Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
3. باب وَمِنْ سُورَةِ الْبَقَرَةِ
باب: سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 2955
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، ومحمد بن جعفر، وعبد الوهاب، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَوْفُ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ الْأَعْرَابِيِّ، عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَةٍ قَبَضَهَا مِنْ جَمِيعِ الْأَرْضِ، فَجَاءَ بَنُو آدَمَ عَلَى قَدْرِ الْأَرْضِ، فَجَاءَ مِنْهُمُ الْأَحْمَرُ وَالْأَبْيَضُ وَالْأَسْوَدُ، وَبَيْنَ ذَلِكَ، وَالسَّهْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ساری زمین کے ہر حصے سے ایک مٹھی مٹی لے کر اس سے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا، چنانچہ ان کی اولاد میں مٹی کی مناسبت سے کوئی لال، کوئی سفید، کالا اور ان کے درمیان مختلف رنگوں کے اور نرم مزاج و گرم مزاج، بد باطن و پاک طینت لوگ پیدا ہوئے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ السنة 17 (4693) (تحفة الأشراف: 9025)، و مسند احمد (4/400، 406) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہ حدیث سورۃ البقرہ کی آیت: «إني جاعل في الأرض خليفة» (البقرة: 30) کی تفسیر میں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (100) ، الصحيحة (1630)

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2955 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2955  
اردو حاشہ:
1؎:
یہ حدیث سورہ بقرہ کی آیت:
﴿إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً﴾ (البقرة: 30) کی تفسیر میں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2955   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 100  
´تخلیق آدم`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَةٍ قَبَضَهَا مِنْ جَمِيعِ الْأَرْضِ فَجَاءَ بَنُو آدَمَ عَلَى قَدْرِ الْأَرْضِ مِنْهُمُ الْأَحْمَرُ وَالْأَبْيَضُ - [37] - وَالْأَسْوَدُ وَبَيْنَ ذَلِكَ وَالسَّهْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُد . . .»
. . . سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرماتے ہوئے میں نے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو ایک مٹھی مٹی سے پیدا کیا جس کو تمام روئے زمین سے لیا تھا یعنی ہر طرح کی مٹی سرخ، سیاہ، سفید وغیرہ لی گئی تھی، تو آدم کے بیٹے اسی زمین کے مطابق پیدا ہوئے یعنی جس قسم کی مٹی اس کے خمیر میں غالب آئی اس قسم کا اثر ان میں ظاہر ہوا کوئی سرخ رنگ کا، کوئی گورا رنگ کا، کوئی سیاہ و سانولہ رنگ کا، کوئی نرم مزاج کا، کوئی سخت مزاج کا، اور کوئی ناپاک مزاج اور کوئی پاک مزاج کا پیدا ہوا۔ اس حدیث کو احمد، ترمذی اور ابوداود نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 100]
تحقیق الحدیث:
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
اسے ترمذی [2955] ابن حبان [الموارد: 2083]، حاکم [262، 261/2] اور ذہبی نے صحیح کہا ہے۔

فقہ الحدیث:
➊ اللہ تعالیٰ کا زمین سے مٹھی لینا اس کی صفات مبارکہ میں سے ہے، جس پر ایمان لانا واجب ہے، لیکن اسے مخلوق سے تشبیہ دینا یا اس صفت کا سرے سے انکار کر دینا حرام ہے۔ صفات باری تعالیٰ کی تاویل و تشبیہ اور تعطیل کرنا اہل سنت و الجماعت کا مسلک نہیں بلکہ اہل بدعت ہی ایسے راستوں پر گامزن ہیں جن سے کتاب وسنت کا انکار لازم آتا ہے۔
➋ انسانوں کی رنگت زمین کی مٹی اور علاقوں کی وجہ سے ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے۔
➌ عام لوگوں پر علاقائی عقائد، عادات، رسوم و رواج کا اثر ہوتا ہے۔
➍ پاکیزہ (صحیح العقیدہ اور صحیح العمل) لوگ بہت تھوڑے ہیں۔
➎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«يا أيها الناس! ألا إن ربكم واحد، وإن أباكم واحد، ألا لا فضل لعربي علٰي عجمي، ولا لعجمي علٰي عربي، ولا أحمر علٰي أسود، ولا أسود علٰي أحمر إلا بالتقويٰ»
اے لوگو! سن لو! بے شک تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے، آگاہ ہو جاؤ! کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر اور کسی سرخ کو کالے پر اور کسی کالے کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں ہے سواۓ تقویٰ کے (یعنی فضیلت صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے، چاہے سرخ (وسفید) ہو یا کالا، چاہے عربی ہو یا عجمی۔) [مسند أحمد ج 5 ص 411 ح 23489و سنده صحيح]
➏ قوم پرستی، علاقہ پرستی، رنگ پرستی اور (بلاتفریق عقیدہ) وطن پرستی وغیرہ کے نظریات کتاب و سنت کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 100   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4693  
´تقدیر (قضاء و قدر) کا بیان۔`
ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے آدم کو ایک مٹھی مٹی سے پیدا کیا جس کو اس نے ساری زمین سے لیا تھا، چنانچہ آدم کی اولاد اپنی مٹی کی مناسبت سے مختلف رنگ کی ہے، کوئی سفید، کوئی سرخ، کوئی کالا اور کوئی ان کے درمیان، کوئی نرم خو، تو کوئی درشت خو، سخت گیر، کوئی خبیث تو کوئی پاک باز۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4693]
فوائد ومسائل:
اس حدیث میں مجبور اور صاحب اختیار ہونے کا مسئلہ حل فرمایا گیا ہے۔
انسان کا گورا یا کالا ہونا اس کی طبعیت کا سخت یا نرم ہونا۔
ایسا معاملہ ہے جس میں اس کا اپنا کوئی اختیار نہیں اس میں وہ مجبور محض ہے۔
مگر اسے اختیار ہے کہ طبعیت کی نرمی کو اہل ایمان کے لئے سختی کو کفار کے مقابلے میں استعمال کرے۔
اسی طرح جس میں خیر اور بھلائی کا عنصر ہے اسے اپنے خالق کا بہت زیادہ شکر ادا کرتے ہوئے اپنی اس خیر اور بھلائی کی حفاظت کرنی چاہیے اور جس میں دوسری کیفیت ہو اسے چاہیے کہ رب ذوالجلال کی طرف رجوع کرے اور توفیق طلب کرے کہ وہ اس کی اس حالت کو بدل دے، مگر اپنی غلط عادات پر ڈٹے رہنا اور تقدیر کو مورد الزام ٹھہرانا کسی طرح جائز نہیں۔
اگر تقدیر کے معنی جبر ہوں تو یہ لوگ اپنی بد قماشیوں میں کیوں محنت کرتے ہیں؟ یہ محنت اور کوشش نیکی اور خیر کے لئے بھی ہو سکتی ہے!وہ بد قماشی یا مادی فائدہ اپنی محنت کے ثمرات سمجھتے ہیں تو ان کے ذمہ دار بھی ہیں۔
اللہ تعالی نے زندگی، صحت،عافیت، فہم وفراست اور صلاحیت اور اچھائی سے فطری محبت جیسی تمام نعمتوں سے ہر انسان کو نیکی کی توفیق دی ہوئی ہے، نیکی ہی راستے پر ہر ایک کو آگے بڑھنا چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4693