلَالُ لَقَدْ رَأَيْتُكَ وَأَنْتَ تَمُرُّ بِنَا تُمْسِكُ بِأَنْفِكَ مِنْ غَيْرِ غُبَارٍ وَأَنْتَ فِي حَالِكَ هَذَا الْيَوْمَ، فَقَالَ: مِمَّنْ أَنْتَ؟ فَقُلْتُ: مِنْ بَنِي مُرَّةَ بْنِ عَبَّادٍ، فَقَالَ: أَلَا أُحَدِّثُكَ حَدِيثًا عَسَى اللَّهُ أَنْ يَنْفَعَكَ بِهِ، قُلْتُ: هَاتِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي أَبُو بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَبِي مُوسَى، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يُصِيبُ عَبْدًا نَكْبَةٌ فَمَا فَوْقَهَا أَوْ دُونَهَا إِلَّا بِذَنْبٍ وَمَا يَعْفُو اللَّهُ عَنْهُ أَكْثَرُ، قَالَ: وَقَرَأَ: وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ سورة الشورى آية 30 ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
بنی مرہ کے ایک شیخ کہتے ہیں کہ میں کوفہ آیا مجھے بلال بن ابوبردہ ۱؎ کے حالات کا علم ہوا تو میں نے (جی میں) کہا کہ ان میں عبرت و موعظت ہے، میں ان کے پاس آیا، وہ اپنے اس گھر میں محبوس و مقید تھے جسے انہوں نے خود (اپنے عیش و آرام کے لیے) بنوایا تھا، عذاب اور مار پیٹ کے سبب ان کی ہر چیز کی صورت و شکل بدل چکی تھی، وہ چیتھڑا پہنے ہوئے تھے، میں نے کہا: اے بلال! تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، میں نے آپ کو اس وقت بھی دیکھا ہے جب آپ بغیر دھول اور گردوغبار کے (نزاکت و نفاست سے) ناک پکڑ کر ہمارے پاس سے گزر جاتے تھے، اور آج آپ اس حالت میں ہیں؟ انہوں نے کہا: تم کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟ میں نے کہا: بنی مرہ بن عباد سے، انہوں نے کہا: کیا میں تم سے ایک ایسی حدیث نہ بتاؤں جس سے امید ہے کہ اللہ تمہیں اس سے فائدہ پہنچائے گا، میں نے کہا: پیش فرمائیے، انہوں نے کہا: مجھ سے میرے باپ ابوبردہ نے بیان کیا اور وہ اپنے باپ ابوموسیٰ اشعری سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کسی بندے کو چھوٹی یا بڑی جو بھی مصیبت پہنچتی ہے اس کے گناہ کے سبب ہی پہنچتی ہے، اور اللہ اس کے جن گناہوں سے درگزر فرما دیتا ہے وہ تو بہت ہوتے ہیں“۔ پھر انہوں نے آیت پڑھی «وما أصابكم من مصيبة فبما كسبت أيديكم ويعفو عن كثير»(الشورى: 30) پڑھی ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، اور ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9079) (ضعیف الإسناد) (سند میں ”شیخ من بنی مرہ“ مبہم راوی ہے، نیز عبیداللہ بن الوازع الکلابی البصری مجہول ہے)»
وضاحت: ۱؎: یہ ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کے پوتے تھے، بصرہ کے قاضی تھے، بڑے متکبر اور ظالم تھے، کسی وجہ سے قید کر دیئے گئے تھے۔
۲؎: تمہیں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی کے سبب سے پہنچتی ہے، اور بہت سے گناہ تو وہ (یونہی) معاف کر دیتا ہے، یعنی ان کی وجہ سے مصیبت میں نہیں ڈالتا (الشوریٰ: ۳۰)۔