كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: تفسیر قرآن کریم 59. باب وَمِنْ سُورَةِ الْحَشْرِ باب: سورۃ الحشر سے بعض آیات کی تفسیر۔
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کے کھجور کے درخت جلا دئیے اور کاٹ ڈالے، اس جگہ کا نام بویرہ تھا، اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها فبإذن الله وليخزي الفاسقين» ”جو ان کے درخت تم نے کاٹے یا ان کو اپنی جڑوں پر قائم (و سالم) چھوڑ دیا یہ سب کچھ اذن الٰہی سے تھا، اور اس لیے بھی تھا کہ اللہ ایسے فاسقوں کو رسوا کرے“ (الحشر: ۵)، نازل فرمائی ۱؎۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المزارعة 4 (2356)، والجھاد 154 (3020)، والمغازي 14 (3960)، صحیح مسلم/الجھاد 10 (1746)، سنن ابی داود/ الجھاد 91 (2615)، سنن ابن ماجہ/الجھاد (2844)، وسنن الدارمی/السیر 23 (2503) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ غزوہ بنو نضیر کا واقعہ ہے، جس میں ایک جنگی مصلحت کے تحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے بعض کھجور کے درختوں کو کاٹ ڈالنے کا حکم دیا تھا، اس پر یہودیوں نے یہ پروپیگنڈہ کیا تھا کہ دیکھو محمد دین الٰہی کے دعویدار بنتے ہیں، بھلا دین الٰہی میں پھلدار درختوں کو کاٹ ڈالنے کا معاملہ جائز ہو سکتا ہے؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو جواب دیا کہ یہ سب اللہ کے حکم سے کسی مصلحت کے تحت ہوا (ایک خاص مصلحت یہ تھی کہ یہ مسلمانوں کی حکومت اور غلبے کا اظہار تھا)۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2844)
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما آیت «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها» کی تفسیر میں فرماتے ہیں: «لينة» سے مراد کھجور کے درخت ہیں اور «وليخزي الفاسقين» (تاکہ اللہ فاسقوں کو ذلیل کرے) کے بارے میں کہتے ہیں: ان کی ذلت یہی ہے کہ مسلمانوں نے انہیں ان کے قلعوں سے نکال بھگایا اور (مسلمانوں کو یہود کے) کھجور کے درخت کاٹ ڈالنے کا حکم دیا گیا، تو ان کے دلوں میں یہ بات کھٹکی، مسلمانوں نے کہا: ہم نے بعض درخت کاٹ ڈالے اور بعض چھوڑ دیئے ہیں تو اب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھیں گے کہ ہم نے جو درخت کاٹے ہیں کیا ہمیں ان کا کچھ اجر و ثواب ملے گا، اور جو درخت ہم نے نہیں کاٹے ہیں کیا ہمیں اس کا کچھ عذاب ہو گا؟ تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی، «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها» ”تم نے کھجوروں کے جو درخت کاٹ ڈالے یا جنہیں تم نے ان کی جڑوں پر باقی رہنے دیا، یہ سب اللہ تعالیٰ کے فرمان سے تھا اور اس لیے بھی تھا کہ اللہ فاسقوں کو رسوا کرے“۔
یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 5488) (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
بعض اور لوگوں نے یہ حدیث بطریق: «حفص بن غياث عن حبيب بن أبي عمرة عن سعيد بن جبير» مرسلاً روایت کی ہے، اور اس کی سند میں عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کا ذکر نہیں کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک انصاری شخص کے پاس رات میں ایک مہمان آیا، اس انصاری کے پاس (اس وقت) صرف اس کے اور اس کے بچوں بھر کا ہی کھانا تھا، اس نے اپنی بیوی سے کہا (ایسا کرو) بچوں کو (کسی طرح) سلا دو اور (کھانا کھلانے چلو تو) چراغ بجھا دو، اور جو کچھ تمہارے پاس ہو وہ مہمان کے قریب رکھ دو، اس پر آیت «ويؤثرون على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة» ”یہ خود محتاج و ضرورت مند ہوتے ہوئے بھی اپنے پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں“ (الحشر: ۹)، نازل ہوئی ۱؎۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/مناقب الأنصار 10 (3797)، وتفسیر سورة الحشر 6 (4889)، صحیح مسلم/الأشربة 32 (2054) (تحفة الأشراف: 13419) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ انصاری شخص ابوطلحہ رضی الله عنہ تھے، جیسا کہ صحیح مسلم میں صراحت ہے، اس واقعہ میں یہ بھی ہے کہ دونوں میاں بیوی اندھیرے میں برتن اپنے سامنے رکھ کر خود بھی کھانے کا مظاہرہ کر رہے تھے تاکہ مہمان کو یہ اندازہ ہو کہ وہ بھی کھا رہے ہیں، چراغ بجھا دینے کی یہی حکمت تھی۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|